اسلامی آثار کا انہدام بلڈوزر کے ذریعے/ قبر نبی (ص) کو خطرہ لاحق
سعود کے بیٹے اب اسلامی آّثار کو نابود کرنے کے لئے بلڈوزروں استعمال کررہے ہیں/ مصری قانوندان: سعودی حکمران اسلامی تاریخ و تمدن کو مٹارہے ہیں/ جامعۃالازہر کی طرف سے شدید مذمت۔
یسے تو مکہ اور مدینہ میں اسلامی تہذیب کے تمام آثار وہابیت اور سعودیت کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں لیکن اب سرزمین حجاز میں ان آثار کا صفایا کرنے کے کام کو تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے اور لگتا ہے کہ گویا سعودی حکمران اس مہم کو سرکرنے کے سلسلے میں "کسی" معاہدے پر عمل کررہے ہیں جس کی مدت پوری ہونے والی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرزمین حجاز میں اسلام کی آثار قدیمہ کا 95 فیصد حصہ مٹا دیا گیا ہے، مکہ معظمہ میں برطانوی ماسونیوں (Freemasons) نورمن فوسٹر اور زہا حدید کے ہاتھوں بیت اللہ الحرام کے توسیعی منصوبے پر کام ہورہا ہے جنہوں نے اسلامی آثار کے ویرانوں پر شیطانی علامتوں سے بھرپور لمبی چوڑی عمارتیں تعمیر کی ہیں اور یہ منصوبہ، ہوٹلوں اور عمارتوں کی تعمیر کے دوسرے منصوبوں کے ساتھ مل کر مکہ کو مغربی اندازکے ایک شہر میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے جبکہ توسیعی منصوبوں کے بہانے سعودی حکمران مکہ اور مدینہ سمیت حجاز کے تمام شہروں اور دشت و کوہ و صحرا میں موجود اسلامی آثار کو مٹانے میں مصروف ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آل سعود نے اس سال حج کے اعمال کے خاتمے کے بعد مسجدالنبی (ص) کے ارد گرد ایک عظیم توسیعی منصوبے کے لئے تحقیق و مطالعہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بہانے مسجدالحرام اور اس کے اطراف میں موجودہ آثار کو مٹانے کا منصوبہ ہے۔
کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے کے تحت دنیا کی سب سے بڑی عمارت تیار کی جائے گی جس میں 16 لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔
اطلاعات کے مطابق اسلام کے تاریخ آثار کے مدافعین اور حجاز کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس سعودی منصوبے پر شدید احتجاج کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے باقی ماندہ اسلامی آثار بھی نیست و نابود ہوجائیں گے۔
یہ منصوبہ مسجد نبوی کے مغربی حصے سے شروع ہوگا یعنی قبر نبی (ص) اس منصوبے کا پہلا نشانہ ہوگی۔ اسی حصے میں وہ مقامات موجود ہیں جو عہد نبی (ص) کی نشانیاں سمجھے جاتے ہيں اور وہ مقام بھی جہاں رسول اللہ (ص) نماز عید پڑھایا کرتے تھے جبکہ اس منصوبے میں تاریخی آثار کے تحفظ کے لئے کسی قسم کا کوئی انتظام نہيں ہے۔
انڈيپنڈنٹ نے لکھا ہے کہ سعودی حکمران بعض مقامات کو منہدم کرنے کے لئے بلڈوزروں سمیت بھاری مشینری استعمال کررہے ہیں۔
اسی حوالے سے حال ہی میں برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے واشنگٹن کے خلیج فارس اسٹڈیز سینٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ آل سعود نے گذشتہ 20 سال کے عرصے کے دوران مکہ اور مدینہ میں 95 فیصد اسلامی آثار کو تباہ کردیا ہے جن کی عمر ایک ہزار سال سے زائد تھی اور یہ کہ لندن میں سعودی سفارتخانے اور سعودی وزارت خارجہ نے آج تک اس سلسلے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب نہيں دیا ہے۔
مصری قانوندان: سعودی حکمران اسلامی تاریخ و تمدن کو مٹارہے ہیں / قبر نبی (ص) کو خطرہ
بلادالحرمین میں اسلام کے قدیم تہذیبی و مقدس آثار و مقامات کے انہدام کا سلسلہ ـ جو سعودی ـ وہابی حکمرانی کے آغاز سے شروع ہوا تھا ـ اس وقت حساس ترین مرحلے میں داخل ہوا ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو چند سال بعد ان آثار و مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تاریخ کی کتابوں سے رجوع کرنا پڑےگا۔
اطلاعات کے مطابق مصری قانوندان "منصور عبدالغفار" نے کہا ہے کہ قبر نبی (ص) کے ممکنہ انہدام کا سعودی منصوبہ در حقیقت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام آثار، نشانیاں اور افتخار و عظمت سے بھرپوری اسلامی تاریخ کو ـ مسلمانان عالم بالخصوص نوجوان نسل کے ذہنوں سے ـ مٹاکر محو کرنے کے نہایت خطرناک منصوبے کا حصہ ہے۔
