ملکوتی صلوات کا راز

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ:اس آرٹيکل کے جملہ حقوق محفوظ ہیں
سید موسیٰ رضا نقوی

مقدمہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے اہلبیت علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنےکی اہمیت اور اس پر مرتب ہونے والے تکوینی و تشریعی آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اہم مسئلہ پر عقلی اور برہانی جہت سے تحقیق کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئےہم نےقلم اٹھانے کی کوشش کی ہے جبکہ اس سے پہلے اردو زبان میں ہم نے ایسا مقالہ نہیں دیکھا جو علمی،حکمی اور عرفانی تحقیقات پر مشتمل ہو، بدیہی امرہے ہر وہ مطلب جو عقلی برہان سے محکم و استوار نہ ہو ہمارے مد مقابل مخالف کبھی بھی ایسے مطالب کو تسلیم نہیں کریں گے اس کی تصدیق اور اس پر یقین قائم کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔لہٰذا ہم قرآن مجید اور وحی الہٰی کی اس منطقی روش پر عمل کرتے ہیں جس میں برہان اور منطقی استدلال سے مد مقابل کو دعوت دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:’’اُدْعُ إِلى‏ سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ۔۔۔‘‘۱ ترجمہ: اے رسولؐ!تم لوگوں کو اپنے پروردگار کی راہ پر حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلاؤ اور بحث و مباحثہ کرو بھی تو ایسے طریقے سے جو لوگوں کے نزدیک سب سے اچھا ہو۔
اس مختصر تحقیق میں ہماری کوشش یہی رہے گی کہ برہان اور منطقی استدلال سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے اہلبیت علیہم السلام پر صلوات کی ضرورت ،اس کے فوائد اور آثار کے بارے میں مختصر مقالہ لکھیں اور اہل ولاء و معرفت کی خدمت میں ہدیہ کریں۔اس مختصر مقالے  کا نام ’’ملکوتی صلوات کا راز‘‘رکھا گیا ہے۔ہماری کوشش رہے گی کہ اس مقالہ میں مندرج تمام مطالب عقلی براہین،قرآنی شواہد اور حضرات معصومین علیہم السلام کی معتبر احادیث کے مطابق ہوں۔
دعا ہے کہ ہماری یہ مختصر کاوش حضرت حق متعال جل جلالہ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی پاک آل  صلوات اللہ وسلامہ علیہم  اجمعین کی بارگاہ میں مقبول  واقع ہو۔
پہلی فصل
ملکوتی صلوات کاراز
الحمد للہ علی جمالہ و جلالہ والصلاۃ والسلام علی محمد وآلہ
’’إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً‘‘۲
 خداوندمتعال اپنے تمام ملائکہ( اور نطام ہستی کی تمام قوتوں )کے ساتھ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے لہٰذا آپ اہل ایمان پر بھی لازم ہے کہ آنحضرت پر درود بھیجیں اور اُن کے اوامر پربطور مطلق سر تسلیم خم کرلیں۔
اہم بنیادی نکات
اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے آیۂ کریمہ میں
آیۂ کریمہ میں’’اللہ‘‘خداوندمتعال کی ذات کا نام ہے جو تمام صفات کمالیہ،اسماء جمالیہ اور جلالیہ کا مظہر ہے۔’’اللہ‘‘خداوندمتعال کااسم جامع ہے اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے کامل مظہر ہیں چونکہ خودحضرت ارشادفرماتے ہیں:’’اُوتیت جوامع الکلم‘‘۳ جوامع کلم الہٰی یعنی خداوندمتعال کےاسماء،صفات جمال وجلال اور اس کی  تمام آفاقی ،انفسی آیات کے مظاہرسب وجودی کلم ہیں۔اسی بنا پر حضرت  پر نازل ہونے والی کتاب’’ قرآن مجید‘‘ جامع الکتب،حضرت کا ’’دین ‘‘جامع الادیان ،حضرت کی ’’شریعت‘‘ جامع الشرائع، حضرت کادن’’جمعہ‘‘جامع الایام،اور حضرت کی دعوت بھی اسم جامع کی طرف ہے ۔لہٰذاتمام عبادی،اخلاقی،سیاسی،معاشرتی احکام کمال اور حضرت کے مقام جمع الجمعی پر فائز ہونے سے حکایت کرتے ہیں۔
اسی بنا پرمبدأ اعلیٰ حضرت متعال کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات حضرت کے اسی اسم جامع’’اللہ‘‘کے مظہر ہونے کی جہت سے ہے لہٰذا خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے: ’’إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً‘‘۴ ترجمہ:اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں،  اے ایمان دارو تم بھی اُن پر دروداور سلام بھیجتے رہو ۔
آیۂ کریمہ میں ملائکہ سے مرادتمام غیبی،شہودی،جبروتی،ملکوتی اور ناسوتی قوتیں ہیں جنہیں ’’جنود الہٰی ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہےانکی انواع اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا علم خداوندمتعال کو ہی ہے اسی لیے ارشاد ہوتا ہے:’’۔۔۔وَ ما يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ۔۔۔‘‘ ۵ ترجمہ:اور تیرے پروردگار کے علاوہ کوئی بھی اس کی قوتوں کا اندازہ نہیں کرسکتا!

