ماه مبارک رمضان میں رونما ہونے والے تاریخی واقعات
اول رمضان امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدى
شیخ محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) نے اپنی کتاب «مسار الشیعہ» میں تحریر فرمایا ہے کہ رمضان کی پہلی تاریخ کو حضرت امام رضا علیہ السلام نے ولی عہد کی طور پر بیعت لی؛ گو کہ یہ عمل در حقیقت مأمون عباسی کی طرف سے ایک سیاسی منصوبے کا حصہ تھا تا کہ وہ اس طرح اندرونی تحریکوں کو خاموش کردے اور شیعیان محمد و آل محمد (ص) کی جانب سے کسی بھی انقلاب کا سدباب کرسکے. مأمون کی خلافت کے آغاز میں ایران کے شیعیان اہل بیت (ع) اہل بیت (ع) کے حوالے مأمون کے جھوٹے وعدوں کا یقین کرکے اس کو تخت خلافت پر بٹھانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اور امام رضا علیہ السلام کو ولیعہد بنا کر وہاں کو بھی خاموش کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا. مأمون نے امام (ع) کو ولایتعہدی کا عہدہ سونپ کر اہل تشیع کی جانب سے اپنے اندیشے دور کرنے اور ان کا خوف ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا. (1)
مسجد نبی (ص) میں آگ
سنی مؤرخ سمہودی نے لکھا ہے کہ اول رمضان سنہ 654 ہجری کو مسجد النبى صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کے حجرات مقدسہ میں آگ بھڑک اٹھی اور آگ اتنی حدتک پھیل گئی کہ چھت اور دیواروں کا احاطہ کرگئی اور مسجد کی چھت اور دیواریں گرگئیں. یہ دور معتصم عباسی کا دور تھا اور اس کے حکم پر مسجد کی تعمیر نو کی گئی. (2)
3 رمضان المبارک - غزوہ تبوک
غزوہ تبوک مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان نہایت اہم اور حساس لڑائی کا نام ہے جو سنہ 9 ہجری کو لڑی گئی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان صلح ہوئی. یہ جنگ 3 رمضان المبارک کو واقع ہوئی اور اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ جاسوسوں نے رومی بادشاہ ہراقلیوس یا ہرقل کو خبر دی کہ پیغمبر اسلام (ص) دنیا سے چلے گئے ہیں. ہرقل نے فوجی شوری کا اجلاس بلایا اور اجلاس کے تمام شرکاء نے یک زبان ہوکر حجاز پر لشکر کشی کے لئے یہ موقع مناسب قرار دیا. لشکر تیار ہوا اور «یوحنا» یا «باغباد» نامی شخص کی سرکردگی میں لشکر روم نے حجاز کی طرف عزیمت کی. رومی لشکر حجاز اور شام کے درمیان واقع تبوک کے مقام پر لشکر اسلام کے مدمقابل قرار پایا. مسلمانوں کا لشکر تبوک کے مقام پر ایک چشمے کے قریب تعینات ہوا... اس جنگ کو «فاضحہ= رسوا کرنے والی جنگ» کا نام بھی دیا گیا ہے کیونکہ منافقین نے اس جنگ میں شرکت کرنے سے احتراز کیا اور وہ سب رسوا ہوئے. اس جنگ کو «ذوالعسرہ» بھی کہا گیا ہے کیوں کہ مسلمانوں کو اشیاء خورد و نوش، سواریوں اور ہتھیاروں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. (3)
بارہ رمضان - اسلام میں مواخاة و برادری کی حدیث
12 رمضان کو پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا صیغہ جاری کیا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا. آپ نے اس عقد اخوت کے ذریعے اسلام میں اخوت و برادری اور مساوات و مواسات کی بنیاد رکھی؛ دنیا میں رہنے والوں کو ایک خاندان اور افراد بشر کو اس کنبے کے افراد قرار دیا؛ اور نسل پرستی، مادی اور قبائلی امتیاز، رنگ و فام کی بنیاد پر جھوٹی فضیلتوں کو اسلام کے مقدس چہرے سے دہو ڈالا اور آج عالم استعمار و استکبار کی جانب سے اسلام کے اس اصول پر عملدرآمد کے راستے بند کئے گئے ہیں اور روئے زمین پر جھوٹے امتیازات کا دور دورہ ہے.
