قرآن مجيد ولايت اميرالمؤمنين (ع) کا گواہ

امام علی علیه السلام

"انما وليکم الله و رسوله و الذين آمنواالذين يقيمون الصلوه و يوتون الزکوه و هم راکعون"- (1)

تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پيغمبر اور وہ ايمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں خيرات ديتے ہيں- اسلام نے انساني اوہام اور بے بنياد اعتقادات کا خاتمہ کرديا اور معاشرتي لحاظ سے عقل ميں وہم کے اثرات کو اور حقيقت ميں خيال کے اثرات کو مٹا ديا اور حق کو علم و منطق کا محور و بنياد قرار ديا اور اسلام نے قرار ديا کہ عقيدے کي بنياد عقل قطعي يا نقل قطعي ہوتي ہے جس کو ہر حال ميں علم و دانستگي پر ختم ہونا چاہئے جس ميں کسي خطا اور تخلف کي گنجائش نہيں ہے اور اس اصول کے مطابق اکثريت يا اقليت کا اس ميں کوئي کردار نہيں ہے- عقلمند اور رشيد قوم وہ ہے جو حق کے تابع ہو خواہ وہ اقليت ميں ہو خواہ اکثريت ہے- اميرالمؤمنين عليہ السلام کي خلافت بلا فصل اکثريت يا اقليت کي رائے کے برعکس، عقلي ضروريات اور نقلي بديھيات ميں سے ہے اور يہ بحث کبروي لحاظ سے بھي اور تطبيقي لحاظ سے بھي اعلي ترين بحث ہے جس کي طرف توجہ دينا تمام مسلمانوں کے لئے ضروي ہے-

سب جانتے ہيں کہ "ولايت" قرآن اور اسلام کے احکام کے نفاذ کي ضامن ہے اور ولايت تمام انساني ميں شئون و معاملات ميں دين کے عملياتي (Operational) ہونے کي ضامن ہے- دين کے نفاذ کے لئے ضامن کي ضرورت ہے اور دين کے نفاذ کے ضامن کو تمام ديني علوم و معارف پر مسلط ہونا چاہئے بلکہ دين کو سب سے پہلے اسي ضامن کے اندر مجسم ہونا چاہئے اور اس کو دين کي عملي شکل کا آئينہ دار ہونا چاہئے اور عقل و نقل يعني منطق اور قرآن و سنت کے مطابق ايسا ضامن رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اميرالمؤمنين علي عليہ السلام کے سوا کوئي بھي نہيں ہوسکتا-

سراب کبھي بھي پياسوں کو سيراب نہيں کرتا اور کبھي بھي بے آب و گياہ صحرا ميں پھول نہيں اگتے- جو انسان توحيد و نبوت اور معاد و معارف دين اور شئونِ جمال و جلال و کمال ربوبي سے بے بہرہ ہو اور اسلامي فقاہت کے بحر مواج سے بے خبر ہے اور حتي کہ بعض اوقات ايک چھوٹي سي آيت شريفہ کا ترجمہ کرنے اور مطلب سمجھنے سے قاصر ہو وہ ولايت کے اعلي مقام پر بيٹھنے کا ہرگز لائق نہيں ہے- جہاں قرآن حکم ديتا ہے اور ايک انسان کو ولايت کے لئے منتخب کرتا ہے وہاں دوسروں کے لئے استدلال اور بحث و تمحيص کي گنجائش ہي باقي نہيں رہتي- جہاں تمام مفسرين و محدثين آيت ولايت کو خدا، رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور علي عليہ السلام ميں ـ جنہوں نے حالت رکوع ميں خيرات دي تھي ـ ميں منحصر سمجھتے ہيں، تو پھر دوسروں کي ولايت کے لئے کيا گنجائش ہوسکتي ہے؟ اور پھر قرآن مجيد نے دوسرے مقام پر اپنے انتخاب کا معيار بيان فرمايا: "إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ"- (2) بے شک اللہ تعالي نے اسے (طالوت كو) تم پرتر جيح دي ہے اور اسے علم اور جسماني طاقت ميں زيا دتي عطا کي- يہ آيت قرآني اور اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالي کا ارشاد ہے کہ صرف وہي انسان کامل عوام اور کا ولي اور حاکم ہوسکتا ہے جو جسماني لحاظ سے بے مثل و بے مانند ہو اور علم و دانش کے لحاظ سے سب سے اعلي مقام و مرتبے کا مالک ہو- اب سوال يہ ہے کہ صحابہ ميں کون تھا جو جسماني قوت اور علمي اہليت ميں علي ابن ابيطالب عليہ السلام کے سامنے اپنے وجود کا اظہار کرسکے؟ کون ہے جس نے اپني علمي اور جہادي معرکوں ميں اميرالمؤمنين جيسے تاريخي کارنامے تاريخ کے ماتھے پر رقم کئے ہوں؟ سوال يہ ہے کہ: کون پيغمبر اکرم (ص) کي خلافت اور جانشيني کي اہليت رکھتا ہے سوائے علي کے جو ہر لحاظ سے برگزيدہ ہيں؟ جب "لا فتي الا علي لاسيف الا ذوالفقار" (3) کا آسماني جملہ نازل ہوتا ہے اور جب رسول خدا (ص) فرماتے ہيں کہ: " أنا مدينة العلم وعلي بابها" (4) اور جب رسول اللہ اکرم (ص) نے جنگ خندق ميں علي (ع) کے ہاتھوں عمرو بن عبد ود کي ہلاکت اور احزاب کي شکست کے بعد فرمايا: "لمبارزة علي بن ابى طالب لعمرو بن عبدود يوم الخندق افضل من اعمال امتى إلى يوم القيامة" (5) تو کيا بحث و استدلال کے لئے کوئي گنجائش رہ سکتي ہے؟- ہمارا عقيدہ ہے کہ اگر دنيا سعادت کا چہرہ ديکھنا چاہتي ہے اس کو صرف اور صرف اميرالمؤمنين عليہ السلام کے در پر حاضر ہونا پڑے گا اور علم و فضيلت و کمال اور تمام الہي خصلتوں کے کے اس بحر بے ساحل کے سامنے زانوئے ادب خم کرنے پڑيں گے تا کہ دنيا اور آخرت کي سعادت کا حصول ممکن ہوسکے کيونکہ اس کے سوا سعادت کي طرف کوئي راستہ نہيں ہے- والسلام علي من اتبع الهدي.

مآخذ
1- سورہ مائدہ آيت 55-2-
 سورہ بقرہ آيت 247- "وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ-
3- كنز العمال المتقي الهندي ج 5 ص723- كشف الخفاء -إسماعيل بن محمد العجلونى الجراحى ج 2 ص363- ميزان الاعتدال ذہبي ج3 ص334- ترجمہ: علي (ع) کے سوا کوئي جوانمرد نہيں ہے اور ذوالفقار کے سوا کوئي تلوار نہيں ہے- "شاہ مردان شير يزدان قوت پروردگار * لافتي الا علي لاسيف الا ذوالفقار-
4- كنز العمال المتقي الهندي ج 13 ص 148- ترجمہ: ميں علم و دانش و حکمت کا شہر ہوں اور علي اس کا دروازہ ہيں-
5- المستدرك للحاكم النيسابوري ج 3  ص32- ترجمہ: خندق کے روز عمرو بن عبدود کے سامنے علي (ع) کا ميدان ميں آنا ميري امت کي قيامت تک کي عبادت سے افضل ہے-

 

www.tebyan.net

Add new comment