عليؑ بزبان علي ؑ

باسم رب أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب  '' روحي لہ الفداء  ''
قال أميرالمؤمنين عليہ السلام:((أري نورالوحي والرسالة و أشمُّ ريح النبوّة . ((
آ غا ز سخن
اس ميں کوئي شک و شبہ نہيں کہ مکتب اہل بيت  عليہم السلام ميں امامت ايک خدائي منصب ہے اور اسي وجہ سے اسے ايک خاص اہميت حاصل ہے . اور اسے اسلام کے اساسي اصول ميں شمار کيا جاتاہے .
انسان کبھي بھي آسماني رہبري ،رہنمائي اور ہدايت سے بے نياز نہيں ہے . لہذ ا نسان حجت خدا کا ہر حال ميں محتاج ہے . وہ حجت خدا چاہے نبي ہو ياامام معصوم ہو ، اسي وجہ سے کہا جاتاہے کہ زمين حجت خدا سے کبھي بھي خالي نہيں ہوتي لہٰذا ختم نبوت کے بعد جب تک يہ زمين باقي ہے امام معصوم کا ہونا ضروري ہے .
حضرت امير المؤمنين علي بن ابي طالب  عليہ السلام فرماتے ہيں :
‘‘ ولم يخلِ اللّہُ سبحانہ خلقہ من نبيّ مرسلٍ ، او کتابٍ منزلٍ ، اوحُجّةٍ لازمةٍ ، او محجةٍ قائمةٍ  ’’ (١)
ترجمہ :اور اللہ سبحانہ نے اپني مخلوق کو بغير کسي فرستادہ پيغمبر يا آسماني کتاب يا دليل قطعي يا طريق روشن کے کبھي يونہي نہيں چھوڑا .
حجة لازمة  يعني يقيني حجت ، دليل قطعي ، اس سے کيا مراد ہے ؟
بعض کا خيال ہے کہ‘‘ حجة لازمة  ’’ سے مراد نبي اور کتاب ہے . بعض يہ گمان کرتے ہيں کہ اس سے مراد عقل ہے . حق و انصاف يہ ہے کہ کلام اميرالمؤمنين    علي  عليہ السلام ميں  ‘‘ حجة لازمة  ’’ سے مراد امام معصوم ہے اس لئے کہ اصل کلام ميں تأسيس ہے نہ کہ تاکيد ، پس جب تأسيس و تاکيد ميں امر دائر ہو تو اصل تاسيس ہے يعني کلام کو جديد معني پرحمل کرناچاہيے . اسي قاعدہ کي بنا پر‘‘ حجة لازمة  ’’  سے مراد نبي اور کتاب ممکن نہيں ہے . اس لئے کہ ان دونوں کا ذکر کلام مولا  ميں ہوچکا ہے . اب دوبارہ يہي معني مراد لينا تاکيد و تکرار ہے جو کہ خلافِ قاعدہ ہے .
او ر اسي طرح اس سےمراد عقل بھي نہيں ہے اس لئے کيونکہ عقل کا دائرہ بہت محدود ہے ، عقل تو فقط عقلي مستقلات کو مستقل طور پر درک کرتي ہے لہٰذا اس کي حجت اور اسکي دوڑ مستقلات عقليہ تک محدود و منحصر ہے .
مرحوم علامہ حبيب ا للہ خوئي ؒ   فرماتے ہيں : ‘‘ فقد تحصّل مما ذکرنا ان المراد بالحجة في کلامہ عليہ السلام ھو الامام المعصوم  ’’ (٢)
ترجمہ:  پس بتحقيق جو کچھ ہم ذکر کر چکے ہيں اس سے يہ حاصل ہو ا کہ حضرت اميرالمؤمنين علي  عليہ السلام کے کلام ميں  ‘‘ حجة لازمة  ’’ سے مراد وہي امام معصوم ہے .
تفصيل کے خواہان حضرات ان کا مکمل کلام بمع دليل  '' منھاج البراعة في شرح نھج البلاغہ  '' ج ١ ص ١٥٧ الي ١٦٠ ميں ملاحظہ فرمائيں .
بہر حال زمين کبھي بھي حجت خدا سے خالي نہيں ہوسکتي لہٰذ اہر صورت ميں حجت خدا کا ہونا ضروري ہے .
حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلام  فرماتے ہيں:‘‘ اللھم انّک لاتخليٰ ارضک من حجةٍ لک علي خلقِک ’’ (٣)
ترجمہ : اے اللہ ! بتحقيق تونے اپني مخلوق پر اپني حجت سے زمين کو خالي نہيں چھوڑا .
حضرت علي بن ابي طالب  عليہ السلام اسي سلسلہ ميں يہ بھي فرماتے ہيں: ‘‘ اللھم بليٰ ! لا تخلو الارضُ من قائمٍ للّہ بحجةٍ : ِما ظاھرا ً مشھورا او خائفاً مغمورا ً  ’’ (٤)
ترجمہ : اے اللہ ہاں ! مگر زمين ايسے افراد سے خالي نہيں رہتي کہ جوخدا کي حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو يا خائف و پنہاں .
حضر ت امام محمد باقر  عليہ السلام کا ارشاد گرامي ہے : ‘‘ واللّہِ ماترک اللّہُ ارضاً مند قبض اللّہُ آدم الا فيھا امام يھتدي بہ الي اللّہ ، و ھو حجة  علي عبادہ ولاتبقي الارضُ بغير امامٍ حجةٍ للّہ علي عبادہ .  ’’(۵)
ترجمہ : اللہ کي قسم ! اللہ تعاليٰ نے جب سے آدم  ؑ کو زمين سے اٹھاليا ہے ، اسے نہيں چھوڑا سوائے اس کے کہ اس ميں ايک امام جس  کے طفيل اللہ کي طرف ہدايت کي جائے اور وہ امام اللہ کے بندوں پر اللہ کي حجت ہے ، اور زمين ايسے امام کے بغير باقي نہيں رہ سکتي جو اللہ کي جانب سے اس کے بند وں پر حجت ہو .
حضرت امام سجاد  عليہ السلام فرماتے ہيں:   ‘‘ نحن ائمة المسلمين و حجج  اللّہ علي العالمين ۔۔۔ و لولا ما في الارض مِنّا لساخت بأھلھا ’’ (٦ )
ترجمہ : ہم مسلمانوں کے امام اورعالمين پر اللہ کي حجت ہيں ۔۔۔ اور اگر زمين ميں ہم ميں سے کوئي نہ ہوتا تو يقينا زمين اپنے ساکنين سميت دھنس جاتي .
حضرت امام محمد باقر  عليہ السلام فرماتے ہيں : ‘‘ لو ان الامام رفع من الارض ساعةً لساخت بأھلھا ...  ’’ (٧(
ترجمہ: اگرزمين سے ايک لحظہ کيلئے امام کو اٹھاليا جائے تو بلاشبہ وہ اپنے ساکنين کو لے کر دھنس جائے گي .حضرت امام صادق  عليہ السلام فرماتے ہيں:‘‘ان اللّہ أجلُّ واعظم من ان يترک الارض بغير امام عادل  ’’  (٨)
ترجمہ: بتحقيق اللہ تعاليٰ اس سے بزرگ و برتر ہے کہ زمين کو اما م عادل کے بغير چھوڑدے .
حضرت امام علي بن موسيٰ الرضا    عليہ السلام سے محمد بن فضيل نے سؤال کيا کہ : ‘‘تکون الارض و لا امام فيھا؟ فقال : لا ، لو بقيت الارض بغير امام لساخت ’’ (٩) کيا زمين باقي رہ سکتي ہے حالانکہ اس ميں کوئي امام نہ ہو ؟ آپؑ  نے فرمايا: نہيں ، اگر زمين بغير امام کے ہو جائے تو يقينا دھنس جائے گي .
حضرت امام صادق  ؑ سے ابو حمزہ ثمالي نے سوال کيا کہ : تبقيٰ الارض بغير امامٍ؟ يعني کيا زمين بغير امام کے باقي رہ سکتي ہے ؟ آپ  ؑنے اس سوال کے جواب ميں فرمايا:  ‘‘ لو بقيت الارض بغير امامٍ لساخت ’’  (١٠)
ترجمہ : اگر زمين بدون امام باقي رہے تو حتما ً و ہ دھنس جائے گي .
سليمان جعفري کہتے ہيں : ميں نے امام رضا عليہ السلام سے سوال کيا : تخلوالارض من حجة للّہِ ؟ آيا زمين حجت خدا سے خالي ہوسکتي ہے ؟ آپ  نے فرمايا: ‘‘ لو خَلتِ الارضُ طرفةَ عينٍ من حجةٍ لساخت بأھلھا  ’’ ( ١١(
ترجمہ : اگر پلک جھپک کيلئے زمين حجت خدا سے خالي ہو جائے تو بتحقيق و ہ اپنے ساکنين کے ساتھ ڈوب جائے گي .
ان روايات ميں‘‘  لساخت  ’’ کا مطلب يا تويہ ہے کہ زمين پاني ميں واقعاًاور حقيقة ڈوب جائے گي . يا يہ ہلاکت بشر اور نظام زمين کي تباہي و بربادي سے کنايہ ہے .
علامہ حبيب اللہ خوئي    ؒنے مذکورہ مطلب کو ان الفاظ کے ساتھ بيان فرماياہے : ‘‘ والمراد بہ في الاخبار ِماغوصھا في الماءِ حقيقةً او کناية عن ھلاک البشر و ذھاب نظامھا ...  ’’ (١٢)
بہر حال گزشتہ روايات بلاشبہ معنوي لحاظ سے متواتر ہيں اور ان روايات سے وجود امام کا فائدہ روزِ روشن کي طرح عياں ہو جاتاہے . اور  اہميت معرفت امام آشکار ہوجاتي ہے .
ايک طرف يہ تمام روايات ہيں اور دوسر ي طرف حضرت محمد   کي وہ احاديث ہيں جن ميں عدم معرفت امام کو مرگ جاہلي کہا گيا ہے . ہم اختصار کے پيش نظر فقط تيمناً و تبرکا ً چند احاديث بدون ترجمہ و تفسير ذکر تے ہيں :
١۔ ‘‘ من مات ولم يعرف امام زمانہ مات ميتةً جاھلية ً  ’’ (١٣)
٢۔ ‘‘ من مات بغير امامٍ مات ميتةً جاھليةً  ’’ (١٤ )
٣۔ ‘‘من مات ولا امام مات ميتةً جاھليةً’’ (١٥)
٤۔‘‘من مات وليس عليہ امام مات ميتة جاھلةً ’’ (١٦(
٥۔ ‘‘من مات و ليس لہ امام مات ميتةً جاھلية ً  ’’(١٧(
٦۔‘‘ من مات و ليس  في عنقہ بيعة مات ميتة جاھليةً’’ (١٨)
اس طرح کي روايات اس حد تک زيادہ ہيں کہ انہيں شمار نہيں کيا جاسکتا لہٰذ اہم نے بعنوان نمونہ چند احاديث پيش کي ہيں .
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان تمام احاديث رسول اکرم ﷺ کا مطلب کيا ہے ؟
اس سوال کا جواب چند جملوں ميں پيش کيا جاتاہے :
١۔امام کا وجود ضروري ہے.
٢۔اما م کي معرفت واجب عيني ہے .
٣۔عدم معرفت امام کي صورت ميں انسان اسلام سے خارج ہو جاتاہے .
٤۔معرفت امام کسي خاص وقت ، يا شخص يا مکان و زمان وغير ہ کے ساتھ مخصوص نہيں ہے .
اس لئے کہ روايات ميں اطلاق پايا جاتاہے .
٥۔امام کا معصوم ہونا ضروري ہے اس لئے کہ امام معصوم اور حجت خدا کے علاوہ تمام انسان ہدايت امام معصوم کے محتاج ہيں اور يہ بحکم اطلاق روايات ہے .
واضح رہے کہ موضوع حکم سے خارج ہوتا ہے والاّ دور و تسلسل لازم آئے گا يہ دونوں ( دور و تسلسل ) عقلاً محال ہيں .
بہر حال امام کي معرفت ضروري ہے اور اسي معرفت کي وجہ سے عالم آخرت ميں نجات ہوگي . اور جو شخص دنيا سے امام وقت کي معرفت نہ رکھتے ہوئے چلا جائے تو وہ بڑے گھاٹے ميں ہے . اور آخرت ميں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے .
حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلام اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں : '' انما الائمة قوام اللہ عليٰ خلقہ و عرفاؤہ علي عبادہ ، ولايدخل الجنة الا من عرفھم و عرفوہ ، ولايدخل النار لا من أنکرہ و أنکروہ .  '' (١٩(
ترجمہ : بلاشبہ ائمہعليہم السلام اللہ کے ٹھرائے ہوئے اللہ کي مخلوق پر حاکم ہيں اور اس کو بندوں سے پھچنوانے والے ہيں . اور جنت ميں صرف وہي جاسکے گا جسے ان کي معرفت حاصل ہو . اوروہ بھي اسے پہنچانيں اور دوزخ ميں فقط وہي داخل ہو گا جو نہ انہيں پہنچانے اورنہ ہي وہ اسے پہنچانيں .
اس سے معلوم ہواکہ معرفت امام کے سواہر عمل بے کار ہے. لہٰذا کامياب وہ ہے جو حقيقي ائمہ  ؑکي صحيح معرفت رکھے اور ائمہ بھي اسے اپنا قرار ديں . اور اگر ائمہ کامنکر ہوجائے تو نتيجہ ميں ائمہ بھي اسے اپنا مأموم تسليم نہيں کريں گے . تو يقينا ايسا شخص جہنمي ہے .
حضرت امام علي بن ابي طالب  ‘‘ روحي لہ الفداء  ’’اورفرماتے ہيں : ‘‘ ... فانہ من مات منکم عليٰ فراشہ ، و ھو علي معرفة حق ربہ وحق رسولہ واھلبيتہ ،مات شھيد اً وقع أجرہ علي اللہ واستوجب ثواب ما نويٰ من صالح عملہ ، وقامت النيّة مقام اصلاتہ لسيفہ ’’. (٢٠(
ترجمہ :   بيشک تم ميں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ان کے اہل بيت ؑکے حق کو پہنچانتے ہوئے بستر پربھي دم توڑ دے وہ شہيد مرتا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اورجس عمل خير کي نيت اس نے کي ہے اس کے ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے . اور اس کي يہ نيت تلوار سونتے کے مقام پر ہے .