صلوات کی اہمیت
صلوات کی اہمیت میں بس اتنا ہی کنا  کافی ہے کہ ہستی کے سلطان مطلق،کل الکمال والی ذات نے اپنی تمام عظمت،جلالت،کبریائی،غنی مطلق و بے نیاز ہونے کے باوجود اپنے رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کی پہلے خود ابتدا فرمائی ہے پھر اپنے تمام ملائکہ اور نظام ہستی کی تمام غیر متناہی قوتوں کو اپنے ساتھ اپنے نبی کی اس تجلیل و تکریم میں شامل کیا اور پھر تمام اہل ایمان  اور اہل معرفت کو آنحضرت ؐپر درود و صلوات بھیجنے کا دستور دیا ہے۔

صلوات کا مطلب
خداوندمتعال کی جانب سےحضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات آپ ؐکی تعظیم وتکریم،شرافت اُس کی طرف سےآنحضرتؐ  پر خاص عنایت کی نشاندہی کرتی ہے؛ملائکہ کی جانب سے  صلوات آنحضرتؐ کی ثناء،آپؐ  کی امت کے لیے دعائے خیر اور استغفار پر دلالت کرتی ہےجبکہ اہل ایمان کی جانب سے صلوات طلب رحمت کے لیے ہے۔

صلوات کے ضروری ہونے کا راز
پہلا اہم نکتہ:
اگر سوال کیا جائے کہ فیض اور رحمت کامنبع کیا ہے؟تو یہی جواب ملے گا کہ حضرت حق متعال کی ذات ہی ایسی ذات ہے جس سے تمام فیوضات جاری ہیں ؛یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام وجودی فیوضات، کمالات،نعمتیں،خیرات اوررحمتیں خداوندمتعال کی علی الاطلاق ذات کی جانب  سےہیں ؛ اسی بنا پرفلسفۂ اسلامی  میں خداوندمتعال کے لیے ’’ما منہ الوجود‘‘،’’ما منہ الرحمۃ‘‘جیسی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ خداوندمتعال  کے علاوہ  کوئی استقلالی طور پرنعمت وجود اور رحمت عطا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے:’’كَتَبَ عَلى‏ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ‘‘۶ترجمہ: اس نے اپنی ذات پر رحمت لازم کر لی ہے۔
’’وَ إِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ‘‘۷ترجمہ:ہمارے ہاں تو ہر چیز کے بے شمار خزانے بھرے بڑے ہیں اور ہم اس میں سےایک معین مقدار بھیجتے رہتے ہیں۔
تمام فیوضات ،نعمیںہ ،خیرات اور نامتناہی عنایات کا مبدأ اور مخزن رحمت الہٰی ہے؛ ذاتی ، صفاتی ، افعالی  تجلی اور انکے آثار کا تعلق خواہ عالم علم سے ہو یا عالم عین سے، نظام ربانی سے متعلق ہوں یا نطام کیانی سے سب کی سب اس کی رحمت کی تجلی ہیں، اسی وجہ سے قرآن مجید میں تمام ملکی وملکوتی،دنیوی اور اخروی نامتناہی وجودی نعمات کوخداوندمتعال کی رحمانیت سے منسوب کیا گیا ہے:’’الرَّحْمنُ،عَلَّمَ الْقُرْآنَ،خَلَقَ الْإِنْسانَ،عَلَّمَهُ الْبَيانَ،الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ ۔۔۔الی ان قال۔۔۔ فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُما تُكَذِّبانِ‘‘۸ پس تمام وجودی نعمات واشیاء کے ظہور اور اظہار کا مبدأ اور منبع،مقام رحمانیت ہے وگرنہ رحمت الہٰی کے بغیراشیاء نہ علمی ظہور رکھتیں اور نہ ہی عینی و خارجی ظہور رکھتیں؛تمام مطالب سے واضح ہوگیا کہ تمام اسمائےالہٰیہ کی تجلی گاہ مقام رحمانیت ہے۔ ’’الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى‘‘۹ ترجمہ:رحمن ہے جو عرش پر حکمرانی کے لیے آمادہ و مستعد ہے۔
وجود کی دونوں نزولی اور صعودی قوسین رحمت الہٰیہ کے ماتحت ہیں یعنی قوس نزول رحمت رحمانیہ اور قوس صعود  رحمت رحیمیہ کے تحت ہےاسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ واسطۂ فیض اور’’مابہ الوجود‘‘  میں فاعل ،حقیقت محمدیہؐ ہے۔
دوسرا اہم نکتہ:
اگر سوال کیا جائے کہ خداوندمتعال اور ممکنات کے بیچ واسطہ اور وسیلۂ  فیض  کیا ہے؟تو جواب میں حقیقت محمدیہؐ ہی کی طرف اشارہ ملے گا جو صادر اول ہے۔ خداوندمتعال کے تمام وجودی فیوضات،عقلی اور نقلی اعتبار سے حقیقت محمدیہ ؐہی کی بدولت ہیں اسی لیے انھیں فلسفی اعتبار سے’’ فاعل ما بہ الوجود‘‘ کہا جاتا ہے۔یعنی حقیقت محمدیہؐ نزولی اور صعودی دونوں میدانوں میں خداوندمتعال کی رحمت اور فیض کا وسیلہ ہے چونکہ آپؐ  قوس نزول  میں صادر اول اور قوس صعود میں خاتم ہیں:’’بِكُمْ فَتَحَ اللَّهُ وَ بِكُمْ يَخْتِمُ اللَّہ‘‘۱۰خداوندمتعال نےنظام ہستی کی ابتداء آپؐ ہی سے فرمائی ہے اور آپؐ ہی پر اس کا اختتام ہوگا۔
اس نورانی کلام میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے’’مابہ الوجود‘‘ہونے کے علاوہ  نظام ایجاد و خلقت میں علت غائی ہونے پر بھی دلیل و برہان ہے جس طرح معروف حدیث میں اس طرح سے بیان ہوا ہے:’’لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاك‘‘۱۱ اگر آپ نہ ہونے تو میں نظام ہستی کو خلق نہ کرتا۔
احادیث میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صادر اول ہونے سے متعلق  متعدد تعابیر ملتی ہیں جیسے:
