قیام حسین(ع) اور درس شجاعت

امام حسین

کربلا کی جنگ حقّ و باطل کے درمیان حدِّ فاصل ہے ۔ جسکوامام حسین (ع) نے اپنے لہو کی سرخی سے روشن اور نمایاں کر دیا ہے ۔ امام حسین (ع) نے انسانیت کو ظلم سے مقابلہ کا سبق پڑ ھایا اور حقّ و باطل کی جنگ میں مصلحت سے کام لینے والوں کو ایک درس دیا کہ اسلام کی حفاظت کا جب وقت آ ئے ، جب حق کو باطل سے جدا کرنے کا وقت آئے تو کسی مصلحت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ امام حسین (ع) نے انسانیت کو شجاعت کا درس دیا ایسا درس کہ جس نے پڑ ہ لیا پھر عمر کی شرط اور قید ا سکے لیے مہم نہیں رہی ۔بڑ ھاپا بچپنہ معیار نہ رہا۔ دولت اور سلطنت راہ کو نہ روک سکی۔ امام حسین (ع) نے جب قیام کی ابتدا کی، دربار ولید سے لے کر اپنے سجدۂ آخر تک اپنے موقف کو واضح رکھا کہ جس سر پر دینِ الٰہی کی عزّت و عظمت کا تاج ہو وہ کبھی ظالم کے آگے جہک نہیں سکتا ۔جس ھاتہ میں امانتِ رسالتِ انبیاء ہو وہ ھاتہ دشمنانِ رسالت کے ھاتہ میں نہیں جا سکتا۔حسین کے اس درسِ انقلاب کی عبارتوں سے آپ کا موقف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ غیرت و حشمتِ اسلام کی حفاظت کی اور کہیں بھی ظالم کی طاقتوں کے سامنے زبان حسین حق گویی سے نہیں لرزی ۔اسی درسِ جوانمردی کی کچہ عبارتوں کے بیان اور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین کا ہدف کیا تھا۔ کچہ خاص مقامات پر امام کے خاص جملات و خطابات تاریخ کی پیشانی پر سنہرے جہومر کی طرح رونق افروز ہیں ۔انہیں میں سے کچہ کلمات کو امام حسین (ع) کے قیام کو سمجہنے کے لیے وسیلہ قرار دیتے ہیں :
۱۔حاکم مدینہ (ولید بن عتبہ بن ابی سفیان ) سے خطاب ۔
معاویہ کی موت کے بعد ولید بن عتبہ نے امام حسین (ع) کو دربار میں طلب کیا اور بیعت کا مطالبہ کیا اور امامؑ نے پہلے ہی مرحلے میں اپنے فضائل و کمال اور یزید کی خصلتوں کے ذکر کے بعد اپنا ارادہ کچہ یوں ظاہر کیا مثلی لا یبایع مثلہ ۱)میرے جیسا انسان یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔یھاں پر امام حسین (ع) نے اپنی اور یزید کی صفات کے بیان کے بعد فرمایا میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔امام حسین (ع)ؑ درحقیقت اپنے صفات نہیں بلکہ جوانمردوں کے صفات بتا رہے تہے اور ان کی راہ بھی روشن کر رہے تہے کہ کوئی بھی غیرت مند انسان یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
دوسرے مقام پرجب مروان نے امام کو نصیحت یا خیر خواہی کی رو سے یزید کی بیعت کرنے کو کھا تو مولا نے بلاکسی جہجہک اور ثابت قدمی کے ساتھ فرمایا:انا للہ و انا الیہ راجعون ۔و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامہ براع مثل یزید۲) امام نے یھاں بھی ایک غیور مسلمان کی راہ کو واضح کر دیا ۔یھاں بھی امام ؑنے قیامت تک کے لیے ایک پیغام دیا یہ نہیں کھا کہ جب اسلام کی زمام یزید کے ھاتہ میں ہے توسلام پڑ ہ دو نہیں بلکہ امام نے فرمایا جب اسلام کی زمام یزید صفت کے ھاتہ میں تو اسلام کو وداع کر دیا جائے یہ بیان قیامت تک آنے والو کو درس انقلاب دے رہا ہے کہ جب دیکہو یزید جیسے لوگ اسلام کے ٹہیکیدار ہیں تو پھر حسین جیسی روش اپناؤ ۔اسلام کے آئینہ پر چڑ ہی گرد کو لہو سے دہو ڈالو ۔