اب اس مقام پر چند سوال سامنے آرہے ہيں وہ يہ ہيں :
١۔حضرت رسالتمآ ب  ﷺکے بعد حجت خدا اور مسلمانوں کا امام اور آنحضرت ؐکا حقيقي خليفہ کون ہے ؟
٢۔اس خليفہ اورنائب برحق مصطفيٰ  ﷺ کي خصوصيات کونسي ہيں ؟
٣۔صاحب نہج البلاغہ حضرت علي بن ابي طالب  '' روحي الفداء  '' کا موقف کيا ہے ؟
٤۔کيا امت نے صاحبِ حق کو حق ديا يا نہيں ؟
٥۔حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلام نے اپنا تعارف کس طرح کروايا ہے ؟
نوٹ :ان تمام سوالات اور اس طرح کے دوسرے سوالات کے جوابات ہم ان شاء اللہ العزيز آئندبار ہ فصلوں کے ضمن  ميں بيان کريں گے اور بحث کا محور اور مرکزي نقطہ نہج البلاغہ ہي رہے گا ليکن دوسري کتب سے کلام علي  عليہ السلام کوبھي ذکر کرنے سے ناگريز ہيں .
پہلي فصل
امام اوّل کا اجمالي تعارف
نام مبارک : علي  ( اللہ کے حکم سے حضرت اميرالمؤمنين  ؑکا نام علي رکھا گيا )
کنيت: ابوالحسن ، ابوالحسين ، ابو الريحانتين ، ابو السبطين ، ابو محمد ، ابوالشہداء  و ...
القاب : باب مدينة العلم ، مصباح الدجيٰ ، شمس الضحيٰ ، مرتضيٰ ، کشاف الکروب ، صاحب اللواء ، کاسراصنام الکعبة ، نفس الرسولؐ، زوج البتول   ، قدوة اھل الکساء ، ولي اللہ ، سيف اللہ المسلول ، غيث الوريٰ ، مصليٰ القبلتين ، الضارب بالسيفين ، الکوکب الازھر و ...  ( مرحوم مقدس اردبيلي ؒکے بقول حضرت علي ؑ کے تقريبا ً پانچ سو لقب ہيں ) (٢١)
والد گرامي : عمران ابو طالب عليہ السلام
والدہ محترمہ: فاطمہ بنت اسد
تاريخ ولادت :١٣رجب المرجب ٣٠ سال عام الفيل کے بعد اور تقريباً ٢٣ سال ہجرت رسول اکرمﷺ سے قبل .
جائے ولادت :مکہ مکرمہ بيت اللہ الحرام خانہ کعبہ کے وسط ميں اس سلسلہ ميں تفصيل کيلئے  ‘‘ عليؑ وليد کعبہ’’ کا مطالعہ بے انتہا مفيد ہے. ( شاہ ولي اللہ دھلوي : تواترت الاخبار ان فاطمہ بنت اسد ٍ ولدت اميرالمؤمنين علياً في جوف الکعبة فانہ ولد في يوم الجمعة ... ولم يولد احد سواہ قبلہ ولابعدہ ) (٢٢)
مدت امامت : ٣٠
تاريخ اور سبب شہادت : ١٩ماہ رمضان المبار ک ٤٠ھ  بوقت نماز صبح حالت سجدہ ميں عبدالرحمن بن ملجم مرادي لعنة اللہ عليہ نے آپکو زہر آلود تلوار کي کاري ضربت لگائي جس کے نتيجہ ميں آپ نے ٢١ رمضا ن المبارک کو جام شہادت نوش فرمايا.
محل دفن  :  نجف اشرف  (عراق)

دوسري فصل :
علي عليہ السلام نائب حقيقي مصطفي   ﷺ
حضرت اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب  عليہ السلام آنحضرت ﷺکے خليفہ بلافصل ہيں اور اس مطلب کے اثبات ميں علماء و بزرگان نے ايسي عقلي ، قرآني اور روائي ادلّہ يقينيہ ذکر فرمائي ہيں جو منصف شخص کي ہدايت کئے لئے کافي ہيں . اس سلسلہ ميں علم کلام کي مختصر کتاب سے لے کر تفصيلي کتاب کا مطالعہ انتہائي مفيد رہے گا . اختصار کي وجہ سے ہم صرف چند کتب کے اسماء پر اکتفاء کرتے ہيں .
١۔ الشافي في الامامۃ  ٢۔ الصراط المستقيم   ٣۔ عبقات الانوار   ٤۔ احقاق الحق  ٥۔ الغدير ٦۔ الالفين ٧۔ نہج الحق وکشف الصدق   ٨۔ منھاج الکرامۃ٩۔ حق اليقين ( علامہ عبد اللہ شبر  ) ١٠۔ المراجعات  ١١۔ نفحات الزھار في خلاصة عبقات الانوار ، و... اللہ تعاليٰ ان تمام بزرگوں کو جزائے خير عطافرمائے .
بہر حال حضرت علي عليہ السلام نے خلافت کا دعويٰ کيا ہے اوربنص آيہ مباہلہ و ہ رسول اللہﷺ کي مانند صادق ہيں اور بنص آيہ تطہير معصوم ہيں . لہٰذا وہ يقينا اپنے دعويٰ ميں بھي صادق ہيں پس وہي خليفہ بلا فصل رسول اکرم ﷺ ہيں.
اب نہج البلاغہ ميں صرف ان چند موارد کا ذکر کر رہے ہيں جن ميں حضرت علي عليہ السلام  نے خلافت کا دعويٰ فرمايا ہے . البتہ ہم فقط بعنوان نمونہ چند موارد ذکر کررہے ہيں وگرنہ موارد تو زيادہ ہيں :
١۔  ‘‘ أما واللہ لقد تقمصھا فلان ( ابن ابي قحافہ ) و انہ ليعلم أن محلي منھا محل القطب من الرحيٰ ، ينحدر عني السيل ولايرقيٰ لي الطيرُ ...  ’’ (٢٣) ترجمہ : آگاہ رہو اللہ کي قسم ! بيشک فلاں ( ابو قحافہ کے فرزند ) نے پيراہن خلافت کو کھينچ تان کر پہن ليا ہے . حالانکہ وہ يہ اچھي طرح جانتا ہے کہ ميرا خلافت ميں وہي مقام ہے جو چکي کے اندر اس کي کيل کا ہونا ہے . ميں وہ ( کوہ بلند ہوں ) جس پر سے سيلاب کا پاني گزر کرنيچے گرجا تاہے . اور مجھ تک پرندہ پر نہيں مار سکتا.
نوٹ: ترجمہ مفتي جعفر حسين  ميں فلاں کي جگہ  '' ابن ابي قحافہ  '' استعمال ہوا ہے . صفحات کي محدوديت کي وجہ سے شرح و بسط سے معذرت طلب کرتے ہيں .
اگر کوئي دوسري دليل امامت اور خلافت اورمظلوميت علي عليہ السلام کيلئے نہ ہوتي تو يہ يہي خطبہ کافي تھا .شرح و بسط کے ساتھ اسي عنوان کے دو مضمون اسي ميں موجود ہيں .
٢۔ ‘‘ اللّٰھم اني أستعديک علي قريش فانھم قطعوا رحمي و اکفأوانائي و أجمعوا علي منازعتي حقاً کنت أوليٰ بہ من غيري ... ’’ (٢٤ ( ترجمہ :اے اللہ ميں قريش سے انتقام لينے پر تجھے سے مدد کا خواستگار ہوں اس لئے کہ انہوں نے ميري قرابت و عزيز داري کے بندھن توڑ دئيے اورميرے ظر ف ( عزو حرمت ، خلافت ) کو اوندھا کر ديا ہے اور اس حق ميں کہ جس کا ميں سب سے زيادہ اہل ہوں جگڑا کرنے کيلئے ايکا و اتحاد کر ليا ... ’’
٣۔ ‘‘لقد علمتم أني أحق الناس بھا من غيري ...  ’’(٢٥) ترجمہ : بتحقيق تم جانتے ہوکہ بيشک مجھے سب لوگوں سے زيادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے .
٤۔  فنحن مرة أوليٰ بالقرابة ِ ، وتارةً أوليٰ بالطاعةِ ، ولما احتج المھاجرون علي الألنصار يوم السقيفة برسول اللہ  فلجوا عليھم ، فان يکن الفلج بہ فالحق لنا دونکم .'' (٢٦( ترجمہ : ہميں قرابت کي وجہ سے بھي دوسروں پر فوقيت حاصل ہے اور اطاعت کي وجہ سے بھي ہمار ا حق فائق ہے اورسقيفہ کے دن جب مہاجرين نے   رسول اللہ ﷺکي قرابت کواستدلال ميں پيش کيا تو انصار کے مقابلہ ميں کامياب ہوئے تو اگر انکي کاميابي قرابت کي وجہ سے تھي تو پھر بھي خلافت ہمارا حق ہے .
٥۔  ‘‘ واعجباہ أتکون الخلافة بالصحابة والقرابة ’’  (٢٧) ترجمہ : عجب کيا خلافت کا معيار صحابيت اور قرابت ہي ہے ؟
اس فرمان کے ذيل ميں حضرت سيد رضي رضوان اللہ تعاليٰ عليہ فرماتے ہيں :
اس مضمون کے اشعار بھي حضرت سے مروي ہيں جو يہ ہيں :
            ‘‘ فان کنت بالشوريٰ ملکت أمورھم                   فکيف بھذا والمشيروں غُيَّبُ ؟

             و ان کنت بالقرابة حججت خصيمھم                فغيرکَ أولي بالنبيّ أو قرب ُ  ’’(٢٨)
ترجمہ :اگر تم لوگوں کے امور کے مالک شوريٰ کے ذريعہ ہوئے ہو تويہ کس طرح جبکہ مشورہ دينے کے حقدار افراد موجود نہ تھے . اور اگر قرابت کي وجہ سے تم اپنے حرف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسرانبيؐ کا زيادہ حق دار اور ان سے زيادہ قريبي ہے .
ان پانچ فرامين پہ غور و فکر کرنے سے حقيقت بالکل عياں ہو جاتي ہے کہ خلافت علي  عليہ السلام کا حق تھا دوسروں نے اس حق کو حقدار سے چھين ليا اور غاصبان خلافت بن گئے .
تيسري فصل
ايمان، اسلام اور عبادت ميں سب سے سبقت
يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ علي بن ابي طالب  ‘‘ روحي لہ الفداء  ’’نے اللہ او ر اس کے رسول ﷺ پر ايما ن لانے ميں سب سے سبقت اور پہل حاصل کي اور اس فضيلت کا اقرار اور اعتراف موافق و مخالف نے اپني کتابوں ميں کيا ہے .
ميں ا س عظيم انسان کے ايمان کے متعلق کيا لکھوں جس کو رسالتمآ بؐ  کل ايمان قرار ديں ليکن من باب المماشاة مع القوم عرض کر رہا ہوں کہ        حضرت علي بن ابي طالب عليہ السلام   اللہ اور اس کے رسولﷺ پر سب سے پہلے ايمان لائے . آپ  پہلے مومن ہيں .
اس لئے کہ حضرت علي بن ابي طالب   عليہ السلام نے انکار ہي کب کيا تھا کہ وہ اقرار فر ماتے ہاں علي الظاہر جو انہوں  نےايمان کا اظہار سب سے پہلے کيا ہے اس ميں مصلحت تھي جسے وہ خود بہتر جانتے تھے . ان کے سامنے اپنے والد بزرگوار کي سيرت بھي ہے اور مستقبل کي تہمتيں بھي ہيں جو لوگوں نے ابو طالب ؑپر لگا ئيں گے .آپ  نے ان الزاموں اور تہمتوں سے بچنے کيلئے يہ اظہار فرماياتاکہ الزام تراشي کا راستہ ہي بند ہو جائے .
و گرنہ حقيقت حال تو يہ ہے کہ علي  ؑاپنے بھائي رسالتمآ ب ﷺ کي مانند اول مخلوق ہيں اور شاہد  ‘‘ ازل ’’ و‘‘ ابد’’ ہيں .
علي بن ابي طالب عليہ السلام کے مقد س نام کا ورد حضرت آدم  ؑفرماياکرتے تھے اور ا ن مقدس انوار کے سبب اللہ نے اس کي توبہ کو قبول فرمايا.
حضرت نوح   ؑاپني کشتي کو امواج کے خطروں سے صحيح و سالم نکلنے کيلئے يا علي  ؑياعلي  ؑکہتے رہتے تھے . تمام انبياء   اپني دعائوں ميں اللہ کو پنجتن پاکؑ اور خصوصاًعلي بن ابي طالب  ؑکي قسم او ر واسطہ ديتے تھے اور معنوي درجات مانگتے تھے .
علي ؑتو شکم مادر ميں رہتے ہوئے اپني ماں کے مونس و مددگار تھے . اور اپني مادر گرامي کو بتوں کے قريب گزرنے سے بھي روکتے تھے . عليؑ کي عظمت خاطر ديوار کعبہ شگافتہ ہوئي ، علي ؑ کي ولادت کے باعث کعبہ کي عظمت دوہري ہو گئي . ہاں کعبہ ميں ولادت حضرت علي  عليہ السلام کي ايسي فضيلت ہے جس ميں کوئي نبي اور اولوالعزم رسول بھي شريک نہيں ہے . بہر حال يہ تين دن کا بچہ سورۂ مؤمنون کي تلاوت اس وقت کررہا ہے جس وقت ابھي قرآن نازل ہي نہيں ہوا ...
بہرحال ہم سبقت کے بارے ميں اپنے مولاکے فقط چند فرمان بعنوان تبر ک و تيمن ذکر کر رہے ہيں :
 ١۔‘‘ ... واللہ أنا اوّلُ من صدّقہ  ...  ’’(٢٩( ترجمہ : اور اللہ کي قسم ميں وہ ہوں جس نے سب سے قبل آپ ؐکي تصديق کي .
انواع تاکيد ميں شديد ترين نوع قسم ہے . لہٰذا حضرت اميرؑ  قسم کے ذريعہ منکر کيلئے تاکيد بيان کررہے ہيں .
