عزاداري کا کوئي ھدف اور مقصد هونا چاہئے

امام حسین

اگر ھم عزاداري کرتے ھيں تو اس کا کوئي ھدف اور مقصد هونا چاہئے، کيونکہ ھر عمل کا کوئي نہ کوئي مقصد ضرور هوتا ھے، لہٰذا اگر ھم مجالس برپا کرتے ھيں، آنسو بھاتے ھيں، سينہ زني کرتے ھيں، وقت صرف کرتے ھيں اور پيسہ خرچ کرتے ھيں تو اس کا مقصد کيا ھے؟ ھميں اس بات پر توجہ دينا چاہئے کہ اگر يہ سب کچھ انجام ديتے ھيں تو کس مقصد کے تحت؟
چنانچہ اگر ھم عزادري کا مقصد سمجھنے چاھيں تو سب سے پھلے ھميں حضرت امام حسين عليہ السلام کے قيام کا مقصد سمجھنا هوگا، کيونکہ جس مقصد کے تحت ھمارے مولا و آقا حضرت امام حسين عليہ السلام نے اتني بڑي قرباني پيش کي کہ جس کي تاريخ ميں مثال نھيں ملتي، اپني اور اپنے عزيز و اقارب کے قرباني پيش کي، تو ضرور کوئي مقصد رھا هوگا، آپ نے مدينہ سے روانگي کے وقت وہ مقصد لوگوں کے سامنے واضح کرديا تھا، چنانچہ امام حسين عليہ السلام کا فرمان ھے:
”‌--- و انما خرجت اطلب الصلاح في امة جدي محمد (ص) اريد آمر بالمعروف وانھيٰ عن المنکر، اسير سيرة جدي، و سيرة ابي علي بن ابي طالب“-پس معلوم يہ هوا ھے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام امت اسلام کي اصلاح، امر بالمعروف اور نھي عن المنکر ، حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت علي عليہ السلام کي سيرت بتانے کے لئے مدينہ سے روانہ هوئے، لہٰذا ھميں بھي امت اسلاميہ کي اصلاح کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، معاشرہ ميں پھيلي هوئي برائيوں کو ختم کرنا چاہئے، اور امر بالمعروف اور نھي عن المنکر جيسے اھم فريضہ پر عمل کرنا چاہئے، نيز سيرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور سيرت علي عليہ السلام پر عمل کرتے هوئے اس کو لوگوں کے سامنے پيش کرنا چاہئے، اور جب ھماري مجالسوں ميں ان باتوں پر توجہ دي جائے گي تو يقينا عزاداري کے مقاصد پورے هوتے جائيں گے ھمارا معاشرہ نمونہ عمل قرار پائے گا، اور معنوي ثواب سے بھرہ مند هوگا، ليکن اگر ھم نے معاشرہ ميں پھيلتي هوئي برائيوں کو ختم کرنے کي کوشش نہ کي، اور لوگوں کو نيکيوں کا حکم نہ ديا تو مقصد حسيني پورا نہ هوگا، ھم برائيوں ميں مبتلا رھيں اور خود کو امام حسين عليہ السلام کا ماننے والا قرار ديں، ھمارے معاشرے ميں برائياں بڑھتي جارھي هوں اور ھم خود کو امام صادق عليہ السلام کے مذھب کا پيرو کار قراديں، واقعاً ھميں شرم آنا چاہئے، چنانچہ امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:
”‌کونوا لنا زيناً و تکونوا علينا شيناً“ (اے ھمارے شيعوں ھمارے لئے زينت کا باعث بنو، ھماري بدنامي کا باعث نہ بنو) واقعاً يہ غور و فکر کا مقام ھے!!
کتنے افسوس کا مقام ھے کہ قوم ميں بعض نئي نئي چيزيں پيدا هو رھي ھيں اور ھم خاموش بيٹھے ھيں ، اگر ھم نے ابھي سے ان پر توجہ نہ کي تو وہ نئي چيزيں ، نئي چيزيں نھيں رہ جائيں گي بلکہ وہ دين کا جزبن جائيں گي، اور اس وقت ان کا ختم کرنا مشکل هوگا، ليکن جو لوگ بدعت ايجاد کرتے ھيں کيا وھي عند اللہ و رسول(ص)جواب دہ هوں گے، علماء اور ذاکرين کي کوئي ذمہ داري نھيں ھے، ھرگز ايسا نھيں ھے، بلکہ ھم سب ذمہ دارھيں-
چنانچہ پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم بدعت کے سلسلہ ميں علماء کو ذمہ داري کا احساس دلاتے هوئے فرماتے ھيں:
”‌جب ميري امت ميں بدعتيں ظاھر هونے لگيں تو علماء کي ذمہ داري ھے کہ وہ اپنے علم و دانش کے ذريعہ ميدان ميں آئيں (اور ان بدعتوں کا مقابلہ کريں) اور اگر کوئي ايسا نھيں کرتا تو اس پر خدا کي لعنت اور نفرين هو!“

تحریر: اقبال حیدر حیدری

 

www.tebyan.net

Add new comment