’’أَوَلُّ مَا خَلَقَ اللَّهُ رُوحِي‘‘۱۲
’’أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُورِي‘‘۱۳
’’أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَم‏‘‘۱۴
صادر اول  اور ’’مابہ الوجود‘‘ کو قلم سے تعبیر کیا گیا ہے اس تعبیر کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت  وجودمحمدیؐ نورانی صورت میں جب کاتب ازلی کے ید قدرت میں آئی تو واسطۂ فیض اور کتاب ہستی کی نگارش کا وسیلہ قرار پائی۔ قلم نگارش اور لکھائی کا وسیلہ ہوتا ہے نورانی ہویا  مادی۔
 دوسری فصل
صلوات میں پیغمبر اکرم ؐ کے ساتھ اہلبیت کا شامل ہونا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہونے والی بہت سی روایات میں خود آنحضرتؐ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کے درود شریف میں آپؐ کے ساتھ آپ کے اہلبیت علیہم السلام بھی شامل ہیں اور اگر انھیں شامل کیے بغیر آپؐ پر درود بھیجا جائے تو یہ ناقص اور ابتر ہوگا جسے آپؐ شرف قبولیت نہیں بخشیں گے۔یہاں دو سوال ابھرتے ہیں:
۱۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت  سے کون مراد ہے؟
۲۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل  سے کیا مراد ہے؟

عرفانی نقطۂ نظر سے  بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی ایسا گھر جس میں نبوت ،ولایت اور وحی ہو اور اہلبیت علیہم السلام سے مرادپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندانی افراد مراد نہیں بلکہ اہلبیت سےمرادنبوت، ولایت،علم وحکمت کا خاندان مراد ہے۔چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی گھر اور حقیقی بُعد آنحضرت کا علمی بُعد ہے اسی لیے خودآپؐ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا‘‘۱۵
’’أنا مدينة الحكمة و علي بابها‘‘۱۶
’’أَنَا مَدِينَةُ الْجَنَّةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا‘‘۱۷
’’أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا‘‘۱۸
’’أنا دار العلم و علي بابها‘‘۱۹
بدیہی امر ہے کہ آنحضرتؐ کے ظاہری مسکن اور صوری گھر پر بیت النبی کا اطلاق’’اضافہ تشریفیہ‘‘کی وجہ سے ہے اور اسی طرح  خانۂ کعبہ پر بیت اللہ کا اطلاق ہوتا ہے وگرنہ حضرت حق متعال جو لا مکان ذات ہے اسے مکان کی بھلا کیا ضرورت ،اس کی ذات مکان سے منزہ ہے۔آنحضرت ؐ اپنے اس حقیقی مسکن کی طرف اس طرح  اشارہ فرماتے ہیں:’’أَبِيتُ عِنْدَ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَ يَسْقِينِي‘‘۲۰ اس طرح سدرۃ المنتہیٰ کاعالی ترین مرتبہ،عالم جبروت اعلیٰ،عالم لاھوت،مقام قاب قوسین او ادنیٰ یہ سب تعبیرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحقیقی بیت کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں۔پس اس صوری،ظاہری اور فانی دنیا میں مٹی اور گارے سے بنا ہوا آنحضرتؐ کا گھر جونہایت فضیلت و اہمیت رکھتا ہے لیکن آنحضرتؐ کا حقیقی گھر نہیں ہےاور آپ کی عنصری اور ظاہری شان بھی اس عنصری بیت سے بلند ہےحتی آنحضرت کے خلقی و جسمانی پہلو میں بھی آنحضرت کی حقیقی موقعیت عرش اعلیٰ ہے لہٰذا عرفا کہتے ہیں:’’انّ الکون لا یسع انساناً کاملاً‘‘ کائنات انسان کامل کو اپنے اندرنہیں سمو سکتی۔
اس مقدمہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آنحضرت کے حقیقی اہلبیت بھی وہی ہیں جو آپؐ کے ساتھ آپؐ  کے اس حقیقی بیت میں سُکنی پذیر ہو ں اور آنحضرتؐ کے اُس ملکوتی پہلو سے سنخیت و مناسبت رکھتے ہوں  جن کاآنحضرتؐ سے معنوی اتحاد ہو اورآنحضرتؐ کے ساتھ اس سدرۃ المنتہیٰ،عالم لاھوت اور جنت الذات میں مسکن اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ آنحضرتؐ کے اہلبیت ہیں اور  آیۂ شریفہ میں بھی اہلبیت سے مراد ایسی ہی ہستیاں ہیں۔’’إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً‘‘۲۱

آل نبی کے بارے میں عرفانی تحقیق
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور ان کے اہل بیت ؑچند جہات سے  عصمت کبری کی مالکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے تعلق رکھنے والے آئمہ طاہرین علیہم السلام کے ساتھ اختصاص رکھتےہیں:
اول:روایات کی روشنی میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوران کے جانشین حضرات معصومین علیہم السلام کی طینت ایک ہے جس کا تعلق اعلیٰ علیین سے ہے۔ سب ایک نور سے ہیں اور تمام موجودات پر (سرمدی،دہری،شرفی،رتبی)تقدم رکھتے ہیں؛ عقلی اور نقلی اعتبارسے یہی صادر اول  ہیں۔لہٰذااپنے نورانی بیانات میں ارشاد کرتے ہیں:’’أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ أَرْوَاحَنَا‘‘۲۲ خداوندمتعال نے  سب سے پہلے ہماری ارواح کو خلق کیا