٢۔ ‘‘ اللّھم اني اول من اناب ، وسمع و اجاب لم يسبقني لا رسول اللہ  ۖ  بالصلواة  ’’(٣٠) ترجمہ : اے اللہ ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تيري طرف رجوع کيا اور تير ے حکم کو سن کر لبيک کہي اور رسول اللہ  ﷺ کے علاوہ کسي نے بھي نماز پڑھنے ميں مجھ پر سبقت نہيں کي .
مختصر عرض :
فارسي زبان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ايک خطيب حضرت خديجة الکبريٰ   کي عظمت بيان کرتے ہوئے اس پر بھي اصرار کر رہے تھے کہ خديجة الکبريٰ     اتني عظيم ہے کہ علي بن ابي طالب  ؑپر بھي ايما ن ميں سبقت کرلي و ...
دوسر ے دن ہماري اس سے کسي جگہ ملاقات ہوگئي بات وہي چلي ہم نے کہا : يہ صحيح نہيں ہے ، و ہ فورا ً پوچھنے لگے کہ صحيح کيا ہے ؟ ہم نے کہا صحيح يہ ہے کہ حضرت خديجۃ الکبريٰ   ،حضرت علي ؑ کے بعد ايمان لائي ہيں. اور رسول اللہ  کے ساتھ نماز ادا کي ہے . حضرت علي ؑبعثت سے قبل رسول اللہ  کے ساتھ غارِ حرا ميں نماز پڑھتے تھے .و ...
اس فرمان ميں غور و فکر کيجئے کہ حضرت مقام بيان ميں ہيں اور فقط رسالتمآ ب   کو استثنا ء کر رہے ہيں لہٰذا اگر حضرت خديجۃ الکبريٰ   نے بھي سبقت کي ہوتي تو اس کا بھي ضرور ذکر کرتے اس ليے کہ تأخيرالبيان عن وقت الحاجة قبيح ہے .
ہمارے پاس اس موضوع پر گفتگو کرنے کي گنجائش بہت ہے ليکن صفات ميں گنجائش نہيں ہے .
٣۔ ‘‘و أما البراء ة فلا تتبرّؤا مني، فاني ولدت علي الفطرة ِ، و سبقتُ الي الايمان و الھجرة  ’’ (٣١( ترجمہ : اور ليکن (دل سے ) مجھ سے بيزاري و برائت اختيار نہ کرنا اس لئے کہ ميں ( دين ) فطرت پر پيدا ہوا ہوں اور ايمان و ہجرت ميں سابق ہوں .
٤۔ '' اني اوّلُ مؤمنٍ بک يا رسول اللّہ ... '' (٣٢( ترجمہ :  بتحقيق ميں اے اللہ کے رسول   آپ پر سب سے پہلے ايمان لانے ولا ہوں .
٥۔ ‘‘ولقد بلغني أنکم تقولون : علي يکذب ، قاتلکم اللّہ تعالي !فعليٰ من اکذب ؟؟ أعلي اللّہ ؟ فان اوّلُ من اٰمن بہ ، ام علي نبيہ ؟ فأنا اوّل من صدقہ  ’’(٣٣( ترجمہ : اور مجھے يہ خبر پہنچي ہے کہ تم کہتے ہو کہ علي ؑ غلط بياني کرتے ہيں .خدا تمہيں ہلاک کر دے (بتائو ) ميں کس پر جھوٹ باندھ سکتاہوں ،کيا اللہ پر ؟ ميں تو سب سے پہلے اس پر ايمان لانے والا ہو ں ، يا اس کے نبي پر ؟ ميں تو سب پہلے ان کي تصديق کرنے والا ہوں .
٦۔ حضرت اميرالمؤمنين ؑ کے ساتھ عثمان جدال کر رہے تھے ، شيخين کا ذکر ہو ا تو عثمان نے کہا : ابو بکر و عمر آپ سے افضل و بہترہيں . توآپ  ؑنے اس پر فرمايا :  ‘‘ کذبت انا خير منک و منھما عبدت اللہ قبلھا و عبدتہ بعدھما . ’’ (٣٤) ترجمہ : تو جھوٹ بول رہاہے . ميں تجھ سے اور ان دونوں سے افضل اور برتر ہوں،  ميں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد ا للہ کي عبادت کي ہے .       
٧۔ ‘‘ فيا عجباً للدھر اذ صرت يقرن بي من لم يسع بعدي ولم تکن لہ کسا بقتي التي لايدلي أحد بمثلھا لا ان يدعي مدعٍ ما لا اعرفہ ، ولا اظن اللہ يعرفہ ، والحمد للہ علي کلِ حال ٍ. ’’ (٣٥(
ترجمہ : اس زمانہ ( کج رفتاري ) پر حيرت ہوتي ہے کہ ميرے ساتھ ايسوں کو ملاياجارہاہے جنہوں نے ميدان ِ سعي ميں ميري سي تيزگامي کبھي نہيں دکھائي اورنہ ان کيلئے ميرے جيسے ديرينہ اسلامي خدمات ہيں. ايسے خدمات کہ جن کے مانند کوئي مثال پيش نہيں کرسکتا مگر يہ کہ کوئي مدعي ايسي چيز کا دعويٰ کر بيٹھے کہ جسے ميں نہيں جانتا ہوں اور ميں نہيں سمجھتا کہ اللہ اسے جانتا ہو گا ( کچھ ہوتووہ جانے ) ہر حالت ميں اللہ کا شکر ہے .
٨۔علامہ حسين بن اسماعيل محاملي ،متوفي ٣٣٠ ھ۔ ق نے اپني کتاب  '' ا لآ مالي ''  ميں  حضرت علي بن ابي طالبؑ کايہ فرمان نقل کيا ہے :
‘‘ انا اول من اسلم  ’’(٣٦) ترجمہ : ميں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں .
٩۔‘‘ أناا لصديق الاکبر ُ ،آمنت قبل أن يؤمن أبو بکر ،وأ سلمت قبل أ ن يسلم  ’’(٣٧( ترجمہ: ميں صديق اکبر ہوں ، ابو بکر کے ايمان لانے سے قبل ميں ايمان لے آيا ، اور ميں اس کے مسلمان ہونے سے پہلے اسلام کو قبول کيا ہوا تھا .
١٠۔'' أنا اوّل من صليّ و أنا اوّل من اٰمن باللّہ و رسولہ ولم يسبقني بالصلاة الا نبي اللّہ ''(٣٨( ترجمہ : ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے نماز اداکي اورميں وہ پہلا شخص ہوں جو اللہ اور اس کے رسول     پر ايمان لا يا ہے. اور مجھ سے اللہ کے نبي کے علاوہ کسي نے نماز پڑھنے ميں سبقت حاصل نہيں کي .
١١۔   ‘‘ ولقد علم المسحفظون من اصحابِ محمد ، اني لم أرُدّعلي اللّہِ ولا علي رسولہ ساعة ً  قط... ’’ (٣٩) ترجمہ :  اور بتحقيق اصحاب محمد مصطفيٰ ﷺميں سے وہ لوگ جنہيں امين ٹھہرايا گيا ہے اس بات سے اچھي طرح واقف ہيں کہ ميں نے کبھي ايک آن کيلئے  بھي اللہ اور اس کے رسول   کے احکام سے سرتابي نہيں کي. ..
اس فرمان سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حجت خد ا حضرت علي بن ابي طالب  ؑنے ايک لحظہ ، ايک لمحہ اورايک آن کيلئے بھي اللہ اور اس کے رسول   کے اوامر سے سرپيچي نہيں کي ہے دوسرے لفظوں ميں اس حديث کا مطلب يہ ہے کہ علي کي مکمل زندگي سايہ عصمت ميں گزري ہے لہٰذا حضرت اميرالمؤمنين ؑ کے اس فرمان کي آپ کي عصمت پردلالت صاف اورواضح ہے اوريہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ علي ؑ اورآپ  کے گيارہ مطہر بيٹوں کے علاوہ کسي نے بھي عصمت کا دعويٰ نہيں کيا اورعلم کلام ميں يہ بات قطعي اوريقيني براہين سے ثابت ہوچکي ہے کہ امام کا معصوم ہونا ضروري اور واجب ہے اوريہ شرط امامت ہے پس جب مدعي امامت معصوم نہ ہو تو اس کي امامت کو قبول نہيں کيا جائے گا اور يقينا اس کي امامت شرعي نہيں ہے اور وہ منصوب من قبل اللہ  بھي نہيں ہے اس شرط کي روشني ميں ثابت ہوا کہ آنحضرت   کے حقيقي جانشين اور مسلمانوں کے امام و پيشوا صرف اور صرف اميرالمؤمنين  ؑاور آپ کے گيا رہ معصوم فرزند ہيں .
١٢۔  ‘‘اللھم اني لااعرف أن عبداً لک من ھذہ الأمة عبدک قبلي غيرنبيک محمد - قال ذالک ثلاث مراتٍ- ثم قال : لقد صلّينا قبل ن يصلي أحد سبعاً .’’ (٤٠) ترجمہ :   اے اللہ ! بيشک ميں اس امت ميں سے تيرے کسي ايسے عبد کو نہيں جانتا جس نے مجھ سے پہلے تيرے نبي محمد   کے علاوہ تيري عبادت کي ہو . اس مطلب کو تين بار تکرار فرمايا، پھر فرمايا : بتحقيق ہم نے سات سال نماز پڑھي قبل اس کے کہ کوئي پڑھے .
مختصر وضاحت :
مذکورہ بارہ فرامين سے يہ بات بخوبي واضح ہوگئي کہ حضرت علي بن ابي طالب ؑايمان ميں سب سے سابق ہيں اور آنحضرت   کے علاوہ کسي نے بھي حضرت علي ؑ سے قبل نماز نہيں پڑھي اور حضرت علي  ؑکا ايک يہ فرمان بھي گزر چکا ہے کہ جس ميں آپ ؑنے فرمايا: ‘‘فاني ولدت علي الفطرة  ’’يعني اس لئے کہ ميں دين فطرت پر پيد ا ہو اہوں ، اس کا صاف مطلب يہ ہے کہ حضرت علي  ؑکا ايمان واسلام فطري تھا اور دوسروں کا اسلام فطري نہيں تھا بلکہ عن کفر ٍ تھا .
ابن شہر آشوب  ، متوفي ٥٨٨ ھ۔ ق ،  اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں : ‘‘ ولقد کان اسلامہ عن فطرة واسلامھم عن کفرٍو ما يکون عن کفر لايصلح للنبوة و ما يکون من الفطرة يصلح لھا و لھذا قولہۖ: الا انہ لا نبي بعدي ولو کان لکنتہ . ولذالک قال بعضھم و قد سئل : متيٰ أسلم علي ؟ قال : و متيٰ کفر الا انہ جدد الاسلام ’’ (٤١)
اس عبارت کا ماحصل يہ ہے کہ علي  ؑکا اسلام فطري تھا اور دوسروں کا اسلام عن کفر تھا اوروہ اسلام جو عن کفر ہو اس ميں نبوت کي صلاحيت نہيں ہوتي ليکن وہ اسلام جو فطري ہو وہ نبوت کي صلاحيت رکھتاہے اور آنحضرت   کا يہ فرمان : لا انہ لانبي بعدي ...  بھي اسي لحاظ سے ہے .
کسي عالم سے کسي سائل نے پوچھا : علي ؑ کب اسلام لائے تھے ؟  تو اس نے کہا : اس نے کفر ہي کب کيا تھا ليکن اس کا اسلام تجديدي تھا اوريہ جواب بھي اسي مطلب پر ناظر ہے .
جب ايک با وضو انسان وضو کرتا ہے تو اس کا وضو تجديدي ہوتاہے اس کا يہ مطلب نہيں کہ اس کا وضو عن حدث ہے .
خلا صہ :
حضرت علي  ؑکے فضائل نفسانيہ ميں سے سابق الي الايمان ہونا ہے اور سابق افضل ہوتاہے ، پس حضرت علي ؑ ہي افضل ہيں . اور امامت ميں افضليت شرط ہے اور اس شرط کا دوسروں ميں فقدان ہے اوريہ شرط فقط بارہ معصوم آئمہؑ ميں ہے .
 چوتھي  فصل
يقين کي منزل
جو ذات خود يقين کامل ہو ا س کے يقين کے بارے ميں ہم کيا لکھ سکتے ہيں ليکن ان ہي کے بابرکت کلام سے برکت حاصل کرنے کي غرض سے فقط اورفقط پانچ فرمان بغير کسي توضيح و تشريح کے ذکر کرنے کي سعادت حاصل کررہے ہيں:
١۔ ‘‘اني لعلي يقين من ربي، وغير شبھة ٍ من ديني  ’’ (٤٢) ترجمہ :  اور بيشک ميں اپنے پروردگار کي طرف سے يقين کے درجہ پر فائز ہوں اور اپنے دين کي حقانيت ميں مجھے کوئي شک نہيں ہے .
٢۔      ‘‘  واني لعلي يقين من ربي،و منھاج من نبيي ، و اني لعلي الطريق الواضح القطہ لقطاً . ’’ (٤٣) ترجمہ : اور بتحقيق ميں اپنے پروردگار کي جانب سے روشن دليل اور اپنے نبي کے طريقہ اور شاہراہ حق پر ہوں جسے ميں باطل کے راستوں ميں ڈھو نڈ ڈھونڈ کر پاتاہوں .
٣۔      ‘‘ و اني من ضلالھم الذي ھم فيہ ، والھديٰ الذي اناعليہ لعليٰ بصيرةٍ من نفسي و يقين من ربي ... ’’ (٤٤) ترجمہ :  اور بتحقيق جس گمراہي ميں وہ ہيں اور جس ہدايت پر ميں ہوں ، ا س کے متعلق پوري بصيرت اور اپنے پروردگار کي جانب سے مکمل يقين پر ہوں
٤۔      ‘‘ لو کشف الغطاء ُ ما ازدت يقينا’’ (٤٥) ترجمہ : اگر تمام پردے ہٹائے جائيں تو ميرے يقين ميں اضافہ نہيں ہوگا .
٥۔      ‘‘ اني تعليٰ بتينة من ربي و بصيرة في ديني و يقين من امري  ’’ (٤٦) ترجمہ : بتحيق ميں اپنے پر ودگار کي جانب سے واضح اور روشن دليل اور اپنے دين ميں کامل ترين بصيرت اوراپنے تمام امور ميں يقين کامل پر ہوں.
