ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب ، حقیقت توحید و رسالت،مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
توحید کی حقیقت ،قسمیں اور تقاضے
یہ بات تو محقق اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور عرش پر مستوی ہے ،اس بات پر سب مسلمانوں ک ایمان ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ حقیقیت ہے کہ ایمان باللہ کے تقاضوں سے مسلمانوں کی اکثریت ناآشنا ہے،اس لیے وہ توحید کی حقیقت،اس کی قسموں اور تقاضوں سے غافل اور مشرکانہ عقیدوں میں مبتلا ہیں۔بنا بریں ضروری ہے کہ پہلے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب اور اس کے تقاضوں کو سمجھا جائے ،تاکہ توحید کی صحیح حقیقت سمجھ میں آ جائے ۔
اللہ کے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ ہر چیز کا رب اور مالک ہے ،وہی ہر چیز کا مالک اور اپنی مخلوق کا مدبر و منتظم ہے۔وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائےاور اس میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔نماز،روزہ،دعا و استغاثہ،خوف و رجاء اور ذلت و عاجزی سب اسی کا حق ہے۔نہ کسی کے لیے نماز پڑھی جائے ،نہ روزہ رکھا جائے،نہ کسی سے دعا و فریاد کی جائے ،نہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کا خوف رکھا جائے ،نہ امید کسی سے وابستہ کی جائے ۔اسی کے سامنے ذلت و عاجزی کا اظہار کیا جائے ۔اس کے علاوہ ایسی کوئی ذات نہیں کہ جس کے سامنے عبودیت وبندگی والی ذلت و عاجزی کا مظاہرہ کیا جائے۔وہ تمام صفات کمال سےمتصف اور ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔
اس اعتراب سے اللہ کے ماننے میں توحید کی تین قسمیں آ جاتی ہیں ۔
توحید ربوبیت
توحید الوہیت
توحید اسماء و صفات
توحید ربوبیت:
اس کا مطلب اس عقیدے پر یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا رب ہے،اس کے سوا کوئی رب نہیں۔رب کے لغوی معنی ہیں،مالک و مدبر(انتظام کرنے والا اور ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے والا)وہ اپنی مخلوقات کا مربی ہے ،کا مطلب ہو گا۔ان کو پیدا کرنے والا بھی وہی اکیلا ہے اور مالک بھی وہی ہےاور ان کے تمام معاملات کی تدبیر بھی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔پس توحید ربوبیت کے معنی ہوں گے کہ یہ اقرار کیا جائے کہ وہی مخلوق کا خالق و مالک ہے،وہی ان کو زندگی عطا کرنے والا اور مارنے والا ہے،وہی ان کا نافع اور ضار ہے،اضطرار اور مصیبت کے وقت وہی دعاؤں کا سننے والا اور فریاد رسی کرنے والا ہے،وہی دینے اور روکنے والا ہے،ساری کائنات اسی کی مخلوق ہے اور اسی کا حکم اس میں نافذ ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿٤٥
ترجمعہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورہ الاعراف ،آیت54)
قرآن کریم میں مذکورہ تمام باتوں کو بڑی وضاحت اور تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ توحید ربوبیت ہی توحید کی دوسری قسموں کے لیے بنیاد و اسا س ہے۔جب یہ مسلم ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے اور کائنات کا نظم و تدبیر بھی تمام تر اسی کے اختیار میں ہے،تو اس سے از کود یہ پہلو ثابت ہو جاتا ہے کہ عبادت کا مستحق بھی وہی ہے ،خشوع و خضوع کا اظہار بھی اسی کے سامنے کیا جانا چاہیے ،اسی کے لیے حمد و شکر کیا جانا چاہیے اور وہی دعا و استغاثہ کے لائق ہے۔اسی لیے کہ یہ سب باتیں اسی کے لیے زیبا ہیں جو خلق و امر کا مالک ہے۔بہ الفاط دیگر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ خالق و مالک اور مدبر و متصرف ہی اس بات کے لائق ہے کہ وہ جلال و جمال اور کمال کی صفات سے متصف ہو،اس لیے کہ رب العالمین وہی ہو سکتا ہے جو ان صفات کا مالک ہو ،ورنہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا نہ ہو ،سمیع و بصیر نہ ہو،ہر طرح کی قدرت سے بہرہ ور نہ ہو ،جو چاہے اُسے کرنے کا اختیار رکھنے والا نہ ہواور اپنے اقوال و افعال میں حکیم نہ ہو تو وہ رب نہیں ہو سکتا۔کیونکہ ان صفات سے محروم رب اپنی مخلوقات کا علم نہیں رکھ سکتا اور جو اپنی مخلوقات سے باخبر نہ ہو وہ ان کی حفاظت کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتا ہے ؟اور جو اپنی مخلوقات کی حفاظت نہ کر سکتا ہووہ رب کیونکر ہو سکتا ہے؟
بنا بریں جو لوگ اس بات کا تو اقرار کریں کہ کائنات کا خالق و رب اللہ ہی ہے (یعنی توحید ربوبیت کو تو مانیں)لیکن عبادت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کریں(یعنی توحید الوہیت کو تسلیم نہ کریں)اسی طرح وہ اللہ کی صفات کی نفی کریں،یا ان کو مخوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ دیں یا ان کی دور از کار توجیہہ اور فاسد تاویل کریں(یعنی توحید اسماء و صفات کا انکار کریں)تو اس کا واضح مطلب ہے کہ انہوں نے اس توحید کو نہیں مانا جو انہین دائرہ کفر و شرک سے نکال کر دائرہ ایمان میں لے آئے۔چنانچہ یہ واقع ہے کہ مشرکین مکہ اقرار تو کرتے تھے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اس کے باوجود اللہ نے ان کو مشرک کہا،کیوں؟اس لیے کہ انہوں نے یہ تو مانا کہ رب ایک ہی ہے ،لیکن یہ نہیں مانا کہ الہ (بھی) ایک ہی ہے،اور اس وجہ سے انہوں نے غیرو کو بھی عباد ت میں شریک کیا۔اس طرح انہوں نے اسماء صفات باری تعالیٰ میں بھی اللہ کو واحد نہیں مانااور اس کی بعض صفات کا انکار کیایا ان جیسی صفات مخلوق میں بھی تسلیم کیں۔اس لیے اللہ نے ان کی بابت فرمایا:
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴿٦۰١
ترجمعہ: اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں (سورہ یوسف،آیت 106)
یعنی انہوں نے یہ تو مانا کہ خالق،رازق اور زندگی اور موت دینے والا اللہ ہے،لیکن عبادت وہ غیروں کی بھی کرتے رہے ،یوں وہ اپنے ناقص ایمان کی وجہ سے ایمان باللہ کے با وجود مشرک ہی رہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ توحید ربوبیت کے ساتھ،توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات پر بھی ایمان رکھا جائے اس کے بغیر کوئی شخص بھی مومن اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
Add new comment