حضرت علی(ع) سے معاویه کی دشمنى کی علت کیا تهی؟

حضرت علی(ع) سے معاویه کی دشمنى٬ حقیقت میں ایک فرد کی کسی فرد سے دشمنى نهیں هے- بلکه دو ثقافتوں اور دو فکروں کا اختلاف اورٹکراو هے- حضرت علی(ع) کے خلاف کینه٬ دشمنیوں اور مخالفتوں کی علت کو حضرت (ع) کی خصوصیتوں اور معیاروں اور معاویه کی خصوصیتوں اور صفات کے درمیان ڈهونڈنا چاهئے-
امام علی(ع) گراں قیمت صفات و خصوصیات کے مالک تهے٬ جو آپ (ع) کے دوستوں کے لئے شادمانی اور دشمنوں کے لئے حسد و کینه و عداوت کا سبب بنے- حضرت (ع) کی ان صفات و خصوصیات میں سے بعض حسب ذیل هیں:
1- امام علی(ع) کا علم: پیغمبر اسلام(ص) کے بعد حضرت علی (ع) احکام اور دستورات اسلام اور عالم هستی و نظام خلقت کے اسرار کے بارے میں آگاه ترین فرد تهے٬ یهاں تک که مشکلات اور تعطل سے دوچار هونے کے وقت دوست و دشمن آپ(ع) کی طرف رجوع کرتے تهے-
2- ایمان کا سابقه: مردوں میں سے حضرت علی(ع) پهلے شخص تهے٬ جنهوں نے پیغمبر اکرم(ص) پر ایمان لایا اور پیغمبر اکرم (ص) نے آپ(ع) کو اپنے وصی اور جانشین کے عنوان سے منصوب فرماکر لوگوں کو پهچنوایا-
3- میدان کارزار میں شجاعت اور جاں نثاری: حضرت علی(ع) کی شجاعت اس حد تک نمایاں تهی که جنگوں کے دوران میدان کارزار کے خطرناک ترین حالات میں ذمه داری آپ(ع) کو سونپی جاتی تهی اور حضرت (ع) پوری جاں نثاری اور شجاعت کے ساته دشمن کو شکست دیتے تهے-
4- سخاوت و بخشش: حضرت علی(ع) اپنے ذاتی اموال کے بارے میں سخاوت و بخشش میں زبان زد عام و خاص تهے٬ یهاں تک که بے انتها تلاش و کوشش کے بعد کنوے اور نهریں کهودکر اور نخلستان (خرما کے باغ) بنا کر ان میں سے کوئی چیز اپنے لئے نهیں رکهتے تهے اور سب کو خدا کی راه میں وقف کرتے تهے-
5- جاں نثاری: امام علی(ع) بهت سے مواقع پر اپنے مال کو محتاجوں میں اس حالت میں تقسیم کرتے تهے که ان کے اپنے اهل و عیال اس کے سخت محتاج هوتے تهے٬ ان میں سے ایک نمونه کو قرآن مجید نے بیان کرکے آپ(ع) کی تمجید کی هے- [1]
6- عدل و انصاف: امام علی(ع) کی نمایاں صفت٬ آپ(ع) کا عدل و انصاف تهی آپ کا یه عمل، عدل و انصاف کے حامى حکام کے لئے نمونه عمل بنا هے- آپ(ع) اس سلسله میں فرماتے هیں: "خدا کی قسم اگر سات آسمان٬ افلاک کے ساته مجهے بخش دئے جائیں تا که ایک چونٹی کے منه میں موجود جو کے معمولی سے چهلکے کو زبر دستی چهین لوں٬ میں هرگز یه کام انجام نهیں دوں گا-" [2]
7- رخدا کی بندگی اور نفسانی خواهشات کی مخالفت: حضرت علی(ع) نے کبهی نفسانی خواهشات کے مطابق کوئی قدم نهیں اٹهایا هے اور خدا کے لئے اپنی تمام نفسانی خواهشات کو کچل دیتے تهے اور همیشه مخلصانه عبادت و عمل کے درپے هوتے تهے- عمروبن عبدود سے پیکار اس اخلاص کا ایک بارز نمونه هے-
ان صفات اور گراں قیمت خصوصیات کے نتیجه میں اور اس آیه شریفه کے سبب که ارشاد هوتاهے: " بیشک جنهوں نے ایمان لایا هے اور نیک کام انجام دئے هیں٬ خداوند متعال دلوں میں ان کے لئے ایک محبت قرار دیتا هے!" [3] خداوند متعال نے حضرت علی(ع) کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں قرار دیا اور آپ(ع)، لوگوں میں عریزترین فرد تهے- اوریهی امر بے ایمان افراد کے لئے آپ(ع) سے حسادت و دشمنی کا سبب بنا تها٬ کیونکه جو افراد ایمان و برتری کا دعوی کرتے تهے٬ وه ا ن صفات میں حضرت (ع) کے هم پله نهیں بن سکتے تهے- لیکن حضرت (ع) کی جو صفت٬ سب سے زیاده دشمنی٬ خاص کر معاویه کی دشمنی کو مشتعل کرنے کی سبب بنی تهی٬ وه عدل و انصاف میں حضرت علی(ع) کی شدت تهی- حضرت علی (ع) نے خلافت کو قبول کرنے کے بعد٬ مسجدالنبی(ص) میں اپنی پهلی تقریر میں دوٹوک الفاظ میں اپنی پالیسی اور پروگرام کا اعلان کیا اور واشگاف الفاظ میں اپنی حکومت کے خط و خطوط٬ یعنی عدل و انصاف کی ترویج اور ظلم و ستم سے مقابله کرنے اور شائسته افراد کو بروئے کار لانے کی بات کی اور اعلان فرمایا که وه موجوده حالات کو بدل کر رکه دیں گے اور پیچهے دهکیل دئے گئے لائق اور شائسته افراد کو آگے لے آئیں گے اور آگے بڑهادئے گئے نالائق افراد کو پیچهے دهکیل دیں گے- [4] اور غارت کیا گیا مال اگر عورتوں کے زیورات میں تبدیل کیا گیا هو یا کنیزوں کی خریداری میں صرف کیا گیا هو٬ اسے واپس لیں گے٬ کیونکه عدل و انصاف میں ایک ایسی سهولت هے٬ که اگر کوئی عدل و انصاف میں تنگی محسوس کرے٬ تو ظلم و ستم اس پر زیاده تنگی پیدا کرسکتا هے-" [5]
