شیعوں پر حملے، قصور کس کا؟
دو ماہ کے دوران شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ہونے والے حملوں میں ۲۵۰ سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ صرف چالیس دنوں کے درمیان بلوچستان میں تقریبا دو سو شیعہ ہزارہ کے قتل سے ملک بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردانہ حملات کے پیچھے ایک خوفناک مقصد ہے۔ اور یہ ہے کہ وہ شیعہ ہیں اور اقلیت میں ہیں جتنے حملے ہو رہے ہیں وہ فرقہ واریت کی بنا پر ہو رہے ہیں۔اور انہیں آسانی سے ان حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے چونکہ ان کے اندر دفاعی قوت نہیں ہے وہ کسی بھی صورت میں اپنا دفاع کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی حال ہی میں سامنے آئی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2012 ء میں ہی سوا سو سے زیادہ شیعہ افراد شدت پسندوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ رحمان ملک نے پارلیمنٹ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان حکومت کو کیرانی روڈ دھماکے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اس حملے کو کیوں نہیں روکا جا سکا؟
اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں یا پاکستانی حکومت کی غفلت ہے جس نے پاکستان کو نابودی کے دھارے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے یا پھر مذہبی تعصب۔ جس کا خود حکومتی عہدہ دار بھی شکار ہیں۔
مذہبی تعصب جو پاکستانی قوم کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا ایک زندہ ثبوت سپاہ صحابہ کا وجود ہے۔ سپاه صحابہ نامی عسکریت پسند تنظیم کا قیام 1984ء میں عمل میں آیا تھا اور تب سے اب تک اُن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور حکومت ان کو کافر قرار دے۔ جب حکومت نے ایسا نہیں کیا تو وہ ان کو چُن چُن کر مار رہے ہیں۔
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں اس تنظیم کی کاروائیوں کو روکنا بہت دشوار کام ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب صرف سپاہ صحابہ ایک تنظیم کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ سپاہ صحابہ کی فکر پورے پاکستان میں سرایت کر گئی ہے اب تمام اداروں اور معاشرے کی اکثریت میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ جو ہلاک ہو رہے ہیں ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
دس جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والے دو دھماکوں میں ایک سو پندرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ہزارہ شیعہ تھے۔ ایک ماہ سے کم کے عرصے میں کیرانی روڈ کے دھماکے میں پھر نواسی افراد ہلاک ہو گئے۔
کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی، لیکن بہت سے لوگ ہیں جو حکومت کی ان کے خلاف کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں، راشد رحمان بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
ان کا کہنا ہے، “جب وہ خود ہی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں، تو انہیں اور ان کے لیڈروں کو پكڑا جائے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اس سے قبل سیکورٹی ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟”
پاکستان علماء کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی کی نظر میں اس کی وجہ انتظامیہ کی بنیادی کمزوریاں ہیں۔ ان کے خیال میں اگر عدالتی نظام مضبوط ہو تو اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ”مجرموں کو پھانسی دی جائے، قانون کی عملداری قائم ہو، اگر جج اپنے اندر ہمت پیدا کریں اور قانون پر عمل کرنے والی ایجنسیوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ جب ہمارے نظام میں اتنی کمزوریاں ہوں گی کہ مجرم کو اس کے انجام تک نہیں پہنچایا جا سکے گا تو لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔”
محمد حنیف کے خیال میں بہتر یہ ہوگا کہ پہلے اپنے گھر میں جھانک لیا جائے۔ ان کے خیال میں نفرتوں کی یہ جنگ پاکستان کی اپنی ہے اور اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا ہے۔
محمد حنیف کا کہنا ہے کہ سماج میں انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ شدت پسند تنظیموں کا کام آسان ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں، “بار بار ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن یہ نام بدل کر پھر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ کئی محلوں میں آپ کو ایسی مسجدیں مل جائیں گی جہاں پر “کافر کافر شیعہ کافر” کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو اس طرح اُكسانا جرم ہے۔ لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ایسا تھانےدار نہیں جو جا کر کسی مسجد میں گھس کر یہ بات کہہ سکے یا کسی ایسے جلسے کو روک سکے۔”
Add new comment