دوم:یہی ہستیاں  خداوندمتعال کی کمالیہ صفات  اور اس کے تمام جمالیہ اور جلالیہ اسمائے حسنیٰ کے  بالفعل مظہر تام  ہیں اسی لیے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’نَحْنُ وَ اللَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى الَّتِي لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنَ الْعِبَادِ عَمَلًا إِلَّا بِمَعْرِفَتِنَا‘‘۲۳ خدا کی قسم! ہم ہی وہ اسمائے حسنیٰ ہیں جن کی معرفت کے بغیر خداوندمتعال کوئی بھی عمل  اپنے بندوں سے قبول نہیں کرتا۔
ایک اورمقام پر ارشاد فرماتے ہیں:’’بِنَا عُبِدَ اللَّهُ‘‘۲۴(یعنی بمظھریتنا لجمع أسمائہ وصفاتہ عرف اللہ و عبداللہ)ہمارے   ہی ذریعہ  خداوندمتعال کی عبادت( مکمل) ہوتی ہے۔(چونکہ یہ ہستیاں خداوندمتعال کے تمام اسماء اور صفات کی مظہر ہیں لہٰذا خداوندمتعال کی معرفت اور عبادت انہیں کی بدولت ہوتی ہے)۔
سوئم:ان ہستیوں کا شہودی علم ،عالم لاھوت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔حضرت حق متعال کے اسماء اور اسکی صفات کے عالم ہونے کا لازمہ حقائق الہیہ پر شہودی معرفت رکھنا ہے۔
اسی لیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’وَ اللَّهِ يَا جَابِرُ لَقَدْ أَعْطَانِيَ اللَّهُ عِلْمَ مَا كَانَ وَ مَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔۔۔‘‘۲۵ اے جابر!خدا کی قسم  خداوندمتعال نے ہمیں قیامت تک کے لیے ماکان و مایکون کا علم عطا کردیا ہے۔
یہ ہستیاں جبروت،ملکوت،ناسوت جیسے عوالم کی معرفت رکھتی ہیں ان عوالم کے  احکامات سے واقف ہیں اور ان تینوں عوالم (دنیا،برزخ،اور عالم آخرت)کے آثارسے بھی مکمل واقفیت رکھتی ہیں۔
چہارم:ان ہستیوں کی طہارت قرآن مجید میں صراحت سے بیان ہوئی ہے:’’إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً‘‘۲۶اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں حضرات معصومین علیہم السلام ہر قسم کے رجس اور پستی سے پاک و منزہ ہیں یعنی خطاءو نسیان ان ہستیوں کے قریب بھی نہیں آسکتا یہ ہستیاں اپنے نورانی وجود میں ہمیشہ عقل کی حکمرانی کی وجہ سے قوہ غضبیہ اور شہویہ پر مسلط رہتی ہیں۔ان ہستیوں کا تینوں عوالم پر شہودی احاطہ انھیں ہوائے نفس کے تصور سے بھی منزہ رکھتا ہے اور اس کے علاوہ خود حضرت حق متعال کی مشیت بھی یہی ہے کہ یہ ہستیاں پاک و طاہر رہیں لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: ’’وَ ما تَشاؤُنَ إِلاَّ أَنْ يَشاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليماً حَكيماً‘‘۲۷ ترجمہ:یہ تمام برہانی دلائل ہر پاک طینت پر واضح و روشن ہیں۔
تیسری فصل
صلوات کے واجب اور لازمی ہونے کے اسرار
پہلا راز:حضرات محمد و آل محمؐد رحمت واسعۂ الہٰی کے مظہر
حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام خداوندمتعال کی رحمت واسعۂ  کے مظہر ہیں اور ہمارا ان پر صلوات بھیجنا درحقیقت ان سے اپنے لیے رحمت کو طلب کرنا ہے؛خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ‘‘۲۸  اس آیۃٔ کریمہ کی روشنی میں حضرت خاتم الانبیاء کا وجود اطہر تمام عالمین کے لیے رحمت ہے اور عالمین میں اس کی اس رحمت واسعہ سے فیض پانے والے عوالم میں جبروتی،ملکوتی،ناسوتی،عینی،شہودی سب شامل ہیں اور اگر اس طرح کہا جائے کہ’’من سبق و من لحق‘‘تمام گذشتہ اور آئندہ سب حضرت کی رحمت کے دسترخوان سے مستفید ہورہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا چونکہ آنحضرتؐ ہی صادر اول،ما بہ الوجود کا فاعل اور واسطۂ فیض اور رحمت ہیں۔اس نورانی بُعد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت سید الانبیاء پر درود و صلوات کا بھیجنا در حقیقت رحمت الہٰی کی تمام عوالم اور موجودات پر تجلی کا باعث ہوگا۔پس رحمت واسعۂ الہٰی کی  مظہریت کی جہت سے حضرت پر درود و صلوات بھیجنا واجب ہے۔
دوسرا راز:فاعل اور قابل میں مناسبت کا ہونا ضروری
فاعل اور قابل میں افادہ،استفادہ اور فیوضات و کمالات کے وجود اخذ کرنے میں مناسبت اور سنخیت کا ہونا ضروری ہے اور بدیہی امر ہے  کہ حضرت حق متعال کی ذات جو صِرف الوجود ، مبدأ اعلیٰ اور تجرد کی اعلی منزلت پر ہےتو دوسری جانب خلق جو  تنزل، ظلمات کی پستی میں غرق،مادیات میں غوطہ ور اور ہیولانی و طبیعی محدودیتوں کی حامل ہے ان دونوں میں کسی قسم کی مناسبت نہیں پائی جاتی۔پس ان دونوں میں رابطہ اور واسطہ کی ضرورت ہے جو دونوں بُعد کی حامل ہو  یعنی لاھوتی اور ناسوتی دونوں پہلوؤں سے مزین ہو اور اپنے لاھوتی پہلو سے وہ مبدأ اعلیٰ سے فیض کسب کرے اور ناسوتی پہلو سے مادون سفلی عوالم کو وہ فیوضات منتقل کرے۔
حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک ذات ہی وہ رابط ہیں جو مقام احدیت کبری کے مظہر اور مقام قاب قوسین او ادنی کے مالک ہیں آپ ہی واجب اور ممکن کے درمیان برزخ اور خالق و مخلوق میں  واسطۂ فیض کا کردار ادا کررہے ہیں اور اپنے لاہوتی پہلو کی وجہ سے مبادی عالیہ کے ساتھ نورانی سنخیت و مناستے رکھتے ہیں اور اپنے ناسوتی پہلو کی جہت سے خلقی عوالم سے بھی مناسبت اور سنخیت رکھتے ہیں۔
صلوات کے ذریعہ آنحضرتؐ سے متوسل ہونا یعنی  ان حضرات پردرود و صلوات بھیجنا ،در واقع  ان ہستیوں کےاس لاہوتی پہلو سے رحمت اور استمداد طلب کرنا ہے تاکہ ان ہستیوں  کے اس پہلو کے ذریعہ اس منبع  فیض سے متصل ہواجاسکے اس عقلی برہان کی روشنی میں درود و صلوات بھیجنا نہ صرف ضروری بلکہ واجب ہوگا۔
تیسرا راز:اسم اعظم کا مظہر ہونا
اہل معرفت و بصیرت نے برہان سے اس مطلب کو درک کیا ہے کہ خداوند متعال مبدأ اعلی ٰمقام احدیث کے اعتبار سے اطلاقِ ذاتی کا مالک ہے جس کا اپنی مخلوقات کے عوالم سے کوئی رابطہ نہیں بلکہ اسکا موجودات و مخلوقات سے رابطہ اسماء اور صفات کی جہت سے ہے اورحقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسم اعظم الہٰی کی مظہر ہے، اسم اعظم کا باقی اسماء و مظاہر پر مؤثر ہونا ایسا مسلم بُعد ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ پس صلوات کے ذریعہ سے حضرت خمتی مرتبت سے توسل کرنا انکی عنایات  کو طلب کرنا ہے جو عقلی و نقلی لحاظ سے واجب اور ضروری ہے تاکہ اسم اعظم کی مظہر ذات کا فیض اور رحمت تمام موجودات پر منعکس ہوسکے۔
چوتھا راز:ناقص کا کامل سے اتصال
اہل معرفت  و ارباب حکمت کی نظر میں موجود خارجی کو ہستی کی جہت سے فوق التمام، تام، مستکفی اورناقص  میں تقسیم کیا گیا ہے۔
۱۔ فوق التمام وجود: کا مصداق خداوندمتعال میں منحصر ہے جو بالاصالت و بالذات تمام فعلی کمالات کامالک ہے وہ ہر فعلیت کا مبدا اور’’ما منہ الوجود‘‘کا فاعل ہے ہر کامل وجمیل کا حسن و جمال اسی کے کمال اور جمال کا سایہ ہے۔
۲۔ تام وجود: ایسا موجود جس میں ابتداء ِوجود ہی سے تمام کمالات بالفعل موجود ہوں؛لیکن امکان ذاتی ،فقر وجودی اور تعلق غیر جیسے اوصاف سے مبرا نہ ہو جیسے حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوعقول کلیہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے ہے۔
۳۔ مستکفی وجود:جس میں ابتداءِوجود میں یہ کمالات نہ ہوں بلکہ وہ قوت رکھتا ہو لیکن فعلاً ان کمالات سے فاقد اور حالت انتظار میں ہوجبکہ  باطنِ ذات اور علل طولی کی وجہ سے قوت سے فعلیت میں خارج ہو کراپنے کمال تک پہنچ جائے جیسے ارواح ۔
۴۔ ناقص وجود : جو قوت و فقدان سے مقرون ہو طولی موجودات سے  فیض اخذ کرے اور عرضی موجودات اور  اعدادی علل سے مستفید ہو جیسے عالم زمان و مکان کے موجودات جیسے کائنات عنصری کے اجسام و نفوس۔
فیض او ررحمت وجود فوق التمام یعنی واجب الوجود سے تمام موجودات متنزل پر افاضہ اور اشراق کرتےہے لہٰذا اخس اور انقص موجودات تک پہنچنے سے پہلے اسے تام اور مستکفی موجودات تک پہنچنا ضروری ہے پھر بعد میں اخس اور انقص مرتبہ کی طرف نازل ہوں گے وگرنہ سیر نزولی کے اس سلسلہ میں ’’طفرہ‘‘لازم آئے گا۔اور’’طفرہ‘‘نظام احسن و اتقن میں خواہ وہ حسیات ہوں یا عقلیات ،باطل اور محال ہے۔
پس نتیجہ یہ ہوگا کہ فیض و رحمت اشرف و اکمل سے اخس و انقص تک پہنچے چونکہ اشرف واکمل مبدأ اعلیٰ سے اقرب ہے ۔
’’اُوتیت جوامع الکلم‘‘۲۹اور’’ونحن الکلمات التامات‘‘
یعنی تام وجودی کلمات ، اسما و صفات الہٰی کے کامل مظہر اور اقرب الی  اللہ ہیں۔لہٰذا یہ  ہستیاں فیوضات رحمانیہ اور رحیمیہ الہٰیہ  کے انتقال میں وسائط ہیں۔
ان ہستیوں پرہماری صلوات  ہمیں ان موجودات تامہ سے متصل کردے گی ،ناقص کا کامل سے متصل ہوجانا اخس و انقص کا اشرف و اکمل سے متصل ہونا ناقصین کے نقص کے جبران کا باعث بنے گا لہٰذا اتم الوسائل سے افاضہ رحمت کے کسب میں مستحق قرار پائے گا۔
پانچواں راز:انسان کامل کی زبان مبارک کی قابلیت
دعا کی اجابت میں قابلیت شرط ہے۔’’انّ العطیات علی حسب القابلیّات‘‘زبانوں میں قابلیت کی جہت سے اتم او راکمل زبان انسانِ کامل حضرت ختمی مرتبت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک ہے۔
چونکہ امکان ذاتی اور استعدادی ذاتی کی جہت سے حضرت کی زبان مبارک اور حضرت کا جمع کمالی میں احدیث رکھنا مواہب الہٰی کی قبولیت کے لیے کافی اور وافی ہے جوعطیات ربانی اور رحمت رحمانی و رحیمی کے افاضات کو قبول کرے۔