دوسری جانب سے معاویه ایک اقتدار کا بهوکا شخص تها٬ اور اقتدار پر قبضه کرنے کے لئے کوئی بهی کام انجام دینے سے پروا نهیں کرتا تها- چنانچه تاریخ میں آیا هے که معاویه نے امام حسن(ع) کے ساته صلح کے بعد ایک دن نماز عید کے خطبوں میں اپنے مقاصد اور اهداف سے پرده اٹهاتے هوئے کها: "میں نے آپ سے اس لئے جنگ نهیں کی هے که آپ روزه رکهیں٬ نماز پڑهیں٬ حج بجالائیں یا زکوة ادا کریں! کیونکه میں جانتا تها که آپ یه کام انجام دیتے هیں٬ بلکه میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ کی هے تا که تم لوگوں کا امیر بن جاو٬ خداوند متعال نے آپ پر حکمرانی کرنا مجهے عطا کی تهی اور تم لوگ نهیں چاهتے تهے-" [6] اس بناپر اظهر من الشمس هے که جس شخص کے طرز تفکر کا بنیادی مقصد اقتدار٬ سلطنت اور لوگوں پر حکمرانی کرنا هو وه حضرت علی(ع) کی قدروں پر مبنی حکومت کو کبهی برداشت نهیں کرے گا- اس کے علاوه صدر اسلام کی جنگوں میں معاویه کے مشرک اجداد اور رشته داروں کے قتل هونے کی وجه سے معاویه کے وجود میں اسلام اور پیغمبر اسلام(ص) سے انتقام لینے کی آگ شعله ور هوچکی تهی اور یه بهی معاویه کے لئے حضرت على (ع) سے دشمنى کا ایک سبب تها٬ کیونکه امام علی(ع) اسلام کے نمونه اور پیغمبر اسلام(ص) کے قریب ترین فرد تهے- چنانچه معاویه کے بیٹے یزید نے امام حسین(ع) کو شهید کرنے کے بعد حضرت(ع) کے کٹے سرمبارک کے مقابله میں انتقام گیری کے اس کینه سے پرده اٹهاتے هوئے علی الاعلان یه شعر پڑها: "کاش! جنگ بدر میں قتل هونے والے میرے اجداد آج زنده هوتے اور قبیله خزرج کی اس ذلت و خواری اور آه و زاری کو دیکهتے۔۔۔" یه وه شعر هے٬ جسے ابن زبعرى نے جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست اور پیغمبر(ص) کے صحابیوں کی شهادت کے بعد کها تها- [7] اور اس وقت یزید٬ امام حسین(ع) کو شهید کرنے کے بعد اسے پڑه رها تها اور ان دو واقعات کا موازنه کررها تها اور تمنا کرتا تها که کاش! اس کے مشرک اجداد زنده هوتے اور دیکهتے که یزید نے کس طرح خاندان پیغمبر (ص) سے ان کے خون کا بدله لیاهے-
اس بناپر٬ امام علی(ع) کی حکومت اور آپ کی اولاد کے ساته معاویه اور اس کے خاندان کی دشمنی اور مخالفت کا اصلی سبب٬ خود اسلام سے مخالفت تها٬ جس کی بنیاد رسول خدا(ص) نے اپنے هاتهوں سے ڈال تهی-
اس موضوع سے متعلق چند عناوین:
صحابه و حضرت علی(ع)، سوال 2810 (سایت: 3504).
ویژگی های امام علی(ع)،سوال  4465 (سایت: 4771)۔
[1] انسان، 8-10.
[2] محدث نوری، مستدرک‏الوسائل، ج 13، ص 211. نَهْجُ الْبَلَاغَةِ، قَالَ ع "وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِیتُ الْأَقَالِیمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاکِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِیَ اللَّهَ فِی نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِیرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ".
[3] مریم، 96، "إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا".
[4] نهج البلاغه، خ 16، ص57.
[5] نهج البلاغه، خ 15، ص57، "فان فی العدل سعة و من ضاق علیه العدل فالجور علیه اضیق".
[6] أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقى (م 774)، البدایةوالنهایة،ج‏8،ص131، نشر دار الفکر، بیروت، 1407/ 1986.ُُُُُّّّّّ "قال یعقوب بن سفیان: حدثنا أبو بکر بن أبى شیبة و سعید بن منصور قالا: ثنا أبو معاویة ثنا الأعمش عن عمرو بن مرة عن سعید بن سوید. قال: صلى بنا معاویة بالنخیلة- یعنى خارج الکوفة- الجمعة فی الضحى ثم خطبنا فقال: ما قاتلتکم لتصوموا و لا لتصلوا و لا لتحجوا و لا لتزکوا، قد عرفت أنکم تفعلون ذلک، و لکن إنما قاتلتکم لأتأمر علیکم، فقد أعطانى الله ذلک و أنتم کارهون».
[7] البدایةوالنهایة،ج‏8،ص204، "لیت أشیاخى ببدر شهدواجزع الخزرج من وقع الأسل‏".

 

www.erfan.ir

Add new comment