«ان هذه امتکم امة واحدة و انا ربکم فاعبدون (4) = تمہارا یہ دین اور تمہاری یہ امت بے مثل دین اور بے مثل امت ہے (جومیری تمام دینوں کے درمیان مشترک ہے) اور میں تمہارا پروردگار ہوں پس میری ہی بندگی کرتے رہو».
«قل یا ایها الناس انى رسول الله الیکم جمیعا (5) = کہہ دو: اے لوگو! میں خدا کی طرف سے تم سب کے لئے بھیجا گیا پیغمبر ہوں». مگر یہ براہین و دلائل و بینات آج کے سامراجیوں اور صہیونیوں کے لئے خوشایند نہیں ہیں جیسا کہ عصر اول کے عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے خوشایند نہ تھے؛ کیونکہ جب برابری اور مساوات ہوگی صہیونی اور سامراجی اپنی برتری قائم نہ رکھ سکیں گے اور لوگوں کا استحصال نہ کرسکیں گے اور انسانوں کو بیوقوف بنا کر ان کےے وسائل پر قبضہ نہ کرسکیں گے اور خدا کے بندوں کو اپنی بندگی کی رسی میں نہ جکڑ سکیں گے.
17 یا 19 رمضان - غزوہ بدر
17 یا 19 رمضان سنہ 2 ہجری کو غزوہ بدر واقع ہوئے. (6) یہ جنگ کفار و مشرکین کے ساتھ لشکر اسلام کی اولین جنگ تھی اور اہل توحید و اہل شرک پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ جنگ کی غرض سے ایک دوسری کی مدمقابل کھڑے تھے. اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جبکہ کفار کی تعداد تین گنا زیادہ تھی اور ان کے پاس گھوڑے بھی زیادہ تھے اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے؛ اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ملائکہ کی فوج بھیج کر نصرت فرمائی. ارشاد باری ہے:
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُنزَلِينَ(آل عمران 123- 124)
خداوند متعال نے بدر میں تمہاری مدد کی (اور خطرناک دشمنوں پر تمہیں فتح عطا کی) جبکہ تم ان کے مقابلے میں کمزور تھے. پس خدا سے ڈرو (اور دشمن کے مقابلے میں پیغمبر اکرم (ص) کی نافرمانی سے پرہیز کرو)، تاکہ خدا کی نعمتوں کا شکر بجا لاسکو! – اے میرے حبیب! جب تم نے مؤمنین سے خطاب کرکے فرمایا: «کیا تمہارے لئے یہی کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار نے تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کررہا ہے؟!»
اِِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ - وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (انفال 9 و 10)
(اس وقت کو یاد کرو) جب (میدان بدر میں تشویش اور پریشانی کی شدت سے) تم خدا کی مدد کی التجا کررہے تھے اور خدا نے تمہاری التجا قبول کی اور میں نے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ایک ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد کی؛ - لیکن خدا نے یہ سب تمہارے لئے خوشخبری اور تمہارے سکون و اطمینان کے لئے کیا ورنہ فتح اور کامیابی خدا کے سوا کسی اور جانب سے نہیں آتی اور خداوند متعال نہایت عزت و حکمت والا ہے!
20 رمضان - فتح مکہ
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (7) بتحقیق ہم نے تمہارے لئے واضح و آشکار فتح فراہم کردے
سنہ 8 ہجری فتح مکہ کا سال ہے اور یہ وہی فتح ہے جس کی خوشخبری صلح حدیبیہ کے بعد مذکورہ بالا آیت شریفہ کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی گئی تھی.