 پانچويں فصل
عصمت امام علي بن ابي طالب   عليہ السلام
شرائط امامت ميں سے ايک شرط يہ ہے کہ امام معصوم ہو او ر اسي شرط پر اہل بيت عليہم السلام کا اجماع ہے اور ان کا اجماع بلاشبہ حجت ہے اور عقل بھي وجوب عصمت کا حکم کر رہي ہے اور اسي طر ح قرآن و سنت ميں بھي وجوب عصمت امام پہ تاکيد کي گئي ہے . ہمار ا مقصد اس شرط کو ثابت کرنا نہيں ہے لہٰذا اس کا اثبات کلامي مفصل کتب ميں مرقوم و موجود ہے . ليکن ہم فقط علم کلام کي ابتدائي کتاب '' الباب الحادي عشر  '' سے کلام علامہ حلي رضوان اللہ تعاليٰ کو ذکر کرتے ہيں.
ليکن جو فاضل مقداد رضوان اللہ تعاليٰ عليہ نے يا ابوالفتح بن مخدوم الخادم الحسيني العربشاھي رضوان اللہ تعاليٰ عليہ نے بعنوان شرح بيان فرمايا ہے اسے بيان کرنے سے معذرت چاہتے ہيں .
البتہ اس بات کي ياد آوري ضروري سمجھتے ہيں کہ علامہ حلّي کي کتاب '' الباب الحادي عشر  '' بہت مختصر و مفيد کتاب ہے اس پر لکھي جانے والي شروحات ميں سے دو شرحيں بڑي مقبول ہوئيں .
١۔  '' النافع يوم الحشر  '' جس کو شرح باب حادي عشر بھي کہا جاتاہے .(النافع يوم الحشر کے رائٹر علامہ فاضل مقداد سيوري حلي  ہيں (
٢۔  ‘‘ مفتاح الباب  ’’ ( اس کے مؤلف ابوالفتح بن مخدوم الحسيني رضوان اللہ تعاليٰ عليہ ہيں .(
الحق و الانصاف دونوں شرحيں بڑي عمدہ ہيں ليکن شہرت کے لحاظ سے '' النافع يوم الحشر  ''  '' مفتاح الباب '' سے بھي نمبر لے گئي ہے .
بہر حال علامہ حلي علي اللہ مقامہ فرماتے ہيں :
))الثاني : يجب ان يکون الامام معصوما ً والا تسلسل... )) (٤٧)
دوم : امام کا معصوم ہونا واجب ہے اس لئے کہ اگرامام معصوم نہ ہو تو تسلسل لازم آئے گا .( اور تسلسل باطل و محال ہے پس امام کا غير معصوم ہونا باطل ہے ) اس لئے کہ نصب امام کي احتياج کا سبب ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کي فرياد رسي کي جائے . اگر خود امام غيرمعصوم ہوگا تو اسے دوسرے کي ضرورت و احتياج ہوگي اور يہي سلسلہ چلتا رہے گا اورتسلسل محال ہے . ( کيوں کہ اس سے کچھ ثابت ہي نہيں ہوسکے گا)۔
‘‘ ولأنہ لو فعل المعصيّتہ ...  ’’ ( ٤٨)
 دوسري دليل يہ ہے کہ اگر امام سے فعل معصيت صادر ہو جائے تو اس صورت ميں امام کوزجر و توبيخ کر نا امت پر واجب ہے يا نہيں ؟ اگر واجب ہو تو امام کي منزلت عظمت لوگوں کي نظروں سے ساقط ہوجائے گي اور نصب امام کا فائدہ ہي منتفي ہو جائے گا . اور اگر واجب نہ ہو تو امت سے امربالمعروف و النھي عن المنکر کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور يہ دونوں باطل ہيں.
‘‘ولانہ حافظ للشرع فلابد من عصمتہ ليؤمن من الزيادةوالنقصان ’’ (٤٩)
اور تيسري دليل يہ ہے کہ امام شريعت کا محافظ ہوتاہے اور محافظ شريعت کامعصوم ہونا ضروري ہے اس لئے کہ شريعت کمي و زيادتي سے محفوظ رہ سکے .
و قولہ تعاليٰ : ( لاينال عھدي الظالمين )(٥٠)
اور چوتھي دليل  اللہ کا يہ فرمان ہے کہ :  ميرامنصب ظالمين کو نہيں پہنچے گا .(٥١)
ذہن ميں رہے کہ اس عہد خدا سے مراد عہد نبوت نہيں بلکہ اس سے مراد عہد امامت ہے اور اس پر آيت کا ماسبق دليل ہے .
جب امام کا معصوم ہونا ثابت ہو گيا تو يہ بات بھي روز روشن کي مانند عياں ہوگئي کہ حضرت علي  ؑاور آپ کے گيارہ معصوم بيٹے ہي امت کے امام اور حجت خد ا اور خلفائے رسول اکرم ﷺ ہيں اس لئے کہ ان کے علاوہ کسي نے عصمت کا دعويٰ ہي نہيں کيا اورنہ ہي ان کے ماننے والوں نے انہيں معصوم سمجھا ہے .
اب يہاں سوال يہ پيد اہوتاہے کہ کيا علي بن ابي طالب ؑنے عصمت کا دعويٰ کيا ہے ؟
اس کا جواب يہ ہے کہ ہاں آپ  نے عصمت کا دعويٰ کيا ہے اور اسے ثابت بھي کيا ہے .
ہم نہج البلاغہ سے صرف چند اور غير نہج البلاغہ سے فقط ايک حديث پيش کر رہے ہيں :
١۔ ‘‘ ... ماشککت في الحق منذ أريتہ  ’’(٥٢) ترجمہ : جب سے مجھے حق دکھايا گيا ہے ميں نے کبھي حق ميں شک و شبہ نہيں کيا .
٢۔  ‘‘ واللّہ ماکتمتُ و شمة ولا کذبتُ کذبة ولقد نُبئتُ بھذاالمقام و ھذااليوم ’’ (٥٣( ترجمہ : اللہ کي قسم ميں نے کوئي بات پردے ميں نہيں رکھي ، نہ کبھي کذب بياني سے کام ليا. مجھے اس مقام اور اس دن کي پہلے ہي خبردي جاچکي تھي .
٣۔  ‘‘ وما وَجَد لي کذبةً في قولٍ ، ولا خلطة ً في فعلٍ’’ (٥٤) ترجمہ : آنحضرت  ؐ نے نہ تو ميري کسي بات ميں جھوٹ کا شائبہ پايا نہ ميرے کسي کام ميں خطا و لغزش ديکھي .
٤۔  ‘‘ ماکُذِبَتُ ولاکذبت ،ولاظللتُ ولاظُلّ بي ’’(٥٥) ترجمہ : نہ ميں جھوٹ کيا ہے نہ مجھ جھوٹي خبردي گئي ہے نہ ميں خود گمراہ ہوں اورنہ ہي مجھے گمراہ کيا گيا .
٥۔ ‘‘ واللّہ ان جئتھا انّي للمحق الذي يتبع و ان الکتاب لمعي مافارقتُہ مذ صحبتُہ ’’ (٥٦) ترجمہ: اللہ کي قسم اگر ميں اس کي طرف بڑھا تو اس صورت ميں بھي ہي حق پر ست ہو ں جس کي پيروي کي جانا چاہيے اور بتحقيق کتاب خدا ميرے ساتھ ہے اور جب ميرا اس کا ساتھ ہواہے ميں نے اس جدائي اختيار نہيں کي .
حقيقت ميں يہ  ‘‘علي مع القرآن والقرآنُ مع عليٍ  لن يفترقا حتي يردا علي الحوض ’’ کي جانب اشارہ ہے اور اسي طرح ميرے مولا کے اس فرمان کا حديث ثقلين کي جانب اشارہ ہے . بہر حال اس حديث اوراسي طرح مذکورہ چار احاديث سے عصمت علي  ؑبخوبي سمجھي جارہي ہے . اگر گفتگو طولاني ہونے کا انديشہ نہ ہوتا تو ان تمام کي وجہ دلالت بھي ذکر کرتا.
٦۔  ‘‘ان اللہ تبارک وتعاليٰ طھرنا وعصمنا وجعلنا شُھداء علي خلقہ ، و حججا علي عبادہ و جعلنا مع القرآن وجعل القرآن معنا لا نفارقہ ولايفارقنا  ’’(٥٧( ترجمہ :  بتحقيق اللہ تبارک و تعاليٰ نے ہميں طاہر و معصوم قرار ديا ہے اور ہميں اپني مخلوق پر گواہ بنايا ہے اور اپنے بندوں پر ہميں حجت قرار ديا ہے اور ہميں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دياہے ، نہ ہم قرآن سے جدا ہوں گے اور نہ قرآن ہم سے جد ا و  الگ ہو گا .
چھٹي فصل
علم  اميرالمؤمنين عليہ السلام
فضيلت ميں نعمتِ کبريٰ علم ہے علم کي فضيلت ميں اتنا کافي ہے کہ وہ شخص بھي علم کي تعريف کرتاہے جو علم سے عاري ہوتاہے.
بلاشک و ترديد حضرت علي ؑاعلم ہيں اس کے اثبات ميں يہي کافي ہے کہ تمام علوم اسلامي حضرت علي  ؑکيساتھ منسوب ہيں لہٰذا ارباب علوم و فنون خود کو آپ  سے منسوب کرتے ہيں اوريہي اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتے ہيں .
حضر ت علي  عليہ السلام نہج البلا غہ ميں اپنے علم کے متعلق بہت زيادہ گفتگو فرمائي ہے ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط آپ کے پانچ فرامين ذکر کر رہے ہيں۔
١۔  ‘‘ ياايُّھا الناس ، سلوني قبل أن تفقدوني فلِأنا بطرق السماء اعلم مني بطرق الرض ...’’(٥٨( ترجمہ : اے لوگو ! مجھے کھو دينے سے قبل مجھ سے پوچھ لو کيوں کہ ميں زمين کي راہوں سے زيادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں .
اس کا واضح مطلب  يہ ہے کہ ميرا  علم شرع و شريعت ميں منحصر نہيں ہے اور اسي طرح ميرے علم کو زمين تک محدود نہ سمجھو بلکہ ميرے علم کي حکومت اور سرحد زمين بھي ہے اور آسمان بھي ہے .
 '' سلوني  '' مطلق ہے اس ميں کسي طرح کي کوئي قيد و شرط نہيں ہے اور اس اطلاق کا مقتضيٰ يہ ہے کہ تم شرع و شريعت ، دين و اسلام ، ماضي کے حالات ، انبياء گزشتہ کے واقعات گزشتہ امتوں کے تفصيلي حوادث ، حال ميں پيش آنے والا ہر سوال و، مسئلہ اور آئندہ کے تمام جزئي مسائل و ... کے بارے   ميں پوچھ سکتے ہو اور ميں جواب شافي و کافي دوں گا . دوسرے الفاظ ميں يوں کہا جائے کہ ميرے پاس علم ماکان و مايکون وماھو کائن موجودہے .  ‘‘ ذالک فضل اللہ يعطيہ من يشاء ’’ اوريہ سب کچھ واھب الفضل کي عطاہے اور بس .
٢۔ ‘‘ تاللّٰہ لقد عُلِّمتُ تبليغ  الرسالات واتمام العدات و تمام الکلمات  ’’.(٥٩) ترجمہ : اللہ کي قسم مجھے پيغامات کے پہنچانے ، وعدوں کے پورا کرنے اور آيتوں کي صحيح تاويل کرنے کا علم عطاکيا گيا ہے .
ياد رہے کہ ترجمہ مفتي جعفر حسين اعلي اللہ مقامہ ميں عَلِمتُ ہے اور يہ فعل ماضي معلوم ثلاثي مجر د سے مفرد متکلم ہے ليکن نسخہ معجم ميں فعل کو بعنوان فعل ماضي مجہول ازباب تفعيل ذکر کيا گيا ہے . اور يہ لفظ مناسب ترہے اور  تعليم دينے والے کو عظمت کي خاطر يا معلوم وعياں ہونے کي خاطر حذف کيا گيا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے يہ کہ ميرا علم تمہارے علم کي مانند نہيں ہے مجھے تو اپنے خالق نے يہ علمي برتري عطا کي ہے .
مخفي نہ رہے کہ صفحات کي محدوديت نے اس طرح جکڑ ديا ہے جس طرح ہاتھوں کي ہتھکڑياں ، پائوں کي بيڑياں اور گلے کا طوق قيدي کو جکڑ ديتا ہے .
٣۔  ‘‘ اندمجتُ علي مکنون علم لوبحت بہ لا ضطربتم اضطراب الريشة في الطوي البعيدة  ’’(٦٠) ترجمہ : البتہ ايک علم پوشيدہ ميرے سينے کي تہوں ميں لپٹا ہو اہے کہ اگر اسے ظاہر کردوں تو تم لوگ اسي طرح پيچ وتاب کھانے لگو گے جس طرح گہرے کنوؤں ميں رسياں لرزتي اور تھرتھراتي ہيں .
٤۔  ‘‘ لو کسرت لي الوسادۃ ثم جلستُ عليھا لَقضيتُ بين ھل التوراة بتوراتھم ،و بين اھلِ الانجيل بانجيلھم و بين اھل الزبور بزبورھم و بين ھل الفرقان بفرقانھم ، واللہ ما من آية ٍ نزلت في برٍ، ولابحرٍ ، ولاسھلٍ ، ولاجبلٍ ولاسماءٍ، ولارضٍ، ولاليلٍ، ولانھارٍ، الا و أنا أعلم فمن نزلت و في اي شيئٍ  نزلت ’’ .(٦١) ترجمہ : اگر ميرے لئے سند بچھائي جائے پھر ميں اس پر بيٹھوں تو اہل تورات کيلئے ان کي تورات سے اوراہل انجيل کے درميان ان کي انجيل سے اور اہل زبور کے درميان ان کي زبور سے اور اہل فرقان (قرآن ) کے درميان ا ن کے قرآن سے حکم کرو ں گا . اللہ کي قسم کوئي آيت ايسي نہيں جو خشکي ميں اور سمندر ميں اور زمين ميں اور پہاڑ ميں اوررات ميں اور دن ميں نازل ہوئي ہو سوائے اس کے کہ ميں جانتا ہوں کہ وہ کسي شخص کے بارے ميں اور کسي چيز کے متعلق نازل ہوئي ہے .
