قرآنِ کريم کے فضائل اور تلاوت کے آثار

 بسمہ تعالي
قرآنِ کريم، اسلام کي حفاظت کي سند اور پيغمبراکرمؐ کا زندہ و جاويد معجزہ ہے۔ قرآنِ کريم نے خود اپني تعريف، ان الفاظ ميں بيان کرتا ہے: نور، عبرت، بيان، تبيان (واضح  اور کھول کھول کر بيان کرنے والا)، تذکرہ، ہدايت، دليل، ذکر، شفا، فرقان (حق اور باطل ميں فرق ڈالنے والا) اور مبارک (برکت والا)۔
تاھم انتہائي افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے ايسے لوگ بھي ہيں جو قرآن پڑھنا تک نہيں جانتے اور اگر پڑھنے کي سمجھ بوجھ رکھتے ہيں، تو غلط پڑھتے ہيں اور اگر صحيح پڑھتے ہيں تو اس کے معني و مفہوم کو نہيں سمجھتے اور جو اس کے معني و مفہوم کو سمجھتے ہيں، وہ اس ميں غور و فکر نہيں کرتے اور جو غور و فکر کرتے ہيں وہ اس سے درسِ عبرت نہيں ليتے! مختصر يہ کہ قرآن سے ہمارا تعلق، اپنے ليے حصولِ ثواب، مُردوں کے ليے ايصالِ ثواب، دوسروں کو يقين دلانے کے ليے قسميں اُٹھانے، تجويد پڑھنے پڑھانے، حفظ، ترتيل اور حُسنِ قرائت کے مقابلوں ميں شرکت کرنے وغيرہ کي حد تک ہي محدود ہے۔ جبکہ اس انسان ساز کتاب کا نزول، اس ليے ہے کہ اس ميں غور و فکر اور تدبر کيا جائے، جو ابھي تک ہمارے معاشرے ميں رواج نہيں پا سکا ہے۔
قرآن وہ کتاب ہے جو معاشرے کے ہر درد کي دوا ہے، اس کے عالي اور عميق مفاہيم کو سادہ انداز ميں پيش کرنے کي ضرورت ہے، تاکہ اس پر ايمان رکھنے والے آساني سے اس کے مطالب کو سمجھيں اور اپني روز مرہ کي زندگيوں ميں اپنے ليے راہنما اور راہ کشا بنا سکيں۔
 پيغمبراکرمؐ فرماتے ہيں:‘‘قرآن کي فضيلت تمام دوسرے کلام پر اسي طرح ہے جيسے خداوند عالم کي فضيلت اپني تمام مخلوقات پر۔’’ ١
 پيغمبرخداؐ فرماتے ہيں: ‘‘تم پر قرآن کا سيکھنا اور کثرت سے پڑھنا لازم ہے۔’’ ٢
پيغمبراکرمؐ فرماتے ہيں: ‘‘اے معاذ! اگر تم (دنيا ميں) سعادتمندوں کي زندگي، شہيدوں کي موت، روزِ حشر نجات، خوف کے دن أمن، ظلمت و تاريکي کے دن نور، شدتِ حرارت کے دن سايہ، پياس کے دن رفعِ تشنگي، ميزان کے دن وزن کي سنگيني اور سرگرداني کے دن ہدايت چاہتے ہو تو قرآن سيکھو، کيونکہ قرآن، خدائے رحمن کا ذکر، شيطان سے بچاؤ کا تعويز اور نامۂ عمل ميں برتري ہے۔’’ ٣
تلاوتِ قرآن کے آثار:
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ قرآنِ کريم کا اعجاز صرف اُس کي فصاحت و بلاغت اور شيريں بياني سے مخصوص نہيں، بلکہ اس کي تمام غيبي خبريں، ديني تعليمات، احکام و قوانين، مختلف علوم و فنون، گذشتہ اُمتوں کي تاريخ اور واقعات، جن ميں کوئي اختلاف اور تضاد نہيں، يہ تمام چيزيں بھي اعجاز کا پہلو رکھتي ہيں۔ بلکہ بعض کے نزديک تو قرآن کے الفاظ اور کلمات بھي اپني مخصوص آہنگ اور لہجے کے اعتبار سے معجز نما ہيں اور اس بارے ميں گواہ کے طور پر مشہور مفسِّرِقرآن، سيد قطب کے ساتھ پيش آنے والے واقعہ کو خود اُن کي زباني پيش کرتے ہيں:
