تشیع کے نقطہ نظر سے ظلم اور زیادتی
دوسروں کے حقوق مارلینا اور ان پرظلم وستم ڈھانا ان سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے جن سے ائمہ اطہار نے قرآن کی پیروی میں جس نے نہایت شدت سے انسانوں کو ظلم وستم سے روکا ہے نہایت سختی سے منع کیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے : یہ نہ سمجھنا کہ خدا ظالموں کے افعال سے بے خبر ہے۔ اس نے ان کی سزا اس (قیامت کے) دن پر اٹھا رکھی ہے جب آنکھیں حیران ہوجائیں گی۔
(نوٹ، سورہ ابراہیم ۔ آیت ۴۲)
امام علیؑ نے بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ ظلم وستم کی برائی میں نہایت سخت لہجے میں کچھ باتیں کہی ہیں ان میں سے ایک یہ پیاری اور سچی بات بھی ہے۔
وَاللّٰہِ لَواُعطِیتُ الاَ قَالِیمَ السَّبعَۃَ بِمَا تَحتَ اَفلاکِھَا عَلیٰ اَن اَعصِیَ اللہَ فِی نَملَۃٍ اَسلُبُھَا جُلبَ شَعِیرَۃٍ فَعَلتُہُ : بخدا اگر ہفت اقلیم بھی اس سب مال و متاع کے ساتھ ساتھ جو آسمان کے نیچے ہے مجھے اس شرط پر دی جائے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں اور خدا کا اتنا سا گناہ کروں تو بھی میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا
(نوٹ، صبحی صالح : نہج البلاغۃ ۔ خطبہ ۲۲۴)
یہ مقدار ظلم سے بچنے کی سب سے آخری حد ہے جسے انسان ستم سے دور رہنے اور اسے برا سمجھنے کے لیے سوچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ امام علی چیونٹی پر جو کا چھلکا چھیننے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتے چاہے۔ ہفت اقلیم کی حکومت ان کو دے دی جائے۔
اس صورت میں ان کا کردار کیسا ہے جنہوں نے حد سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا ہے، ان کا مال لوٹا ہے اور لوگوں کی آبروریزی کرتے ہیں۔
جو ایسا ہے وہ اپنی زندگی کی مطابقت امام علی کی زندگی سے کیسے کرسکتا ہے اور ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کے مقام تک کیسے پہنچ سکتا ہے ۔ یہ ہے خدا کی اعلیٰ تربیت جو وہ اپنے دین کی خاطر انسان سے چاہتا ہے۔
ہاں ظلم ان سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے جنہیں خدا نے حرام کر دیا ہے اس لیے اہل بیت کی دعاؤں اور روایتوں میں ظلم و ستم کی سب سے زیادہ برائی کی گئی ہے اور برائی کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
ائمہ اطہار کا یہ رویہ اور طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ان لوگوں پر ظلم کرنے سے بھی دور رہتے تھے جو ان پر ظلم ڈھاتے اور ان کی توہین کرتے تھے۔ ایک شامی مرد کے ساتھ حضرت امام حسن کی بردباری کا مشہور قصہ اس بات کا گواہ ہے۔ اس شخص نے بہت گستاخیاں کیں، یہاں تک کہ آپ کو گالیاں دیں لیکن آپ نے ان بدتمیزیوں کے جواب میں نہایت برداشت اور خاص مہربانی کا برتاؤ کیا کہ جس سے آخر میں وہ اپنے برے رویے پر شرمندہ ہوگیا۔
چند صفحے پہلے ہم نے صحیفہ سجادیہ میں ایک دعا پڑھی ہے کہ امام سجاد اپنے عالی مکتب میں ان لوگوں کو معاف کرنے کی کیسے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے جو انسانوں پر ظلم کرتے تھے اور یہ سبق دیا کرتے تھے کہ ہم خدا سے ان کی بخشش کی دعا کریں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شرع کے مطابق ظالم کے ظلم کے جواب میں ظلم کرنا اور اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے لیکن جائز ہونا ایک اور بات ہے اور معافی اور درگزر جو اخلاقی خوبیوں میں سے ہے دوسری چیز ہے بلکہ ائمہ اطہار کے نقطہ نظر سے ظالم پر زیادہ لعنت بھیجنا بعض اوقات ظلم شمار ہوتا ہے۔
امام صادق فرماتے ہیں۔
اِنَّ العَبدَ لَیَکُونَ مَظلُوماً فَمَا یَزَالُ یَدعُو حَتَّٰی یَکُونَ ظَالِماً :۔ کبھی کبھی وہ انسان جس پر ظلم ہوا ہے ظلم کرنے والے پر اس قدر لعنت بھیجتا ہے کہ خود بھی ظالم بن جاتا ہے (یعنی زیادہ لعنت کرنے کے باعث ظالم ہوجاتا ہے)
حیرت اس بات پر ہے کہ جب ظالم پر لعنت کی کثرت ظلم شمار ہوتی ہے تو اس صورت میں اہل بیت کی تعلیم کی رو سے اس شخص کا حساب کیسے ہوگا جو ابتدا میں ظلم و زیادتی کرتا ہے یا لوگوں کو بے آبرو کرتا ہے یا ان کا مال لوٹ لیتا ہے یا ظالموں سے لوگوں کی چغلی کھتا ہے تاکہ انہیں ظالموں کی بدنیتی کا نشانہ بنوادے یا دھوکا دے کر لوگوں کی پریشانی ، تکلیف اور تباہی کا سبب بنتا ہے یا مخبری کرکے لوگوں کو پکڑوا دیتا ہے۔
ایسے لوگ تمام لوگوں کی بہ نسبت خدا سے زیادہ دور ہیں، ان کا گناہ اور اس کی سزا بھی زیادہ سخت ہوگی اور ایسے لوگ عمل اور اخلاق کی رو سے تمام انسانوں سے برے ہیں۔
Add new comment