اس فرمان سے يہ بات بخوبي سمجھي جارہي ہے کہ حضرت علي  ؑتمام آسماني کتب کا علم رکھتے ہيں .
٥۔  ‘‘علمني رسول اللہ  ۖ الف بابٍ من العلم ، يفتح لي من کلّ بابٍ الفُ بابٍ . ’’(٦٢) ترجمہ : مجھے رسول اللہ  ۖ نے علم کے ہزار باب تعليم فرمائے ہيں اور ميرے لئے ہرباب سے ہزار باب کھل گئے ہيں.
مختصر وضاحت :
علم کلام ميں علمائے اماميہ نے ادلہ قطعيہ اور براہين يقينيہ سے ثابت کيا ہے کہ امام کا اعلم ہونا شرط ہے .
 ہم اس کے اثبات پر وقت صرف نہيں کرنا چاہتے ، پس اتنا کہتے ہيں کہ يہ شرط اس لئے رکھي گئي ہے تاکہ حقيقي اور غير حقيقي خليفہ اورامام معين و مشخص    ہوجائے اور لہٰذا اگررعيت ميں ايک يا چند فرد امام سے زيادہ علم رکھتے ہوں تو اس صورت ميں مفضول کا فاضل و افضل پر مقدم قرار دينا لازم آتاہے جوکہ عقلا ً قبيح ہے .
حضرت اميرالمؤمنين عليؑ سب سے اعلم ہيں لہذا آپ ہي بعداز نبي اکرم  سب کے امام ہيں .
اس لئے کہ :'' احتياج الکل اليہ  و استغناؤہ عن الکل فھذا دليل علي انہ امام الکل ''
اس بڑھ کر اگر ہم لب ہلاتے ہيں تو ہميں بڑي بڑي مشکلاتوں کا سامنا کر نا پڑتاہے ان ميں ايک صفحات کي محدوديت والي دھمکي ہے .
 ساتويں فصل
شجاعت علوي
شرائط  امامت ميں سے ايک يہ ہے کہ امام  اشجع الناس ہونا چاہيے . اورمقابل علي  ؑميں ہر مدعي امامت کا اس صفت اور شرائط سے عاري ہونا اسلامي مسلم حقائق ميں سے ہے . اللہ اکبر ، کياکہنا شجاعت علي  ؑ کا .
حضرت امام عليؑ کي شجاعت ضرب المثل ہے . آپ  کي شجاعت کے قصيدے موافق و مخالف پڑھتے رہتے ہيں . ابن ابي الحديد معتزلي حضرت اميرالمؤمنينؑ کي شجاعت کے حوالہ سے اس طرح رقمطراز ہيں:
‘‘و أما الشجاعة  : فانہ أنسي الناس فيھا ذکر من کان قبلہ و محااسم من يأتي بعدہ ، و مقاماتہ في الحرب مشھورة  يضرب بھاالامثال الي يوم القيامة ، وھو الشجاع الذي ما فرقط ...  ’’ (٦٣) ترجمہ :  شجاعت ميں علي بن ابي طالبؑ نے اپنے پہلے والے شجاع لوگوں کي شجاعت کا تذکرہ لوگوں سے بھلا ديا اوراپنے بعد آنے والے افراد کا نام مٹا ديا .جنگ ميں مقامات علي ؑ مشہور ومعروف ہيں . قيامت تک آپ کي شجاعت کي مثاليں دي جائيں گي .علي ؑوہ شجاع ہے جو کبھي بھي نہيں بھاگے ...
ہاں علي ؑنے جس کے ساتھ مبارزہ کيا ہے وہ قہر علي ؑ سے بچ کر نہيں گيا . علي  ؑنے کوئي ايسي ضربت نہيں لگائي جس کے بعد دوسري ضربت کي ضرورت پڑے اس لئے کہ ايک ہي ضربت ميں مدمقابل کاکام تمام ہو جاتاتھا . اس وجہ سے حديث ميں آيا کہ :  ‘‘  کانت ضرباتہ وتراً  ’’
آنحضرت کي متعدد احاديث ميں حضرت علي  ؑکو اشجع کہا گيا ہے . ہم ان احاديث کے ذکر سے اغراض کر رہے ہيں .
حضرت علي  ؑکي شجاعت کا عالم شب ہجرت قابل ديد ہے . ہجرت کے دوسرے سال رمضان المبارک ميں لڑي جانے والي جنگ  ( غزوہ بد ر الکبريٰ  ) ميں ٢٨ برس کے عليؑ کي جنگ کامنظر اسلام ميں ہميشہ کيلئے محفوظ ہوگيا . جنگ احد ميں علي ؑکي شجاعت کو معراج کي منزل ملي . لا فتيٰ لا علي ، لا سيف لا ذوالفقار کي صدا گونجي . بہرحال حيات ِ سرور کائنات ميں سوائے جنگ تبوک کے ہر جنگ ميں عليؑ نے شرکت کي اور علمدار لشکر اسلام بنے ہيں اور ہر جنگ ميں کاميابي نے علي  عليہ السلام کے ہاتھوں کا بوسہ ليا . اور اسي طرح حضرت علي  ؑکي ظاہري خلافت کے دور ميں تمام جنگوں ميں آپ کي شجاعت بے نظير و بے مثال ہے .
انتہائي مناسب ہے کہ يہاں کلام ابن حمدون کا ذکر کيا جائے . ابن حمدون کے اس کلام کو علامہ ابو محمد زين الدين علي بن يونس بياضي رضوان اللہ تعالي عليہ  نے اپني بے نظير کتاب  '' الصراط المستقيم  '' ميں يوں نقل کيا ہے :  ‘‘ قال ابن حمدون في التذکرة  : شجاعة علي معجزة للنبي ۖ اذ لوقيل لہ مادليل صد قک ؟ فقال : ‘‘شجاعة علي لم يمکن احدا نکارہ’’ (٦٤) ترجمہ: ابن حمدون اپني کتاب  '' التذکرة  '' ميں کہتے ہيں : شجاعت علي ؑ نبي اکرم   کا معجزہ ہے ، اس لئے کہ اگر آنحضرت   سے پوچھا جائے کہ آپکي سچائي پر دليل کيا ہے ؟ اور آپ  يہ فرمائيں کہ علي  '' روحي الفداء  '' کي شجاعت تو اس کا انکار کسي بھي شخص کيلئے ممکن نہيں ہے .
اب ہم بعنوان تبرک و تيمن فقط حضرت علؑي کے دو فرمان اس موضوع کے اثبات کيلئے پيش کرتے ہيں :

١۔ ‘‘ واللّہ لو تظاھرتِ العرب عليٰ فتالي لما ولّيتُ عنھا ، ولو أمکنتِ الفرض من رقابھا لسارعت اليھا، ومسأجھد في ن اطھرالأرض من  ھذا الشخص المعکوس و الجسم الموکوس حتيٰ تخرج المدرة من بين حَبّ الحصيد .  ’’(٦٥ ( ترجمہ: اللہ کي قسم اگر تمام عرب ايکا کرکے مجھ سے لڑنا چاہيں توميں ميدان چھوڑ کر پيٹھ نہيں دکھاؤں گااورموقع پاتے ہي ان کي گردنيں دبوچ لينے کيلئے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹي کھوپڑي والے بے ہنگم ڈھانچے ( معاويہ  ) سے زمين کو پاک کردوں گا تاکہ کھلياں کے دانوں سے کنکر نکل جائے .
٢۔ ‘‘ واعطاني من الشجاعة ما لوقسم علي جميع  جبناءِ الدنيا  لصاروا بہ شجعانا ً .’’(٦٦) ترجمہ : اور اللہ نے مجھے وہ شجاعت عطافرمائي ہے اگر اسے دنيا کے تمام بزدلوں  ميں تقسيم کيا جائے تو يقينا وہ اس کے سبب شجاع اور بہادر بن جائيں گے .
آٹھويں فصل
زہد سيد الزہاد  '' روحي الفداء  ''
بے شک علي بن ابي طالب  ؑسيد الزہاد اور قدوة الزاھدين ہيں اور اميرالمؤمنين علي ؑزہد ميں غاية القصوي ہيں . ہم اس موضوع سے بحث نہيں کرنا چاہتے کہ زہد کيا ہے ؟ زہد کي حقيقت کياہے ؟ حضرت علي  ؑکي نظر ميں افضل زہد کونسا ہے اور...
اس لئے ہم موضوع کے متعلق اپنے گزشتہ مضمون ميں اپني وسعت کے مطابق گفتگو کر چکے ہيں اور اس کا عنوان  '' زہد سيد الزہاد  کي نظر ميں  '' تھا . اسلامک تھا ٹ  کے منصفين نے اسے تيسري پوزيشن عطافرمائي تھي .
بہر حال حضرت علي  ؑيقينا ازھدالزاھدين ہيں . ہم آپ کے نوراني کلام سے اس موضوع کے بارے ميں فقط چھ فرمان ذکر کرنے کي سعادت حاصل کر رہے ہيں .
١۔  ‘‘ولألفيتم دنيا کم ھذہ أزھد عندي من عفطةِ عنزٍ ’’ (٦٧( ترجمہ : اور يقينا تم اپني اس دنيا کو ميري نظروں ميں بکري کي چھينک سے بھي زيادہ ناقابل اعتنا پاتے .
٢۔  حضر ت اميرالمؤمنين ؑجب اہل بصرہ سے جنگ کيلئے نکلے توعبداللہ بن عباس کہتے ہيں کہ ميں مقام ذي قار ميں حضرت کي خدمت ميں حاضر ہوا تو ديکھا کہ آپ اپنا جوتا ٹانک رہے ہيں . ( مجھے ديکھ کر فرمايا)  ‘‘ ما قيمة ھذہ النعل  ؟ ’’ فقلت : لا قيمة لھا ، فقال عليہ السلام :  ‘‘ واللہ  لھي أحب اليّ من امرتکم الا أن أقيم حقا ً أو ادفع باطلاً.  ’’ (٦٨) ترجمہ : اس کي قيمت کيا ہوگي ؟ ميں نے کہا : اب تو اس کي کوئي قيمت نہ ہوگي . تو آپ ؑ نے فرمايا : اگر ميرے پيش نظر حق کا قيام اورباطل کا مٹانا نہ ہوتا توا للہ کي قسم تم لوگوں پر حکومت کرنے سے يہ جوتا مجھے کہيں زيادہ عزيز ہے .
مختصر تشريح :
حضرت  امير المؤمنين علي کي نظر ميں امارت اور خلافت کے حصول کا مقصد اقامہ و احقاق حق اورابطال و امحا ء باطل ہے پس حصول امارت علي  ؑکيلئے ہدف نہيں ہے بلکہ ذريعہ اور وسيلہ ہے اور وہ ذريعہ بھي دينوي اورمادي نہيں ہے بلکہ الہي  اورمعنوي ہے . حضرت علي  ؑکے مدمقابل کي نظر ميں حصول دنيا و متاع دنيا اوراسي طرح خلافت و امارت ہدف تھا . اور اس ہدف کے حصول کي خاطر ہر طرح کے جرم کا ارتکاب کيا .
پس لوخلي وطبعہ علي  ؑکي نظر ميں اس طرح کي خلافت و حکومت کي حيثيت آپ کے جوتے سے بھي زيادہ پست اور ناچيز ہے بلکہ وہ جوتا زيادہ محبوب ہے اور اس بات پر تاکيد اور اصرار کي غرض سے  '' واللہ  '' لفظ کا استعمال فرماياہے اور قسم تاکيد کي قسموں ميں سے سب سے زيادہ شديد ہے .
٣۔  ‘‘ لقد علمتم أني أحق الناس بھا من غيري ، وواللہ لأسلمن ماعلمت أمورالمسلمين ولم يکن فيھا جور الا عليّ خاصة التماساً لاجرِذلک وفضلہ و زھداً فيما تنافستموہ من زخرفہ و زبرجہ  .’’(٦٩) ترجمہ: بتحقيق تم جانتے ہوکہ مجھے اوروں سے زيادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے اور خدا کي قسم جب تک مسلمانوں کے امور کانظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف ميري ہي ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتي رہے گي ميں خاموشي اختيار کرتا رہوں گا تاکہ ( اس صبر پر ) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زيب و زينت اور آرائش کو ٹھکرادوں جس پر تم مٹے ہوئے ہو .
مختصر وضاحت :
حضر ت علي  ؑبنص قرآن معصوم ہيں لہٰذا اس کے ہر قول و فعل ميں اس کي تصديق کرنا ضروري ہے و گرنہ تکذيب کلا م خدا لازم آئے گي . حضرت  علي  ؑخلافت کو اپنا مسلم حق سمجھ رہے ہيں اور زبردستي مسند رسول   پر قبضہ کرنے والوں کو اپنے حق کا غاصب سمجھ رہے ہيں اور اپنے کو مظلوم بيان فرما رہے ہيں .اور اپنے حق چھن جانے پر صبر و سکوت اور خاموشي کاراز امت مسلمہ کو ارتداد اورتفرقہ سے نجات دلانا ذکر فرما رہے ہيں .
رحلت ِ رسول  کے بعد ارتداد آغاز ہو چکا تھا اس صورت ميں شمشير اٹھانا حقيقت ميں اسلام دشمن طاقتوں ( داخلي اورخارجي ) کے تقويت کا باعث تھا . اس لئے حضرت علي  ؑاپني ميراث کو اپني آنکھوں کے سامنے تاراج ہوتے ہوئے ديکھتے رہے اور اپني مظلوميت پر آنسؤ بہاتے رہے ليکن پھر بھي اللہ اور اس کے رسول  کے فرمان کي تعميل ميں مصروف رہے . اوريہي رازِ خاموشي عليؑ ہے .
ہاں علي  ؑاس خاموشي پر اللہ سے اجر و ثواب کے طالب ہيں اور لوگ جس دنيا پر مرمٹتے رہے اس سے نالاں و بيزار ہيں اور اسے ٹھکرا ديتے ہيں اور يہي کمال زہد علي  ؑہے .