تمام وجودی کمالات اور الہٰی الطافات آنرت تؐ کے لیے جو مظہر تام ہیں، بالفعل حاصل ہیں۔لہٰذا ہمیں خداوندمتعال سے جو بھی طلب کرنا ہو وہ آپؐ  کی لسان مبارک کے ذریعہ  طلب کیا جائے اور بدیہی ہے کہ صلوات ایسی دعا ہے جو بارگاہ رب العزت میں کبھی رد نہیں ہوگی بلکہ خود حضرت سے وصل ہو کر امت  اور تمام عوالم کی طرف پلٹےگی اسی وجہ سے  آپؐ کو رحمۃللعالمین کہا گیا ہے۔ اور آنحضرتؐ کی لسان میں دعا در واقع زبان الہٰی میں دعا ہے چونکہ خاتم الانبیاء فانی فی اللہ کے مقام پر فائز ہیں۔
چھٹا راز:منعم کا شکر واجب ہے لہٰذا صلوات پڑھنا شکر منعم کی جہت سے واجب ہے
شکر منعم کے واجب اور ضروری ہونے پر عقلی برہان قائم ہے راحم مطلق خداوند متعال کی ذات ہے جو وجود اور تمام وجودی کمالات عطا کرنے والا ہے تمام  ظاہری اور باطنی نعمات اسی کے الہٰی خزانوں سے صادر و جاری ہورہی ہیں۔ اس مُنعم اور راحم مطلق کا مظہر حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے چونکہ وہ صادر اول اور واسطہ فیض و رحمت ہیں، تمام ممکنات و مخلوقات کی ایجاد میں واسطہ فیض رحمۃ للعالمین ہی ہیں لہٰذا تمام نامتناہی امکانی عوالم میں فیض اور رحمت کے افاضہ اور اشراق کاوسیلہ وہی ہیں لہٰذا ان پر صلوات عقلی لحاظ سے واجب اور ضروری ہے چونکہ در حقیقت یہی شکر منعم کا راستہ ہے۔
ساتواں راز:روح اعظم ولایتی کے احاطۂ کی جہت سے اُن پر صلوات واجب ہے۔
خداوندمتعال  کی ذات اقدس تمام ما سوا کے لیے مبدأ اعلیٰ اور تمام اشیاء کے لیے محیط ہے  اس کا احاطہ تمام وجودی عوالم پر قیّومی وجودی اور ذاتی ہے۔ وہ تمام عوالم اور تمام موجودات کے ساتھ معیّت رکھتا ہے اور اسی مدعا پر قرآن مجید کی صریح نص بھی پائی جاتی ہے :’’وَ اللَّهُ مِنْ وَرائِهِمْ مُحيطٌ ‘‘۳۰ ترجمہ: اور خدا اُن کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔
 ’’وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ‘‘۳۱ ترجمہ:اور تم چاہے جہاں کہیں رہو وہ تمہارے ساتھ ہے
اسی طرح بدون تردید ولایت مطلقہ کلیہ اور خلافت کبرای الہٰیہ تمام عوالم،ارواح اور نفوس پر محیط ہے لہٰذازیارت جامعہ کبیرہ میں اسکی تائید ملتی ہے: ’’أنفسکم فی النفوس،و أرواحکم فی الأرواح و أجسادکم فی الاجساد‘‘۳۲
صلوات جو حضرت خاتم الانبیاء ؑاور انکی آل اطہار ؑسے طبد رحمت ہے تمام عوالم،تمام ارواح،نفوس،اجساد کو شامل ہے بلکہ خود اہل قبور کو بھی شامل ہے۔
آٹھواں راز:قانون بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء(تمام اشیاء کے حقیقت میں بسیط ہونے کا قانون)
اس قانون کے دو مسلم بُعد اور پہلو ہیں:۱۔اصلی ۲۔ظلی
اس قانون کااصلی مصداق خداوندمتعال کی ذات کل الکمال جو مبدأ اعلی ہے اور ظلی عنوان کا مصداق حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
پس  اس عقلی قانون و برہان کے مطابق صلوات آنحضرتؐ سے طلب رحمت ہے اور در واقع تمام اشیاء کے لیے طلب رحمت ہے چونکہ آنحضرتؐ  کا وجود تمام کائنات کے وجودی کمالات کو بطور اشرف،اعلیٰ پائے ہوئے ہے ،تمام اشیاء کی حقیقت ،فعلی کمالات  کی جہت سےحضرت’’ بسط الحقیقۃ‘‘ کے مظہر اور مقام جمعیت اطلاقیہ الہٰیہ کی تجلی گاہ ہیں لہٰذا حضرت کے فرمان میں: ’’اُوتیت جوامع الکلم‘‘۳۳سے مراد وجودی کلم  ہیں۔
 نواں راز:مقام ولایت کلیہ مطلقہ سے بیعت
حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اوصیاءصلوات اللہ علیہم اجمعین سب کے سب ولایت کلیہ مطلقہ کے مقام پر فائز ہیں اس مقام ولایت کلیہ مطلقہ کی بیعت کرنا ہر فرد مسلمان پر واجب ہے ۔ صلوات ایک قسم کی بیعت شمار ہوتی ہے اس بیعت کا نتیجہ اور حد اقل فائدہ معرفت، محبت اور اس مقام ولایت مطلقہ کلیہ کے ساتھ اتصال اور ارتباط کی صورت میں ظاہر ہونے کے علاوہ دنیا و آخرت میں سعادت کا باعث بنتا ہے۔ اور آخرت میں شفاعت کے لیے بھی مؤثر و مفید ہے چونکہ شفاعت اذن تکوینی الہٰی یعنی قوۂ ولایتی کے اِعمال اور اجراء سے متحقق ہوتی ہے اس شفاعت کے لیے شرط ہے کے‘‘ مشفوع لہ ’’کی روح کا شفیع کے ساتھ معنوی طور پر اتحاد ہو۔ اسی وجہ سےجو بے نصیب افراد ایمان، اعتقاد، توحید کے لحاظ سے اس ولایت مطلقہ کلیہ کے ساتھ معنوی اتحاد نہ رکھتے ہوں وہ شفاعت سے محروم رہ جائیں گے۔پس ان حضراتؑ پر درود و صلوات بھجنے کا اہم ترین فائدہ اس ولایتی ارتباط و اتصال کو برقرار رکھنا ہے۔
دسواں راز:صلوات کے ذریعہ دعاؤں کا آسمان وحی پر عروج
حضرات معصومین علیہم السلام کے گوہر بار خزانوں سے صادر ہونے والی بہت سی روایات میں تمام دعاؤں کی حضرت احدیت کی  بارگاہ میں عروج کے لیے  حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنا شرط قرار دیا گیا ہے اوروہ تمام  دعائیں جوان حضراتؑ پر درود بھیجے بغیر مانگی گئی ہوں وہ  واپس لوٹ آتی ہیں اور قبول نہیں ہوتیں۔
