ایمان ابوطالب علیه السلام

ہم يہاں پر ان بہت سے دلائل ميں سے جو واضح طور پر ايمان ابوطالب كى گواہى ديتے ہيں كچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بيان كرتے ہيں تفصيلات كے لئے ان كتابوں كى طرف رجوع كريں جو اسى موضوع پر لكھى گئي ہيں_

۱ : حضرت ابوطالب پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت سے پہلے خوب اچھى طرح سے جانتے تھے كہ ان كا بھتيجا مقام نبوت تك پہنچے گا كيونكہ مورخين نے لكھا ہے كہ جس سفر ميں حضرت ابوطالب قريش كے قافلے كے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد (ص) كو بھى اپنے ساتھ لے گئے تھے _ اس سفر ميں انہوں نے آپ سے بہت سى كرامات مشاہدہ كيں_
ان ميں ايك واقعہ يہ ہے كہ جو نہيں قافلہ ''بحيرا''نامى راہب كے قريب سے گزرا جو قديم عرصے سے ايك گرجے ميں مشغول عبادت تھا اور كتب عہدين كا عالم تھا ،تجارتى قافلے اپنے سفر كے دوران اس كى زيارت كے لئے جاتے تھے، توراہب كى نظريں قافلہ والوں ميں سے حضرت محمد (ص) پر جم كررہ گئيں، جن كى عمراس وقت بارہ سال سے زيادہ نہ تھى _
بحيرانے تھوڑى دير كے لئے حيران وششدر رہنے اور گہرى اور پُرمعنى نظروں سے ديكھنے كے بعد كہا:يہ بچہ تم ميں سے كس سے تعلق ركھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب كى طرف اشارہ كيا، انہوں نے بتايا كہ يہ ميرا بھتيجا ہے_
'' بحيرا'' نے كہا : اس بچہ كا مستقبل بہت درخشاں ہے، يہ وہى پيغمبر ہے كہ جس كى نبوت ورسالت كى آسمانى كتابوں نے خبردى ہے اور ميں نے اسكى تمام خصوصيات كتابوں ميں پڑھى ہيں _
ابوطالب اس واقعہ اور اس جيسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھى پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت اور معنويت كو سمجھ چكے تھے _
۲: اہل سنت كے عالم شہرستانى (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء كى نقل كے مطابق: ''ايك سال آسمان مكہ نے اپنى بركت اہل مكہ سے روك لى اور سخت قسم كى قحط سالى نے لوگوں كوگھير لياتو ابوطالب نے حكم ديا كہ ان كے بھتيجے محمد كو جو ابھى شير خوارہى تھے لاياجائے، جب بچے كو اس حال ميں كہ وہ ابھى كپڑے ميں لپيٹا ہوا تھا انہيں ديا گيا تو وہ اسے لينے كے بعد خانہ كعبہ كے سامنے كھڑے ہوگئے اور تضرع وزارى كے ساتھ اس طفل شير خوار كو تين مرتبہ اوپر كى طرف بلند كيا اور ہر مرتبہ كہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ كے حق كا واسطہ ہم پر بركت والى بارش نازل فرما _
كچھ زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ افق كے كنارے سے بادل كا ايك ٹكڑا نمودار ہوا اور مكہ كے آسمان پر چھا گيا اور بارش سے ايسا سيلاب آيا كہ يہ خوف پيدا ہونے لگا كہ كہيں مسجد الحرام ہى ويران نہ ہوجائے ''_
اس كے بعد شہرستانى لكھتا ہے كہ يہى واقعہ جوابوطالب كى اپنے بھتيجے كے بچپن سے اس كى نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت كرتا ہے ان كے پيغمبر پر ايمان ركھنے كا ثبوت بھى ہے اور ابوطالب نے بعد ميں اشعار ذيل اسى واقعہ كى مناسبت سے كہے تھے :
و ابيض يستسقى الغمام بوجہہ ثمال اليتامى عصمة الارامل
'' وہ ايسا روشن چہرے والا ہے كہ بادل اس كى خاطر سے بارش برساتے ہيں وہ يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوائوں كے محافظ ہيں ''
يلوذ بہ الہلاك من آل ہاشم فہم عندہ فى نعمة و فواضل
'' بنى ہاشم ميں سے جوچل بسے ہيں وہ اسى سے پناہ ليتے ہيں اور اسى كے صدقے ميں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہيں ،،
وميزان عدلہ يخيس شعيرة ووزان صدق وزنہ غير ہائل
'' وہ ايك ايسى ميزان عدالت ہے كہ جو ايك جَوبرابر بھى ادھرادھر نہيں كرتا اور درست كاموں كا ايسا وزن كرنے والا ہے كہ جس كے وزن كرنے ميں كسى شك وشبہ كا خوف نہيں ہے ''
قحط سالى كے وقت قريش كا ابوطالب كى طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب كا خدا كو آنحضرت كے حق كا واسطہ دينا شہرستانى كے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظيم مورخين نے بھى نقل كيا ہے _''(1)
(1) علامہ امينى نے اسے اپنى كتاب''الغدير'' ميں'' شرح بخاري'' ،''المواہب اللدنيہ'' ،'' الخصائص الكبرى '' ،'' شرح بہجتہ المحافل'' ،''سيرہ حلبي''، '' سيرہ نبوي'' اور '' طلبتہ الطالب'' سے نقل كيا ہےا

http://www.makaremshirazi.org/urdu/compilation/book.php?bcc=1759&itg=7&b...

Add new comment