٤۔  ‘‘ و ان دنيا کم عندي لأھون من ورقة في فم جرادةٍ تقضمھا .مالعلي ٍ ولنعيم يفني و لذةٍ لاتبقيٰ ’’(٧٠) ترجمہ : اور بيشک تمہاري يہ دنيا ميرے نزديک اس پتي سے بھي زيادہ بے قدر ہے جو ٹڈي کے منہ ميں ہو کہ جسے وہ چبا رہي ہو . علي  ؑکو فنا ہونے والي نعمتو ں اورمٹ جانے والي لذتوں سے کيا سروکار ہے .
٥۔  ‘‘ يا دنيا يا دنيا ،اليک عني ، بي تعرضت ؟ أم لي تسوقت ؟ لا حان حينک ھيھات ! غري غيري ، لا حاجة لي فيکِ، قد طلقتک ثلاثاً لا رجعة فيھا ...  ’’ (٧١) ترجمہ: اے دنيا ، اے دنيا ، مجھ سے دور ہوجا ، کيا تومير ے سامنے اپنے کو لاتي ہے ؟ يا ميري دالدادہ و فريفتہ بن کر آئي ہے ، تيرا وہ وقت نہ آئے ، بھلا يہ کيون کر ہو سکتا ہے ، جاکسي اور کو دھوکا دے مجھے تيرے ضرورت نہيں ہے ، ميں تجھے تين بار طلاق دے چکا ہو ں کہ جس کے بعد رجوع کي کوئي گنجا ئش نہيں ہے
٦۔  ‘‘ اليک ِ عني يا دنيا فحبلک عليٰ غاربک ، قد انسللت من مخالبک ، و أفلت من حبائلک ، و اجتنبت الذھاب في مداحضکِ ’’.(٧٢( ترجمہ : اے دنيا ميرا پيچھا چھوڑ دے تيري باگ دوڑ تيرے کاندھے پر ہے . ميں تيرے پنجوں سے نکل چکا ہوں ، تيرے پھندے سے باہر آچکا ہو ں اور تيرے پھسلنے کي جگہوں ميں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہيں .

نوٹ : مکتوب نمبر 45 حضرت علي  ؑکے زہد کے سمجھنے کيلئے بہترين تحفہ ہے .
اگر مقالہ کے طولاني ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو اس باب ميں حضرت علي  عليہ السلام کے نوراني کلام کے زير سايہ ضرور سير کرتے رہتے .
 نويں فصل
عدالت ِ علوي
ميں اس ذات کي عدالت کے متعلق کيا کہوں جو مظہر صفت ِعدل خدا وندہے ، علي  ؑوہ عظيم ذات ہے جو عالم امکان ميں سوائے خاتم الانبياء   کے تمام انبياء و مرسلين سے افضل ہے اور اس کي واضح دليل آيہ مباہلہ ہے کہ جس ميں اللہ نے علي  ؑکونفس رسول   قرارديا ہے اور بلا شبہ نبي اکرم   تمام انبياء و مرسلين سے افضل ہيں اور جو نفس رسول   ہو وہ بھي قطعا ً افضل ہونا چاہيے اس لئے کہ نفس سے مراد مثل و مساوي ہے اور سوائے صفت ِ نبوت کے علي   تمام اوصاف ميں مثل نبي  اور آنحضرت   کے مساوي ہيں اور يہ بديھي ہے کہ مساوي الافضل افضل ہوتاہے .
اميرالمؤمنين ؑکو عدالت کي وجہ سے شہيد کيا گيا اسي لحاظ سے آپکو  '' قتيل العدالۃ'' کہا گيا ہے .
ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت علوي کے متعلق خود امام علي  ؑکي زبا ن مطہر سے صرف چار فرمان ذکر کرتے ہيں :
١۔  ‘‘واللہ لو وجدتہ قد تزوج بہ انساء ُ، وملک َ بہ الماءُ ، لرددتہ فان في العدل سعة ً . ومن ضاق عليہ العدل فالجور عليہ أضيق . ’’ (٧٣) ترجمہ : اللہ کي قسم  ! اگرمجھے ايسا مال کہيں نظر آتا جو عورتوں کے حق مہر اور اور کنيزوں کي خريداري پر صرف کيا جا چکا ہوتا تو اسے بھي واپس پلٹا ديتا چونکہ عدل کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے ميں وسعت ہے اور جسے عدل کي صورت ميں تنگي محسوس ہو اسے ظلم کي صورت ميں اور زيادہ تنگي محسوس ہوگي .
نوٹ : مکمل خطبہ يہي ہے .
٢۔ ‘‘  اتامروني أن أطلب النصر بالجور فيمن وليت عليہ : واللہ لا أطوربہ ماسمرسمير وما أمّ نجم في السمائِ نجماً.’’
لو کان المال لي لسويت بينھم ، فکيف و انما المال مال اللہ ! ألا و ان اعطاء المال في غيرحقہ تبذير و سراف ، وھويرفع صاحبہ في الدنيا و يضعہ في الآخرة ... ’’ (٧٤)
کيا تم مجھ پر يہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ ميں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم وزيادتي کرکے ( بعض افراد کي ) امداد حاصل کروں ، تو اللہ کي قسم جب تک دنيا کا قصد چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کي طرف جھکتے رہيں گے ميں اس چيز کے قريب بھي نہيں پھٹکوں گا اگر يہ ميرا مال ہوتا جب بھي ميں اسے سب سے برابر تقسيم کرتا چہ جائيکہ يہ مال صرف اللہ کا ہے . آگاہ رہوبغير کسي حق کے مال عطاکرنابے اعتدالي اور فضول خرچي ہے . اوريہ چيز اپنے مرتکب کودنيا ميں بلند کر ديتي ہے ليکن آخرت ميں پست اور نيچا کر ديتي ہے . ..
نوٹ : اوج عدل ِ علوي کيلئے خطبہ ٢٢٤،ص ١٠٩،١١٠ ملاحظہ فرمائيں.
٣۔  '' ... أيھا الناس أعينوني علي أنفسکم و أيم اللہ لأنصفن المظلوم من ظالمہ ولأقودن الظالم بخزامتہ ، حتي أوردہ منھل الحق و ن کان کارھاً . '' (٧٥)
ترجمہ :  اے لوگو ! اپني نفساني خواہشوں کے مقابلہ ميں ميري مدد کرو ، خد اکي قسم ميں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا . اور ظالم کي ناک ميں نکيل ڈال کر اسے سرچشمہ حق تک کھينچ کر لے جائوں گا ،ا گرچہ اسے يہ ناگوار کيوں نہ گزرے .
٤۔  ‘‘ الذليل عندي عزيز حتيٰ آخذ الحق لہ ، والقوي عندي ضعيف حتيٰ آخذ الحق منہ  ’’ (٧٦) ترجمہ : دباہوا اور کمزور ميري نظر ميں عزيز اور طاقتور ہے ، جبکہ ميں اس کا حق دلوانہ دوں اور طاقتور ميرے نزديک کمزور ہے جب تک کہ ميں اس سے دوسرے کا حق دلوانہ دوں.
دسويں فصل
تواضع امام علي بن ابي طالب  '' روحي و ارواح العالمين لہ الفداء  ''
حضرت اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب  ؑتواضع اور انکساري ميں اپني مثال آپ ہيں . ہم اختصار کے پيش نظر خود حضرت علي ؑ کے کلام سے صرف چند نوراني فرامين پر اکتفاکرتے ہيں:
١۔  ايک شخص نے آپ  کي بہت زيادہ تعريف کي حالانکہ وہ آپ  سے عقيدت و ارادت نہيں رکھتا تھا ، تو آپ  نے فرمايا: ‘‘ أنا دون ما تقول و فوق مافي نفسک  ’’(٧٧) ترجمہ : جو تمہاري زبان پر ہے ميں اس سے نيچے ہو ں اور جو تمہارے دل ميں ہے اس سے اوپر ہوں.
٢۔ کچھ لوگوں نے آپ  کے روبرو آپ  کي مدح و ستايش کي ،تو آپ  نے فرمايا:
‘‘اللھم انک أعلم بي من نفسي ، و أنا أعلم ، بنفسي منھم أللھم اجعلنا خيراً مما يظنون واغفرلنا مالايعلمون  ’’(٧٨) ترجمہ :  اے اللہ  ! تومجھے مجھ سے زيادہ جانتا ہے اور ميں ان لوگوں سے زيادہ اپنے نفس کو پہنچانتا ہوں . اے اللہ ! جو ان لوگوں کا خيال ہے ہميں اس سے بہتر قرار دے اور ان ( لغزشوں ) کو بخش دے جن کا انہيں علم نہيں ہے .
٣۔ حرب نامي شخص جب آگے بڑھ کر حضرت  کے ہمرکاب ہوئے حالانکہ حضرت سوار تھے تو آپ  نے فرمايا: ‘‘ارجع فان مشي مثلک مع مثلي فتنة للوالي و مذلة للمؤمن  ’’ (٧٩) ترجمہ : تم پلٹ جاؤ ، اس لئے کہ مجھ جيسے کيساتھ تيرے جيسے شخص کا پيادہ چلنا والي کيلئے فتنہ اور مؤمن کيلئے ذلت اوررسوائي ہے .
٤۔ حضرت اميرالمؤمنين علي ؑ شام کي جانب روانہ ہوئے وقت مقام انبار کے زمينداروں کا سامناہوا تو وہ آپ کو ديکھ کر پيادہ ہوگئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے . آپ  نے فرمايا: يہ تم لوگوں نے کيا کيا ؟ انہوں نے کہا : يہ ہمارا طريقہ ہے جس سے ہم اپنے حکمرانوں کي تعظيم بجالاتے ہيں . اس موقع پر آپؑ نے فرمايا: ‘‘ واللہ ما ينتفع بھذا امراؤ کم   ...   الأمان من النار  ’’(٨٠) اللہ کي قسم اس سے  تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھي فائدہ نہيں پہنچتا .البتہ تم اس سے دنيا ميں اپنے کو زحمت و مشقت ميں ڈالتے ہواور اس وجہ سے آخرت ميں بد بختي مول ليتے ہو . وہ مشقت کتني گھاٹے والي ہے جس کا نتيجہ سزائے آخروي ہو . اور وہ راحت کنتي فائدہ مند ہے جس کا نتيجہ دوزخ سے امان ہو .
نوٹ : نہج البلاغہ ميں تواضح اميرالمؤمنين علي  ؑکے مقامات اوربھي ہيں ليکن اختصار کے پيش نظر صرف نظر کررہے ہيں ، اس لئے کہ کہيں اسلامک تھاٹ والے ناراض نہ ہوجائيں .
 گيارہويں فصل
امام حق علي بن ابي طالب عليہ السلام کي مظلومت
بيشک حضرت علي بن ابي طالب  صلوات اللہ وسلامہ عليہ ، مظلوم ہيں ، خود حضرت علي  ؑنے اپني مظلوميت کا اظہار مختلف الفاظ اورمختلف مقامات ميں فرمايا ہم فقط پانچ ارشاد علي  ؑپہ اکتفاکرتے ہيں .
١۔  ‘‘فواللہ مازلت مدفوعاً عن حقي ،مستأثراً علي منذ قبض اللہ نبية حتي ٰ يوم الناس ھذا  ’’(٨١) ترجمہ : اللہ کي قسم جب اللہ نے اپنے رسول  کودنيا سے اٹھايا ہے برابر دوسروں کومجھ پر مقدم کيا گيا ہے اورمجھے ميرے حق سے محروم رکھا گيا ہے .
٢۔  ‘‘ قاتلکم اللّہ لقد ملأتم قلبي قيحاً و شحنتم صدري غيظاً وجرعتموني نغب التھام أنفاساً ’’ (٨٢) ترجمہ : اللہ تمہيں مار ڈالے تم نے ميرے دل کو پيپ کو بھر دياہے اور ميرے سينے کو غيظ و غضب سے چھلکا ديا ہے ، تم نے مجھے غم وحزن کے جرعے پے درپے پلائے .
٣۔  ‘‘ وداعيکم وداع امري مرصدٍ للتلاقي غدا ً ترونَ ايامي ، ويکشف لکم عن سرائري وتعرفونني بعد خلومکاني و قيام غيري مقامي  . ’’ (٨٣) ترجمہ : ميں تم سے اسي طرح رخصت ہو رہا ہوں کہ جسے کوئي شخص ( کسي کي ) ملاقات کئے چشم براہ ہو .
کل تم ميرے اس دور کو ياد کروگے اور ميري نيتيں کھل کر تمہارے سامنے آجائيں گي . اورميري جگہ خالي ہونے اور دوسروں کے اس مقام پرآنے سے تمہيں ميري قدر و منزلت کي پہنچان ہوگي .
٤۔ ‘‘ا ن بني اميہ ليفوقونني تراث محمد تفويقاً واللہ لئن يقيت لھم لأنفضنھم نفض اللحام الوذام التربة .  ’’  (٨٤) ترجمہ : بتحقيق مجھے بنو اميہ ، محمد مصطفيٰ   کا ورثہ تھوڑا تھوڑا کرکے ديتے ہيں:    خدا کي قسم ! اگر ميں زندہ رہا تو انہيں اس طرح جھاڑ پھينکوں گا ، جس طرح قصائي خاک آلودہ گوشت کے ٹکڑے سے مٹي جھاڑ ديتا ہے .
نوٹ : نہج البلاغہ ( نسخہ المعجم المفہرس ) ميں يہ خطبہ ٧٧ص ٢٧ پر موجود ہے اوريہ صرف دو سطروں پر مشتمل ہے .
ہماري نظر ميں سب سے چھوٹا خطبہ يہي ہے . لہٰذا يہ مانند سورۂ  کوثر ہے.
٥۔  ‘‘ و قد قال قائل  : انک علي ھذا الأمر يا بن ابي طالب لحريص  فقلت ُ : بل و أنتم واللہ لأحرص و أبعد و أنا أخص و أقرب ،وانما طلبت حقاً لي و أنتم تحولون بيني وبينہ و تضربون وجھي دونہ ، فلما قرعتہ بالحجة في الملأ الحاضرين ھبَّ کانہ بُھِتَ لايدري ما يجيبني بہ . ’’(٨٥)
ترجمہ: مجھ سے ايک کہنے والے نےکہا: کہ اے علي بن ابي طالب ؑ آپ تو خلافت پر حريص اور للچائے ہوئے ہيں . تو ميں نے کہا کہ خدا کي قسم ! تم اس پر کہيں زيادہ حريص اور ( اس منصب کي اہليت سے ) زيادہ دور ہو . اورميں ہي اس کا اہل ہوں اور ( نبي اکرم  ) سے زيادہ نزديک ہوں . ميں نے تو اپنا حق طلب کيا ہے اور تمہارے تم ميرے اورميرے حق کے درميان حائل ہو جاتے ہو اورجب اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں تو تم مير ارخ موڑ ديتے ہو ، چنانچہ جب بھري محفل ميں ،ميں نے اس دليل سے اس ( کے کان کے پردوں) کوکھٹکھٹايا تو چوکنا ہوااوراس طرح مبہوت ہوکر رہ گيا کہ اسے کوئي جواب نہ سوجھتا تھا .