انھوں نے کہا: قبر نبی (ص) کی طرف دست درازی عظیم ترین گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور کوئی بھی قانون اسلامی عمارتوں اور آثار بالخصوص قبر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
منصور عبدالغفار نے کہا: مسلمانوں کے مقدس مقامات کے انہدام کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں آنے والی نسلیں اسلام کی تاریخ و تہذیب کے ان آثار کو دیکھنے سے محروم ہوجائے گی۔
تحقیقات کے مطابق آل سعود نے توسیعی منصوبے کے بہانے اس شہر کی تین قدیمی مساجد کو گرانے کا نقشہ تیار کیا ہے اور اس منصوبے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مرقد منور اور متعدد صحابہ کی قبروں کے انہدام کے حوالے سے خدشے معرض وجود میں آئے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اسلامی میراث کے تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے "عرفان العلاوی" نے بھی خبردار کیا تھا کہ مدینہ میں عظیم تعمیری منصوبوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدفن پر سعودیوں کے ممکنہ حملے سے توجہ ہٹانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
جامعۃالازہر کی طرف سے اسلامی آثارکےانہدام کی شدید مذمت
مصر میں جامعۃالازہر کے ایک عالم دین نے کہا: اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی دور کا کسی ایک شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے نزدیک کسی بھی قابل احترام و توجہ کو منہدم نہیں کیا جاسکتا اور الازہر اور اس کے علماء کسی صورت میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے باقی ماندہ آثار کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہيں دیں گے۔
اطلاعات کے مطابق، اگر ایک طرف سے آل صہیون کی طرف سے مسجدالاقصی کو منہدم کرنے اور القدس شہر کو یہودیانے کی کوششیں ہورہی ہیں تو بلادالحرمین میں بھی آل سعود کی طرف سے مسجد الحرام اور مسجدالنبی (ص) میں اسلامی آثار کو منہدم کرنے اور مسلمانان عالم کے مقدس شہروں کو وہابیانے اور سعودیانے کی سازشیں زوروں پر چل رہی ہیں جن کی بنا پر مصر کی تاریخی اسلامی یونیورسٹی جامعۃالازہر کے علماء نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور مصری عالم دین "منصور مندور" نے العالم کے ساتھ اپنے مکالمے میں سعودی حکام سے مخاطب ہوکر کہا ہے: کسی کو بھی یہ حق نہيں پہنچتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے باقی ماندہ آثار کی طرف تعرض و تجاوز کا ہاتھ بڑھائے اور الازہر اور اس کے علماء مسجدالنبی (ص)، آنحضرت سے باقیماندہ "نخل و ستون"، آنحضرت کے تہجد کے مقام اور منبر اور دوسرے اسلامی اور نبوی آثار کی تخریب و انہدام کی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور کسی بھی انہیں منہدم کرنے کی اجازت نہيں دیں گے اور ان آثار کو بہرصورت تحفظ دینا چاہئے تا کہ مسلمان اپنے ماضی کو یاد کریں اور اس کا موجودہ صورت حال کے ساتھ موازنہ کریں۔
مندور نے کہا: شہروں کی توسیع پسندیدہ عمل ہے لیکن یہ عمل مسلمانوں کے مقدس اور قابل احترام مقامات کے انہدام کا سبب نہيں بننا چاہئے کیونکہ اسلامی اور تاریخی آثار تمام مسلمانوں کے ہیں چنانچہ اہم اسلامی شہروں میں کسی بھی تعمیری و توسیعی منصوبے پر عملدرآمد شروع کرنے سے قبل اسلامی فقہاء اور علماء سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ واضح ہوجائے کہ مذکورہ منصوبہ ان شہروں کے تشخص کے لئے خطرناک اور نقصان نہيں ہے اور تب اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ علماء اور دانشوروں کی رائے سے اس سلسلے میں استفادہ کرنا چاہئے تا کہ توسیع و تعمیر کا عمل عام طور پر فائدہ بخش ہو چنانچہ ہم شہروں کی توسیع کے خلاف نہيں ہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مقدس اور قابل احترام تاریخی اور تہذیبی آثار کو نقصان پہنچانے کے خلاف ہیں۔
Add new comment