امام اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرماتے ہیں : یا اخی واللہ لولم یکن فی الدنیاملجاء ولاماوی لما بایعت یزید ابن معاویہ ۳) امام نے فرمایا کہ اے بھائی اگر ساری زمین میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہ ہو تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا ۔امام نے بتا دیا کہ اگر ساری دنیا کی پناہ کہو کر بھی عزت اسلام کی انسان حفاظت کرے تو نقصان میں نہیں رہے گا۔
امام منزل بیضہ پر فرماتے ہیں : کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : من رأی سلطانا جائرا مستحلالحرم اللہ ناکثا لعہد اللہ مخالفا لسنت رسول اللہ یعمل فی عباد اللہ با لاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ ۴)یھاں پر امام نے حق پرستوں کے لیے راہ کو روشن کر دیا اور فرمایا: جو بھی کسی ظالم حکمران کو دیکہے کہ وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام میں تبدیل کر رہا ہے ، اللہ کے پیمان کو توڑ رہا ہے ، سنت رسول (ص)کی مخالفت کر رہا ہے اور اللہ کے بندو ں کے ساتھ گناہ اور بغض کی رو سے برتاؤ کر رہا ہے اور یہ سب دیکہنے کے بعد بھی انسان ان تبدیلیوں کے خلاف زبان یا عمل سے اقدام نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ وہ اس دیکہنے والے کو اس ظالم بادشاہ کے ساتھ محشور فرماے ٔ ۔یھاں پر امام نے راہ انسان اور اسلام کو بالکل رو شن کر دیا اور ایک مسلمان کے لیے اس کی ذمہ داری کو بیان کر دیا ۔
کربلا پہنچ کر امام اپنے زمانہ کے حالات کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں :( لیرغب المومنفی لقاء ربّہ حقا فانی لا اری الموت الاّ سعادت والحیات مع الظاّ لمین الاّ برما ۵) اگر مومن ان حالات میں اپنے پروردگار سے ملاقات کی رغبت کرے اس لئے کہ ان حالات میں موت جز سعادت اور کامیابی اور ظالمین کے ساتھ زندگی گزارنے میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچہ نہیں دیکہتا ہو ۔
یا امام انسانیت کو عزت کا درس دیتے ہوے فرماتے ہیں : موت فی عزّ خیر من حیات فی ذلّ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے ۔ بہتر ہے امام علیہ السلام کتاب عزت کے آخری درس کو یوں بیان فرماتے ہیں : الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنتین بین السلّت والذلّت و ہیھات منا الذلہ۶) جان لو کہ اس بد بخت باپ کے بد بخت بیٹے نے مجہے اختیار دیا کہ میں دو میں سے ایک چیز کو قبول کر لوں یا تلوار کو ( یعنی قتل ہو جانے کو ) یا ذلت کو ( یعنی بیعت کو اور ہم لوگ ذلت سے بہت دور ہیں ۔
امام (ع)نے فرمایا کہ جب عزتِاسلام کی بات آجاے ٔ تو سر کٹا دینا، گہر بار لٹا دینا ذلّت کو قبول کرنے سے کہیں بہتر ہے ۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ ہم لوگوں کو اس درسگاہِ شجاعت اور غیرت کا، کامیاب شاگرد بننے کی توفیق عنایت فرما ئے ۔
﴿بحقّ الحسین (ع) وابنایٔہ و انصارہ ﴾

حوالہ جات
۱۔بحار ج ۴۴ ص ۳۲۵
۲۔مقتل خوارزمی ج۱ص۱۸۵
۳۔بحار ج ۴۴ ص۳۲۹
۴۔ارشاد ج ۲ ص ۲۳۴۔
۵۔بحار ج ۴۴ص۳۸۱۔
۶۔ تحف العقول ص۲۴۱۔بحارج ۴۴ ص۱۹۱

Add new comment