وہ کہتے ہيں: ہم چھ مسلمان ايک مصري کشتي کے ذريعہ ‘‘بحراطلس’’ ميں نيويورک کي طرف سفر کر رہے تھے، کشتي ميں ١٢٠  مرد اور خواتين سوار تھے۔ ہم لوگوں کے علاوہ، کشتي کے عملے ميں کچھ افريقي مسلمان بھي موجود تھے، جمعہ کے دن ہم لوگوں کے ذہن ميں يہ بات آئي کہ اس عظيم سمندر ميں ہي کشتي پر نماز جمعہ ادا کي جائے، ہم چاہتے تھے کہ اپنے مذہبي فريضہ کو انجام دينے کے علاوہ، اپنے اسلامي جذبہ کا اظہار کريں، کيونکہ کشتي ميں ايک عيسائي مبلغ بھي تھا جو اس سفر کے دوران عيسائيت کي تبليغ کررہا تھا يہاں تک کہ وہ ہميں بھي عيسائيت کي دعوت دے چکا تھا۔
کشتي کا ناخدا ايک انگريز تھا جس نے ہم کو کشتي ميں نماز جمعہ کي اجازت ديدي اور کشتي کے تمام افريقي مسلمان عملے کو بھي ہمارے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے کي اجازت مل گئي، وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ انہيں پہلي بار کشتي پر نماز جمعہ پڑھنے کاموقع مل رہا تھا۔ سيد قطب کہتے ہيں: ميں نے نماز جمعہ کي امامت کرائي اور قابل توجہ بات يہ تھي کہ تمام غير مسلم مسافر ہمارے اطراف کھڑے، اس اسلامي فريضہ کے ادائيگي کو غور سے ديکھ رہے تھے۔
نماز جمعہ تمام ہونے کے بعد بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے اور اس کاميابي پر مبارک باد پيش کي، اُن ميں ايک عيسائي عورت بھي تھي، اُس پر ہماري نماز کا بہت زيادہ اثر ہوا يہاں تک کہ اُس کي آنکھوں سے آنسو جاري تھے اور وہ خود پر قابو نہيں رکھ پارہي تھي۔
اُس نے انگريزي ميں بڑي انکساري سے پوچھا: يہ بتاؤ کہ تمہارا پادري کس زبان ميں پڑھ رہا تھا؟ (شايد وہ سوچ رہي تھي کہ عيسائيوں کي طرح مسلمانوں ميں بھي نماز پڑھانے والا کوئي روحاني ہي ہونا چاہيے) ہم نے اسے بتايا کہ اس اسلامي عبادت کو کوئي بھي باايمان مسلمان انجام دے سکتا ہے اور ہم اپني يہ عبادت عربي زبان ميں ادا کرتے ہيں۔
کہنے لگي: اگرچہ ميں ان الفاظ کے معني تو نہيں سمجھتي، ليکن يہ بات واضح ہے کہ ان الفاظ کي عجيب آہنگ اور لہجہ ہے اور سب سے زيادہ قا بل تو جہ بات مجھے يہ محسوس ہو ئي کہ تمہارے امام کے خطبوں کے درميان کچھ ايسے جملے تھے جو دوسرے جملوں سے ممتاز تھے، وہ غير معمولي اور عميق انداز کے محسوس ہورہے تھے، يقينا يہ انساني کلام نہيں ہے۔
ہم نے غور کيا تو سمجھ گئے کہ يہ جملے وہي قرآني آيات تھے جو خطبوں کے درميان پڑھے گئے تھے، اس بات نے ہميں حيرت زدہ کر ديا اور اس نکتہ کي طرف متوجہ ہوئے کہ   قرآنِ کريم کا مخصوص لہجہ اتنا موثر ہے کہ جو عورت اس کا ايک لفظ بھي نہيں سمجھ سکتي تھي اُس پر بھي بہت زيادہ اثر ہوا تھا۔  ٤
١۔ مستدرک الوسائل، ميرزا نوري، ج٤، س٢٣٧
٢۔ ميزان الحکمۃ، محمدي ري شہري، ج٣، ص٢٥٢١
٣۔ کنزل العمال، متقي ہندي، حديث ٢٤٣٩
٤۔ تفسير في ضلال القرآن، سيد قطب، جلد ٤، صفحہ ٤٢٢

مقالہ نويس: سيد عقيل حيدر زيدي

 

مآخذ: دانشگاہ معارف اہلبيت عليہم السلام

 

Add new comment