شام کے پاس کئی ٹن کیمیائی ہتھیار موجود ہیں: اسرائیل
اسرائیل کی جانب سے یہ تخمینہ شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے دو ہفتے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس حملے میں تقریباً 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اسرائیل ان ملکوں میں شامل ہے جو صدر اسد کی فوج پر کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ شام ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
اسرائیل کے ایک سینیئر فوجی عہدے دار نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کئی ٹن کیمیائی ہتھیار بدستور اسد کی فورسز کے قبضے میں ہیں۔
اسرائیل کے مقامی میڈیا کی کچھ رپورٹس میں ایک فوجی عہدے دار کے حوالے سے ، جس نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی تھی، بتایا ہے کہ اسد کی فورسز کے پاس تین ٹن کے لگ بھگ ہلاکت خیز کیمیائی مواد موجود ہے۔
سن 2013 میں طے پانے والے ایک معاہدے میں، جس کے ثالث روس اور امریکہ تھے، شام نے اپنے کیمیائی ہتھیار ضائع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی سے متعلق ایک گروپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ شام کے صوبے ادلیب میں 4 اپریل کوایک ممنوعہ زہر سے ملتے جلتے کیمیائی ہتھیار سے حملہ کیا گیا تھا۔
اپریل کی 6 تاریخ کو اسرائیل کے وزیر دفاع نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں سو فی صد یقین ہے کہ اس حملے کا حکم صدر اسد نے دیا تھا۔تاہم انہوں نے اپنے یقین کی وجہ نہیں بتائی۔
صدر اسد نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ شام نے 2013 کے معاہدے کے بعد اپنے تمام کیمیائی ہتھیار ختم کر دیے تھے اور اس کے بعد وہ کسی بھی طرح ان کا استعمال نہیں کر سکتا۔
اسرائیل اپنے شمالی پڑوس میں ہونے والی خانہ جنگی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ۔ اس نے زیادہ تر خود کو اس جنگ سے دور رکھا ہے اور کبھی کبھار وہاں فضائی حملے کرتا رہا ہے جس کے متعلق اس کا کہنا ہے کہ وہ حملے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی جانب سے ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر کیے گئے تھے۔
Add new comment