پس حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درودبھیجنا  دعاؤں کے  آسمانِ وحی پر عروج اور خالق و مخلوق کے درمیان حجاب کے چھٹ جانےکا باعث بنتا ہیں۔اسی بنا پرہر دعا میں حضرات محمدو آل محمد سے توسل اوران پر درود بھجنا ضروری ہے چونکہ حضرت حق متعال کا ارشاد ہے:’’وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ‘‘۳۴اور حدیث میں ہے :’’مَا مِنْ دُعَاءٍ إِلَّا وَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ السَّمَاءِ حِجَابٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ انْخَرَقَ ذَلِكَ الْحِجَابُ وَ دَخَلَ الدُّعَاءُ وَ إِذَا لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ رَجَعَ الدُّعَاءُ‘‘۳۵دعا اور آسمان کے درمیان حجاب ہیں لیکن جب محمد و آل محمدؐ  پر درود بھیجا جائے تو یہ حجاب چھٹ جاتے ہیں اور دعا آسمانوں میں داخل ہو جاتی ہے لیکن اگر درود نہ بھیجا جائے تو یہ دعا واپس لوٹا دی جاتی ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:’’لَا يَزَالُ الدُّعَاءُ مَحْجُوباً حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍؐ‘‘۳۶ دعا اس وقت تک حجابوں سے نہیں گذرتی جب تک کہ محمد و آل محمد ؐکے درود کے ساتھ مزین نہ ہو۔
مزید فرماتے ہیں:’’كُلُّ دُعَاءٍ يُدْعَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِ مَحْجُوبٌ عَنِ السَّمَاءِ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍؐ‘‘۳۷خداوندمتعال کے حضور مانگی جانے والی ہر دعا اور آسمان کے درمیان حجاب ہوتا ہے جو محمد و آل محمد ؐپر درود بھیجنے سے چھٹ جاتا ہے۔
 چوتھی فصل
صلوات کی فضیلت میں واردہونے والی روایات
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہلبیت علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سے متعلق فریقین کے روائی منابع میں بےشمار روایات ملتی ہیں جنہیں مختصر سی جستجو کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے ہم اس مقام پر اُن روایات میں  سے وہ روایات ذکر کرتے ہیں جوصلوات کے بشری زندگی پر مرتب ہونے والے آثار کوبیان کرتی ہیں ۔اور تبرکاً چنددیگر روایات کو بھی نقل کریں گے:
۱۔حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سے دعا قبول ہوتی ہے۔
۲۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےخداومتعال کی خشنودی حاصل ہوتی ہے۔
۳۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےگناہ معاف ہوتے ہیں۔
۴۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےگناہ محو ہوجاتے ہیں۔
۵۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےموت کے مراحل میں آسانی ہوتی ہے۔
۶۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےدنیاوی عذاب سے امان ملتی ہے۔
۷۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےاخروی عذاب سے امان ملتی ہے۔
۸۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےقیامت کے دن نامۂ اعمال حسنات سے بھاری ہوجاتا ہے۔
۹۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےآخرت کا راستہ نورانی ہوجاتا ہے۔
۱۰۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےدوزخ سے نجات ملتی ہے۔
۱۱۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجناسےجنت میں دخول کا باعث بنتاہے۔
۱۲۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سےقیامت کے دن ہر قسم کی ہولناکیوں سے نجات ملتی ہے۔
۱۳۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام ان ہستیوں کی شفاعت کا باعث بنتا ہے۔
۱۴۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سے انسان قیامت کےدن ان ہی ہستیوں کے ساتھ محشور ہوگا۔
۱۵۔ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے سے نفاق ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
’’عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع)قَالَ قَالَ إِذَا ذُكِرَ النَّبِيُّ(ص)فَأَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ(ص) صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ أَلْفَ صَلَاةٍ فِي أَلْفِ صَفٍّ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَ لَمْ يَبْقَ شَيْ‏ءٌ مِمَّا خَلَقَهُ اللَّهُ إِلَّا صَلَّى عَلَى الْعَبْدِ لِصَلَاةِ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ صَلَاةِ مَلَائِكَتِهِ فَمَنْ لَمْ يَرْغَبْ فِي هَذَا فَهُوَ جَاهِلٌ مَغْرُورٌ قَدْ بَرِئَ اللَّهُ مِنْهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِهِ‘‘۳۸