بارہويں فصل
راز سکوت علي   عليہ السلام
گزشتہ چند فصول کي روشني ميں يہ امر رو ز روشن کي مانند واضح ہوگياہے کہ آنحضرت   کا حقيقي جانشين اور خليفہ بلا فصل حضرت علي بن ابي   طالب  ؑہے . يہاں ايک اعتراض کيا جاتاہے وہ يہ کہ اگر خلافت عليؑ کا حق تھا انہوں نے کيوں خاموشي اور سکوت سے کام ليا .
اس سوال کا جواب ان لوگوں کيلئے تو بالکل واضح ہے جوحضرت علي  ؑکو امام معصوم سمجھتے ہيں . ا س لئے کہ امام معصوم کا ہرعمل اطاعت ،امر اور رضائے الہي سے ہوتاہے . اور اس کا عمل عين حق ہے ليکن وہ لوگ جو حق سے گريزاں اور حق قبول کرنے سے نالا ں ہيں .
ان لوگوں کيلئے اس سکوت کا ہضم کرنا مشکل ہوتاہے . ان کے ہاضمہ کيلئے چند نسخے ذکر کرتے ہيں ، جن کو خود اميرالمؤمنين علي  ؑنے ہي تجويز فرماياہے :
١۔  ‘‘ لقد علمتم اني أحق الناس بھا من غيري ... التماساً لأجر ذالک  وفضلہ ، وزھداً فيما تنافستموہ من زخرفہ و زبرجہ  . ’’ (٨٦) ترجمہ : بتحقيق تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زيادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے .... تاکہ ( اس خاموشي پر ) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زيب و زينت اور آرائش کو ٹھکر ادوں جس پر تم مٹے ہوئے ہو.
٢۔  ‘‘ فنظرت فاذا ليس لي معين لاھل بيتي فضننت بھم عن الموت ، واغضيت علي القذيٰ و شربت علي الشجا، وصبرت علي أخذ الکظم وعلي أمر من طعم العلقم . ’’ (٨٧) ترجمہ :   ميں نے نگاہ اٹھاکر ديکھا ، تو مجھے اپنے اہل بيت  کے علاوہ کوئي اپنا مونس و مدد گار نظر نہ آيا . ميں نے انہيں موت کے منہ ميں دينے سے بخل کيا ، آنکھوں ميں خس و خاشاک تھا . مگر ميں نے چشم پوشي کي ، حلق ميں پھندے تھے ، مگر ميں نے غم و غصہ کے گھونٹ پي ليے اور گلو گرفتگي کے باوجود حنظل سے زيادہ تلخ حالات پر صبر کيا .
٣۔ '' ... و أجمعوا علي منازعتي حقاً کنت أوليٰ  بہ من غيري و قالو ا: ولا ان في الحق  أن تأخذہ و في الحق أن تمنعہ،فاصبر مغموما ً ، أو مت متأسفاً . فنظرت فاذا ليس لي رافد ، ولاذاب  ولامساعد ، الا اھل بيتي فضننت بھم المنية فاغضيت علي القذيٰ ، و جرعت ريعتي علي الشجيٰ ، وصبرت من کظم الغيظ علي أمرمن العلقم، والٰم للقلب من حزِّ الشفار '' (٨٨) ترجمہ :  اور وہ ( قريش ) اس حق ميں کہ جس کا ميں سب سے زيادہ اہل ہوں جھگڑا کرنے کيلئے متحد ہوگئے اوريہ کہنے لگے کہ يہ بھي حق ہے آپ اسے لے ليں ، اور يہ بھي حق ہے کہ آپ کو اس سے روک ديا جائے يا تو غم و حزن کي حالت ميں صبر کيجئے رنج و اندوہ سے مر جائيے ، ميں نے نگاہ اٹھا کر ديکھا تو مجھے اپنے     اہل بيت  کے سوا نہ کوئي معاون و مددگار نظر آيا اورنہ کوئي سينہ سپر اور معين دکھائي دياتو ميں نے انہيں موت کے منہ ميں دينے سے بخل کيا، آنکھو ں ميں خس و خاشاک تھا مگر ميں نے چشم پوشي کي ، حلق ميں ( رنج و الم کے ) پھندے تھے مگر ميں انہيں نگلتا رہا اور غم و غصہ پي لينے کي وجہ سے ايسے حالات پر صبرکيا جو حنظل سے زيادہ تلخ اور دل کيلئے چھريوں کے کچوکو ں سے زيادہ المناک تھے .
٤۔ ‘‘ فلما مضي عليہ السلام تنازع المسلمون الأمر من بعدہ فواللہ ماکان يلقيٰ في روعي ولا يخطر ببالي أن الأمر تزعج ھذا الأمر من بعدہ عن أھل بيتہ و أنھم منحّوہ عني من بعدہ ، فما راعني الا انشيال الناس علي فلانٍ يبايعونہ ، وأمسکت يدي حتيٰ رأيت راجعة الناس قد رجعت  عن السلام يدعون الي محق دين محمد  فخشيت ان لم أنصر الاسلام و أھلہ أن أريٰ فيہ ثلما ً و ھدماً  تکون المصيبتہ بہ علي أعظم من فوت ولايتکم التي انما ھي متاع أيام قلائل يزول منھا ماکان کما يزول السراب ُ... ’’ (٨٩) ترجمہ : پس جب آنحضرت   کي رحلت ہوئي تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے ميں نزاع اور کھينچا تاني شروع کردي اس موقع پر اللہ کي قسم مجھے يہ کبھي تصور بھي نہيں ہوا تھا اورنہ ميرے دل ميں يہ خيال گزرا تھا کہ پيغمبر کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بيت   سے موڑ ديں گے اورنہ يہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا ديں گے . مگر ايک دم ميرے سامنے يہ منظر آيا، کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بيعت کرنے کيلئے دوڑ پڑے .
ان حالات ميں، ميں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا يہاں تک ميں نے ديکھا کہ مر تد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد کے دين کو مٹاڈالنے کي دعوت دے رہے ہيں . اب ميں ڈرا کہ اگر کوئي رخنہ يا خرائي ديکھتے ہوئے ميں اسلام اوراہل اسلام کي مدد نہ کروں گا تو يہ ميرے لئے اس سے بڑھ کر مصيبت ہوگي ، جتني يہ مصيبت کہ تمہاري يہ حکومت ميرے ہاتھ سے چلي جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے اس ميں کي ہر چيز زائل ہو جائے گي . اس طرح جيسے سراب بے حقيقت ثابت ہوتا ہے يا جس طرح بدلي چھٹ جاتي ہے ، چنانچہ ان بدعتوں کے ہجوم ميں اٹھ کھڑا ہو ايہاں تک کہ باطل دب کر فناہوگيا اور دين محفوظ ہو کر تباہي سے بچ گيا .
 عرض حقير :
اختصار کے پيش نظر اسي پر اکتفاکرتے ہيں ليکن مذکورہ فرامين اوردوسرے چند فرامين جن کو ابن ابي الحديد معتزلي اور صاحب مستدرک نہج البلاغہ نے تحرير کيا ہے ان کا نچوڑ مندرجہ ذيل نکات ميں پيش کياجاتاہے .
١۔      اللہ سے اجر و ثواب کا طلب کرنا ( حکم و امر خداکي تابعداري )
٢۔      خلافت چونکہ بالعرض مطلوب ہے نہ بالذات اسي لئے اسے ٹھکرا دينا
٣۔      حفاظت اہل بيت  ؑ يا محافظت ِ حجت خدا
٤۔      حق لينے ميں معين ، مددگار ،معاون او ر سينہ سپر کي قلت
٥۔      اسلام کي حفاظت
٦۔      مسلمانوں کي حفاظت ( ارتداد کا سدباب )
٧۔      تعميل و تابعداري حکم رسول
آخري عرض :
حضرت اميرالمؤمنين علي  ؑکے تمام وہ ارشاد ات جو عظمت ِ اہل بيت  ؑ کے متعلق ہيں ہم ان کے ذکر سے محروم رہ گئے ہيں اور اس محروميت کا سبب بھي صفحات پر پابندي ہے جو ہميشہ مجھے اذيت دے رہي تھي او ر يہ محدوديت اور پابندي لگانے والے بھي قدرے حق بجانب ہيں . پس ان شاء اللہ توفيق ملنے کي صور ت ميں ہمارا يہ سفر جاري و ساري ، رواں دواں رہے گا .

حوالہ جات
١۔  نہج البلاغہ ( نسخہ المعجم المفہرس ) خ١ ص ٣ ، ط٥ ، ١٤١٧ھ مؤسسة النشرالاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفہ ، ايران .
٢۔  خوئي   ، حبيب اللہ ، منھاج البراعة في شرح نہج البلاغہ ، ج٢ ،ص١٥٩، ط ٣ ، مؤسسة دارالعلم ، قم ، ايران .
٣۔  کليني ، محمد بن يعقوب ، متوفي ٣٢٩ھ ، الاصول من الکافي ، ج١ ،ص١٧٨، ح ٨ ، کتاب الحجہ ، باب ان الارض لاتخلو من حجةٍ ، تصحيح وتعليق ، علي اکبر غفاري ، طبعہ ٥،١٣٦٣ش ، دارالکتب اسلاميہ ، تہران ، ايران              
٤۔ نہج البلاغہ ، ق ( قصار الحکم  ) ١٤٧،ص ١٦٤.
٥۔  نہج البلاغہ ، ق ١٦٧ ،ص ١٦٤ ،      ترجمہ نہج البلاغہ ( مفتي جعفر حسين  ) حکمت ١٤٧،ص ٨٥١، ٨٥٢ ،اماميہ کتب خانہ مغل حويلي اندرون موچيدروازہ لاہور پاکستان،و صدوق ، ابو جعفر محمد بن علي متوفي ٣٨١ھ ق ، کمال الدين  وتمام النعمہ ،ص ٢٩٤، باب ٢٦، تصحيح و تعليق : علي اکبر غفاري ، محرم الحرام ١٤٠٥ھ ، مؤسسة النشرالاسلامي ، قم ، ايران .
٦۔ صدوق ، ابو جعفر محمد بن علي ، متوفي ٣٨١ ، الامالي ، ص ٢٥٣ ، ح ٢٧٧/٥١، طبعہ اوليٰ ، ١٤١٧ھ مؤسسة البعہ ، قم  ، ايران .
٧۔ نعماني ، ابو زينب محمد بن ابراہيم ، متوفي ٣٨٠، الغيبة ، ص١٤٠ ،باب ٨،ح ١٠ ، تحقيق : فارس حسون کريم ، طبعہ ١  ،١٤٢٢ھ انوارالھديٰ ،قم، ايران.
٨۔   کليني ، محمد بن يعقوب ، متوفي ٣٢٩ھ ، الاصول من الکافي ، ج١ ،ص١٧٩، ح ٨ ، کتاب الحجة،باب ان الارض لاتخلو من حجة ٍ
٩۔   صدوق ، ابو جعفر محمد بن علي ، متوفي ٣٨١، الامالي ، ص ٢٥٣، ح ١٧
١٠۔  صدوق ، ابو جعفر محمد بن علي ، متوفي ٣٨١، علل الشرائع ، ج ١ ،ص ١٩٨،باب ١٥٣،ح ١٧و ١٨ ، ١٣٨٥ھ ، ١٩٦٦ ع ، المکتبتہ الحيدريہ ، النجف الاشرف ، عراق .
١١۔  صدوق ، ابو جعفر محمد بن علي ، متوفي ٣٨١، علل الشرائع ، ج ١ ،ص ١٩٩،باب ١٥٣،ح٢١ ، ١٣٨٥ھ ، ١٩٦٦ ع ، المکتبتہ الحيدريہ ، النجف الاشرف ، عراق .
١٢۔  خوئي ، حبيب اللہ ، منھاج البراعة ، ج٢ ،ص١٦٠، ( خطبہ اوّل )
١٣۔ طوسي، ابن حمزہ ، متوفي ٥٦٠، الثاقب في المناقب ، ص ٤٩٥، ح ٤٢٤ /١، تحقيق نبيل رضا علوان ، طبعہ سوم ، ١٤١٢ھ ،مؤسسة انصاريان ،قم ، ايران .
١٤۔ شيباني ، احمد بن حنبل ، متوفي ٢٤١ ، المسند ،ج٤،ص٩٦، دارصادر بيروت ، لبنان
١٥۔ اسکافي ، ابو جعفر ، متوفي ٢٢٠، المعيار و الموازنہ ،ص ٢٤،تحقيق : محمد باقر محمودي ، طبعہ ١، ١٤٠٢ھ ١٩٨١ع
١٦۔  مسند ابي يعلي الموصلي ،متوفي ٣٠٧، ج١٣ ،ص٣٦٦ ، ح٧٣٧٥، تحقيق : حسين سليم اسد ، طبعہ ١، ١٤١٢ھ ، ١٩٩٢ع ، دارالممون .
١٧۔  صحيح ابن حبان ، متوفي ٣٥٤، ج ١٠ ، ص ٤٣٤ باب طاعة الائمہ ، طبعہ ٢، ١٤١٤ھ ، ١٩٩٣ع ،مؤسسة الرسالة بيروت ، لبنان .
١٨۔  طبراني ، متوفي ٣٦٠ ، المعجم الکبير ، ج١٩ ،ص ٣٣٥، تحقيق :حمدي ، عبدالمجيد السلفي ، دار احياء التراث العربي ، مکتبہ ابن تيمة قاھرہ .
