جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن ياسر (رضوان الله تعالى عليه
حضرت عمار بن ياسر
حضرت عمار، یاسر کے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو یقظان ہے۔ وہ اپنے زمانے کے ان چار بڑے آدمیوں میں سے تھے جنہوں نےاسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی باقی تین افراد درجہ ذیل ہیں۔
ابو ذر، مقداد اور سلمان
عمار کے والدین نے اسلام اور پیغمبر اکرم کی حمایت کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھایں اور انہیں تکالیف کے نتیجہ میں شہید ہوئے۔
جب بھی پیغمبر اکرم عمار کے خاندان کو قریش کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو دیکھتے تو انہیں جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے صبرا یا آل یاسر فان موعدکم الجنة
عمار نے بھی سخت تکالف اٹھانے کے بعد قریش کے کہنے کے مطابق کہا جبکہ آپ کو یہ سب کچھ کہنے کو ہرگز پسند نہ کرتے تھے اور قریش کے ظلم و ستم سے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور تقیہ کی آیت شاید آپ کی شان میں ہی نازل ہوئی، الدمن اکرہ و قبلہ مطمئن بالرعان
عمار یاسر حبشہ کے مہاجرین اور دو قبلہ کی جانب نماز پڑھنے والوں بدر اور دیگر جنگوں میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں اور بیعت رضوان بھی نبی اکرم کے ساتھ تھے اور یہ ان تمام خواص میں سے ہر ایک آپ کی فضیلت اور برتری کے لئے کافی ہے۔ پیغمبر نے بھی کئی مرتبہ آپ کی تعریف و تمجید کی ہے اور آپ کے بارے میں فرمایا عمار کا پورا بدن پاؤں سے چوٹی تک آپ کے گوشت، پوست میں ایمان بھرا ہوا ہے۔
اسی طرح پیغمبر نے امام علی سے کہا جنت آپ ،عمار، سلمان اور ابوذر کی منتظر ہے اور آپ کی شخصیت کے بارے میں فرمایا عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ ہے جب عمار اورخالد بن ولید کے درمیان جھگڑا ہوا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا ۔
کہ جو کوئی بھی عمار کے ساتھ دشمنی کرے گا اس نے خدا کے ساتھ دشمنی کی اور جس نے بھی عمار کو ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا اورجس نے بھی عمار کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی۔
عمار امام علی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ نبی اکرم کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ زہرا کے جنازے میں شرکت کی اور جنگ جمل اور صفین میں امام علی کے سپہ سالاروں میں سے تھے اور امام علی کی حکومت کے ایک اہم ستون تھے۔
عمار 37ھ کو جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ نبی کریم کا عمارکے بارے میں مشہور جملہ کہ عمار کو ایک باغی و سرکش گروہ قتل کرے گا“ نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی حقیقت کو ان کے لئے ظاہر کر دیا کہ جو شک و تردید کا شکار تھے اور عمار کی شہادت کے بعد بہت لوگ کہ جو جنگ میں شریک نہیں تھے شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔
علماء رجال نے عمار کی شان و منزلت بیان کرتے ہوئے ان کی روایت کو تواتر کی حد تک جانا ہے۔ عمار روایات کو نبی اکرم اور امام علی اور حذیفہ بن یمان سے نقل کرتے ہیں اور جابر بن عبداللہ ، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس وغیرہ نے بھی عمار یاسر سے روایات نقل کی ہیں۔
بنى مخزوم نے عمار بن ياسر كوبھى زبردست اذيتيں پہنچائيں يہاں تك كہ وہ قريش كى من پسند بات كہنے پرمجبور ہوئے اور يوں انہوں نے عمار كو چھوڑ ديا_ اس كے بعد وہ رسول(ص) الله كے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض كيا " يا رسول (ص) اللہ جب تك ميں نے مجبور ہوكر آپ (ص) كو برا بھلا نہيں كہا اور ان كے معبودوں كى تعريف نہيں كى تب تك انہوں نے مجھے نہيں چھوڑا"
آپ(ص) نے فرمايا: "اے عمار تيرى قلبى كيفيت كيسى ہے؟ " عرض كيا "يا رسول(ص) الله ميرا دل تو ايمان سے لبريز ہے""_ آپ(ص) نے فرمايا: "پس كوئي حرج نہيں بلكہ اگر وہ دوبارہ تمہيں مجبور كريں توتم پھر وہى كہو جو وہ چاہيں_ بے شك خدانے تيرے بارے ميں يہ آيت نازل كى ہے (الا من اكرہ وقلبہ مطمئن بالايمان) مگرجس پر جبر كيا جائے جبكہ اس كا دل ايمان سے لبريز ہو
Add new comment