معتبر کتب کے مطابق فتح مکہ کا عظیم واقعہ 20 رمضان سنہ 8 ہجری کو رونما ہوا. (8)
سنہ آٹھ ہجری تک اسلام کو عظیم فتوحات ملی تھیں مگر جزیرہ نمائے عرب کا مرکز یعنی مکہ معظمہ اور سب کی عبادتگاہ اور کعبہ معظمہ، قبلہ اسلام و مسلمین، ابھی تک مشرک بت پرستوں کے قبضے میں تھا اور وہاں اخلاقی گراوٹوں اور زوال انسانیت اور انسانوں کے استحصال اور بندگان خدا کو بندہ انسان بنائے جانے جیسے رجحانات عروج پر تھے؛ کعبہ و بیت اللہ میں 360 بت نصب تھے اور قریش ان کی پوجا کررہے تھے اور دوسروں کو بھی بتوں کی پوجا کرنے پر آمادہ کررہے تھے. فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ شریف کے ساتھ ہی اپنی سواری سے اترے اور بت شکنی کا آغاز کیا. سب سے بڑا بت «ہبَل» تھا. رسول اللہ کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور چھڑی سے بتوں کی طرف اشارہ کررہے تھے اور کمان کے سرے سے بتوں کی آنکھوں کو نوازتے اور اس آیت کی تلاوت فرمارہے تھے: «قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا» (9) اے میرے نبی کہہ دو حق آگیا اور باطل نیست و نابود ہوگیا اور بے شک باطل نیست و نابود ہونے والا ہے. رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے على علیہ السلام سے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور کنکریاں اس آیت کی تلاوت کرکے بتوں کی طرف پھینکیں جس کے نتیجے میں بت سارے سرنگون ہوئے اور اس کے بعد بتوں کو مسجد سے باہر نکال کر توڑا گیا.
رمضان اور فتح اندلس
ماہ مبارک رمضان سنہ 92 ہجری کو لشکر مسلمین نے طارق بن زیاد کی سرکردگی میں اندلس کو فتح کیا اور خداوند متعال نے مسلمانوں کو دریائے «لکھ» کے ساحل پر واقع «ملک لذریق» میں فتح و نصرت عطا کی. (10)
عرب مسلمیں اور شمالی افریقہ کے بہادر بربر قبائل نی سنہ 92 میں طارق بن زیاد کی سرکردگی میں اندلس کی طرف عزیمت کی. طارق بن زیاد افریقہ کے فرمانروا موسی بن نضیر کے ایک سپہ سالار تھے اور خود شمالی افریقہ کی قوم بربر سے تعلق رکھتے تھے. طارق بن زیاد نے بارہ ہزار کا لشکر لے کر مراکش اور ہسپانیا کے درمیان واقع آبنائے (جبل الطارق) سے گذر کر مختصر سے عرصے میں آج کے پرتگال پر بھی مشتمل اسپین کو فتح کیا. ڈاکٹر گوستاولوبون لکھتے ہیں کہ یہ فتوحات بہت تیزی سے انجام پائیں؛ تمام بڑے شہروں نے اپنے دروازے مسلمانوں کے لشکر کے لئے کھول دیئے اور قرطبہ، مالقہ، غرناطہ، طلیطلہ اور دیگر شہر اور قصبے بغیر کسی مزاحمت کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے اور عیسائیوں کے دارالحکومت «طلیطلہ» میں مسلمانوں کو گٹ سلاطین کے 25 تاج مال غنیمت کے طور پر ملے. (11)
منابع:
1- رمضان در تاریخ ص 11.
2- الوقایع و الحوادث، ص 13
3- الوقایع و الحوادث ص 19.
4- سوره انبیاء آیه 92
5- سوره اعراف، آیه 157.
6-توضیح المقاصد، ص 16 - مسار الشیعه، ص 29 - نقل از رمضان در تاریخ.
7-سوره فتح، آیه 1.
8- مسار الشیعه، ص 30 و توضیح المقاصد، ص 7.
9-سوره اسرى، آیه 18.
10- ارکان الاسلام، ص 18.
11- تاریخ فتوحات اسلامى در اروپا، پیشگفتار.
ترجمه و اضافات: ف.ح.مهدوی
Add new comment