جب بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام گرامی لیا جائے تو آنحضرت ؐپر زیادہ درود بھیجا کرو،کیونکہ جو بھی آپؐ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گاتو خداوندمتعال ہزار مرتبہ ملائکہ کی ہزار صفوں کے ساتھ اس بندہ پر درود بھیجے گا اور خداوندمتعال کے اس عمل کی پیروری کرتے ہوئےاس کی تمام مخلوقات اس بندہ  پر درود بھیجیں گی۔اور جو درود کی فضیلت اور اس کے ثواب کی طرف توجہ نہ کرے وہ تو ایساجاہل اور مغرور ہے جس سے خداوندمتعال ،رسول خدا اور اہلبیت بیزار ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک دوسری روایت میں اسحاق ابن فروخ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں:
’’مَنْ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ عَشْراً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَلَائِكَتُهُ مِائَةَ مَرَّةٍ وَ مَنْ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ مِائَةَ مَرَّةٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَلَائِكَتُهُ أَلْفاً أَ مَا تَسْمَعُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَ مَلائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ كانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيما)‘‘۳۹
جو محمد وآل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دس مرتبہ درود بھیجے اللہ اور اس کے ملائکہ اس شخص پر سو مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور جو بھی حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام پر سو مرتبہ درود و سلام بھیجے تو خداوندمتعال اور اس کے ملائکہ اس شخص پر ہزار مرتبہ درود و سلام بھیجتے ہیں کیا تم نے خداوندمتعال کا فرمان نہیں سنا:خداوندمتعال اور اس کے ملائکہ تم پر درود بھیجتے ہیں تاکہ تمہیں ظلمات سے نور کی طرف ہدایت کریں
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں؛کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا:’’ارْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ بِالنِّفَاقِ‘‘۴۰ بلند آواز سے میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے نفاق ختم ہوجاتا ہے۔

منابع و مآخذ
۱۔قرآن مجید
۲۔علامہ مجلسى، بحارالأنوار،۱۱۰جلد،مؤسسۃ الوفاء بيروت - لبنان،۱۴۰۴ہجرى قمرى‏
۳۔حسن بن ابى الحسن ديلمى، إرشاد القلوب، دو جلد در يك مجلد، انتشارات شريف رضى،۱۴۱۲ہجرى قمرى‏
۴۔ثقۃ الاسلام كلينى،الكافی،۸جلد،دار الكتب الإسلاميۃ تر۰ان،۱۳۶۵ہجرى شمسى‏
۵۔شيخ حر عاملى، وسائل الشيعۃ، ۲۹جلد،مؤسسہ آل البيت عليہم‏السلام قم،۱۴۰۹ہجرى قمرى‏
۶۔حاكم حسكانى، شواہد التنزيل،۲ جلد، مؤسسہ چاپ و نشر،۱۴۱۱ہجرى قمرى‏ ۷۔ حاج شيخ عباس قمى،مفاتيح الجنان‏

حوالہ جات
۱۔ سورۂ نحل، آیت نمبر ۱۲۵
۲۔ سورۂ احزاب، آیت نمبر ۵۶
۳۔إرشادالقلوب،ج۱،ص۱۲
۴۔سورۂ احزاب،آیت نمبر ۵۶
۵۔ سورۂ مدثر،آیت نمبر ۳۱ (اور تمہارے پروردگار کر لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔)
۶۔ سورۂ انعام ،آیت نمبر ۱۲
۷۔ سورۂ حجر،آیت نمبر ۲۱
۸۔ سورۂ رحمن ، آیات۱سے ۱۳ تک (بڑا مہربان(خدا)اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی،اسی نے انسان کو پیدا کیا،اسی نے اس کو اپنا مطلب بیان کرنا سیکھایا۔۔۔۔)
۹۔ سورۂ طہ ،آیت نمبر ۵
۱۰۔ بحارالأنوار،ج۹۸،ص۱۵۳
۱۱۔ بحارالأنوار،ج۱۶،ص۴۰۵
۱۲۔ بحارالأنوار،ج۵۴،ص۳۰۶
۱۳۔ بحارالأنوار،ج۱،ص۹۷
۱۴۔ بحارالأنوار،ج۵۴،ص۳۱۳
۱۵۔ وسائل‏ الشيعہ،ج۲۷،ص۳۴
۱۶۔ بحارالأنوار،ج۲۵،ص۲۳۵
۱۷۔ بحارالأنوار،ج۴۰،ص۲۰۷
۱۸۔ بحارالأنوار،ج۴۰،ص۲۰۳
۱۹۔ شواہدالتنزيل،ج۱،ص۱۰۶
۲۰۔۲۰۔ بحارالأنوار، ج۶، ص۲۰۸
۲۱۔ سورۂ احزاب،آیت نمبر ۳۳ (اے پیغمبر کے اہلبیت!خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے)۔
۲۲۔ بحارالأنوار،ج۲۶،ص۳۳۵
۲۳۔ الكافی،ج۱،ص۱۴۳
۲۴۔ بحارالأنوار،ج۲۳،ص۱۰۲
۲۵۔ بحارالأنوار،ج۴۶،ص۲۹۶
۲۶۔ سورۂ احزاب،آیت نمبر ۳۳
۲۷۔ سورۂ دہر،آیت نمبر۳۰ (اور جب تک خدا کو منظور نہ ہو تم لوگ کچھ بھی چاہ نہیں سکتے)۔
۲۸۔ سورۂ انبیاء،آیت نمبر ۱۰۷ (اے رسول!ہم نے تو تم کو عالمین کے لیےرحمت بنا کر بھیجا ہے)۔
۲۹۔ إرشادالقلوب،ج۱،ص۱۲
۳۰۔ سورۂ بروج،آیت نمبر ۲۰
۳۱۔ سورۂ حدید،آیت نمبر ۴
۳۲۔مفاتیح،زیارت جامعہ کبیرہ
۳۳۔إرشادالقلوب،ج۱،ص۱۲
۳۴۔ سورۂ مائدہ،آیت نمبر ۳۵ ( اور اُس کے تقرب کے ذریعہ کی جستجو میں رہو ۔۔۔)
۳۵۔ بحارالأنوار،ج۲۷،ص۲۵۸
۳۶۔ الكافی، ج۲، ص۴۹۱
۳۷۔ الكافی،ج۲،ص۴۹۳
۳۸۔ الكافی،ج۲ص۴۹۲
۳۹۔ الكافی،ج۲،ص۴۹۳
۴۰۔ وسائل ‏الشيعہ،ج۷،ص۱۹۲

 

مآخذ: دانشگاہ معارف اہلبيت

Add new comment