١٩۔  نہج البلاغہ ، خ١٥٢ ، ص ٦٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ ١٥٠،ص ٣٩٨   
٢٠۔  نہج البلاغہ ، خ ١٩٠ ، ص ٨٨ ،تر جمہ نہج البلاغہ ، خ ١٨٨ ،ص٥١٠
٢١۔  مقدس اردبيلي ، احمد بن محمد ، حديقة الشيعہ ، ص١٦ ،طبعہ ٥، ١٣٨١، انتشارات گلي ، تہران .
٢٢۔  اميني ، عبدالحسين احمد، الغدير ، ج٦،ص ٢٢ ( ولادة اميرالمؤمنين  ـ في الکعبة ) طبعہ ٧، ١٣٨٣ ھ ش، دارالکتب الاسلاميہ ، تہران ، ايران
٢٣۔  نہج البلاغہ ، خ ٣ ، ص ٥،ترجمہ نہج البلاغہ ، مفتي جعفر حسين  ، خ ٣ ،ص ٨٨ ،
٢٤۔  نہج البلاغہ ، خ ٧٤ ، ص١٠٦،ترجمہ نہج البلاغہ ، مفتي جعفر حسين  ، خ ٢١٥ ،ص٥٩٧
٢٥۔  نہج البلاغہ ، ک ٢٨ /١٧، ص١٢٣،ترجمہ نہج البلاغہ ، مفتي جعفر حسين  ، مکتوب٢٨ ،ص ٢١٩
٢٦۔  نہج البلاغہ ، ک ٢٨ /١٧، ص١٢٣،ترجمہ نہج البلاغہ ، مفتي جعفر حسين  ، مکتوب٢٨ ،ص ،٦٨٢
٢٧۔  نہج البلاغہ ، ق ١٩٠ ، ص ١٦٧،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ١٩٠،ص،٨٦٤     
٢٨۔ نہج البلاغہ ، ق ١٩٠ ، ص ١٦٧،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ١٩٠،ص،٨٦٤
٢٩۔   نہج البلاغہ ، خ٣٧، ص١٨،ترجمہ نہج البلاغہ ،خ ٣٨،ص١٨١  
٣٠۔  نہج البلاغہ ، خ١٣١، ص٥٨،ترجمہ نہج البلاغہ ،خ ١٢٩،ص٣٦٤
۳۱۔    نہج البلاغہ ، خ٥٧، ص٢٢،ترجمہ نہج البلاغہ ،خ ٥٧،ص١٩٩
٣٢۔   نہج البلاغہ ، خ٩٢، ص٩٥،ترجمہ نہج البلاغہ ،خ١٩٠،ص٥٣٦
٣٣۔   نہج البلاغہ ،خ ٧١ ، ص ٢٥، ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ٦٩،ص،٢١٥
٣٤۔  معتزلي ،ابن ابي الحديد ، متوفي ، ٦٥٦ھ ق ، شرح نہج البلاغہ ،ج ٢٠ ،ص ٢٥ ، تحقيق : محمد ابوالفضل ابراہيم ، موسسة اسماعيليان .
و  مدني ، سيد علي خان ، متوفي ١١٢٠ھ ق ،الدرجات الرفيعہ في طبقات الشيعہ ، تحقيق : سيد محمد صادق بحرالعلوم ، ١٣٩٧ھ ، بصيرتي ، قم ، ايران .
٣٥۔  نہج البلاغہ ، ک ٩ ، ص ١١٦ ، ترجمہ نہج البلاغہ ، مکتوب ٩ ،ص ٦٤٧،١٤٨
٣٦۔  محاملي ، حسين بن اسماعيل ، متوفي ٣٣٠ھ ، المالي ،ص ٢٢٢ ،ح ٢٠٩ ، تحقيق: ابراہيم فيسي ، طبعہ اوليٰ ، ١٤١٢ھ ق ، المکتبة الاسلاميہ ، دار ابن القيم ، اردن.و خطيب بغدادي ،متوفي ٤٦٣ھ ، تاريخ بغداد ، ح ٤،ص ٤٥٦، رقيم الترحجہ:٢٢٦٣، تحقيق :مصطفيٰ عبدالقادر عطا ، طبعہ اوليٰ ، ١٤١٧ھ ، ١٩٩٧ع ، دارالکتب العلميہ ، بيروت ، لبنان .
٣٧۔  طبري ، احمد بن عبداللہ ، متوفي ، ٦٩٤ھ ،ذخائر العقبيٰ ،ص ٥٨،١٣٥٦ ھ ، مکتبہ القدسي ، القاھرہ ، و معتزلي ،ا بن الحديد ، متوفي ٦٥٦، ج ١٣ ،ص ٢٢٨ ، متقي ھندي ، علي ، متوفي ٩٧٥ھ ق ، کنزالعمال ،ج١٣ ، ص ١٦٤، تحقيق: الشيخ بکري حياني ، ١٤٠٩ ھ ، ١٩٨٩ ع ، مؤسسة الرسالة ، بيروت لبنان .
٣٨۔ عاملي ، ابن حاتم ،متوفي ٦٦٤ھ ، الدرالنظيم ،ص ٢٦٥ ، مؤ سسة النشرالاسلامي ، قم ، ايران .علامہ حلي   ، متوفي ٧٢٦ھ ، کشف المراد ، ص ٢٢٩، تحقيق : آےة اللہ حسن زادہ آملي .طبعہ ٧، ١٤١٧ھ ق ، مؤسسة النشر الاسلامي ،قم .و بحراني ، علي ، متوفي ١٣٤٠ھ ق ،منارالھديٰ ،ص ٢٨٦ ، تحقيق : سيد عبد الزہرا .الخطيب ، طبعہ اوليٰ ، ١٤٠٥ھ ، ١٩٨٥ ع ، دارالمنتظر ، بيروت ، لبنان .                   
٣٩۔ نہج البلاغہ ، خ ١٩٧ ،ص ٩٨، ترجمہ : نہج البلاغہ ، ١٩٥ ،ص ٥٥٢
٤٠۔  زين الدين ، علي بن يوسف بن جبر ، نھج الايمان ،ص ١٦٥ ، ( الفصل الخامس في ذکر الصادقين ) تحقيق : سيد احمد حسيني ، طبعہ اوليٰ ، ١٤١٨ھ ق، مجتمع امام ہادي  مشہد مقدس .
٤١۔  ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابي طالب ؑ، ج ١ ص ٢٩٢، تصحيح و شرح : لُجنة من اساتذہ النجف الاشرف ، طبع ١٣٧٦ھ المکتبة الحيدرےة ،ا لنجف الاشرف.
٤٢۔  نہج البلاغہ ، خ ٢ ،ص ١١ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ ٢٢ ،ص ١٤٤
٤٣۔  نہج البلاغہ ، خ ٩٧ ،ص ٤٣ ، ترجمہ نہج البلاغہ ، خ ٩٥ ،ص ٢٨٧
٤٤۔  نہج البلاغہ ، ک٦٢ ،ص ١٤٥
٤٥۔  واسطي ، علي بن محمد ، متوفي ٦٠٠ ھ ق، عيون الحکم والموعظ ،  ص ٤١٥،  ''  الفصل السادس : بلفظ  لو  '' تحقيق : شيخ حسين الحسيني بير جندي ، طبعہ اوليٰ ، دارالحديث .
٤٦۔  مذکورہ حوالہ ،ص ١٦٩، الفصل الخامس بلفظ اني .
٤٧۔  علامہ حلي ، حسن بن يوسف ، متوفي ٧٢٦ ھ ق ، الباب الحادي عشر ،ص ٨٥، شارح ، مقداد بن عبداللہ محمد بن الحسين اسدي سيوري حلي ، متوفي ٨٢٦،  تحقيق : محمود رضا افتخار زادہ ، مکتبة المعارف الاسلاميہ ، قم ، ايران .
٤٨۔   علامہ حلي ، حسن بن يوسف ، متوفي ٧٢٦ ھ ق ، الباب الحادي عشر ،ص ٨٥، شارح ، مقداد بن عبداللہ محمد بن الحسين اسدي سيوري حلي ، متوفي ٨٢٦،  تحقيق : محمود رضا افتخار زادہ ، مکتبة المعارف الاسلاميہ ، قم ، ايران .
٤٩۔  علامہ حلي ، حسن بن يوسف ، متوفي ٧٢٦ ھ ق ، الباب الحادي عشر ،ص ٨٥، شارح ، مقداد بن عبداللہ محمد بن الحسين اسدي سيوري حلي ، متوفي ٨٢٦، تحقيق : محمود رضا افتخار زادہ ، مکتبة المعارف الاسلاميہ ، قم ، ايران .                                
٥٠۔  البقرہ ، ١٩٩
٥١۔   علامہ حلي ، حسن بن يوسف ، متوفي ٧٢٦ ھ ق ، الباب الحادي عشر ،ص ٥٨
٥٢۔  نہج البلاغہ ، خ ٤،ص ٦
٥٣۔  نہج البلاغہ ، خ ١٦،ص ٩
٥٤۔  نہج البلاغہ ، خ ٩٢ا/١١٧،ص ٩٤
٥٥۔   نہج البلاغہ ، ق ١٨٥،ص ١٦٧
٥٦۔  نہج البلاغہ ، خ ١٢٢،ص ٥٥
٥٧۔  کليني ، محمد بن يعقوب ، متوفي ٣٢٩ھ ، الاصول من الکافي ، ج ١ ،ص ١٩١
٥٨۔  نہج البلاغہ ، خ ١٨٩،ص٨٨
٥٩۔  نہج البلاغہ ، خ ١٢٠،ص٥٤
٦٠۔  نہج البلاغہ ، خ ٥،ص٧
٦١۔  شافعي ،محمد بن طلحہ ، متوفي ٦٥٢ھ ، مطالب السؤول ، ص ١٤٩ ، تحقيق : ماجد ابن احمد العطية .
٦٢۔  احمدي ميانجي ، معاصر ، مواقف الشيعہ ، ج٣ ،ص ١١٦ ،طبعہ اوليٰ ،رجب المرجب ١٤١٦ھ ، مؤسسة النشرالاسلامي ،قم ، ايران .
٦٣۔  معتزلي ، ابن ابي الحديد ،متوفي ٦٥٦ھ ق ، شرح نہج البلاغہ ، ج١ ،ص ٢٠ ، تحقيق : محمد ابو الفضل ابراہيم ، طبعہ اوليٰ ، ١٣٧٨ھ ، ١٩٥٩ع ، دار احيا ء الکتب العلميہ ، بيروت ، لبنان.
٦٤۔ عاملي ، علي بن يونس ، متوفي ٨٧٧ھ ، الصراط المستقيم  ، ج٢،ص ٣ ، ( تتمة الباب التاسع ) تصحيح و تعليق : محمد باقر بہبودي ، المکتبة المرتضويہ ، تہران ، ايران .
٦٥۔  نہج البلاغہ ، ک ٤٥، ص ١٣٤، ترجمہ نہج البلاغہ ، مکتوب ٤٥،ص ٢٢٨
٦٦۔ مجلسي ، محمد باقر ، متوفي ١١١١ ھ، بحار الانوار ،ج١٩، ص ٨٣، تحقيق : عبدالرحيم رباني شيرازي ، طبعہ دوم ١٤٠٣ھ ، مؤسسة الوفا، بيروت ،لبنان.
٦٧۔ نہج البلاغہ ، خ ٣،ص ٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٣،ص ٩٠-٩١
٦٨۔  نہج البلاغہ ، خ ٣٣،ص ١٦،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٣٣،ص ١٧١
٦٩۔  نہج البلاغہ ، خ٧٤،ص٢٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٧٢،ص٢١٩
٧٠۔   نہج البلاغہ ، خ٢٢٤،ص ١١٠ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٢٢١،ص ٦١٣
٧١۔   نہج البلاغہ ،ق٧٧،ص١٥٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت٧٧،ص ٨٢٥-٨٢٦
٧٢۔  نہج البلاغہ ،ک ٤٥،ص١٣٤،ترجمہ نہج البلاغہ ،مکتوب٤٥،ص٢٢٨-٢٢٩
٧٣۔  نہج البلاغہ ، خ١٥،ص ٨ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ١٥،ص١٢٧
٧٤۔  نہج البلاغہ ، خ١٢٦،ص٥٦-٥٧ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ١٢٤،ص ٣٥١-٣٥٢
٧٥۔  نہج البلاغہ ، خ١٣٦،ص ٦٠ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ١٣٤،ص ٣٧١
٧٦۔ نہج البلاغہ ، خ٣٧،ص ١٨ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٣٧،ص١٨١
٧٧۔نہج البلاغہ ،ق٨٣،ص ١٥٧ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ٨٣،ص ٨٢٨
٧٨۔ نہج البلاغہ ،ق١٠٠،ص ١٥٩ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ١٠٠،ص٨٣٣
٧٩۔  نہج البلاغہ ،ق٣٢٢،ص ١٧٩ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ٣٢٢،ص٩١٣
٨٠۔   نہج البلاغہ ،ق٣٧،ص ١٥٣ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، حکمت ٣٧،ص٨١٥-٨١٦
٨١۔   نہج البلاغہ ، خ٦،ص ٧ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٦،ص١١١
٨٢۔  نہج البلاغہ ، خ٢٧،ص ١٣ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٢٧،ص١٥٥
٧٣۔  نہج البلاغہ ، خ١٤٩،ص ٦٤ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ١٤٧،ص٣٩١
٨٤۔  نہج البلاغہ ، خ٧٧،ص ٢٧ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٧٥،ص٢٢١
٨٥۔  نہج البلاغہ ، خ١٧٢،ص٧٧ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ١٧٠،ص٤٤٩
٨٦۔  نہج البلاغہ ، خ٧٤،ص ٢٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٧٢،ص٢١٩-٢٢٠
٨٧۔  نہج البلاغہ ، خ٢٦،ص ١٢ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٢٦،ص١٥٢
٨٨۔  نہج البلاغہ ، خ٢١٧،ص ١٠٦ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، خ٢١٥،ص٥٩٧
٨٩۔  نہج البلاغہ ،ک٦٢،ص١٤٥ ،ترجمہ نہج البلاغہ ، مکتوب٦٢،ص٧٨٠-٧٨١
 

تحقيق :الشيخ ديدار علي اکبري المشہدي
 حوزہ علميہ مشہد مقدس
 ٢٠جمادي الثاني ١٤٣١ ھ ق ( ولادت حضرت فاطمہ زہرا (س)

 

مآخذ: دانشگاہ معارف اہلبيت عليہم السلام

Add new comment