ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب،اربعین: بشریٰ للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین،مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور

کیا خود شافعین سے شفاعت کی درخواست کرنا (نہ کہ خدا سے ) بدعت نھیں ھے؟ شفاعت کی درخواست کے جائز ھونے پر کیا دلیل ھے؟

حقیقی شافعین سے شفاعت کی درخواست پیغمبر اکرم (ص)کے زمانے سے آج تک مسلمانوں کے درمیان ایک رائج عمل رھا ھے اور علمائے اسلام نے حقیقی شافعین کی شفاعت کی درخواست کو رد نھیں کیا سوائے دو افراد کے ۔
۱۔ ابن تیمیہ (آٹھویں صدی ہجری کے شروع میں )
۲۔ محمد بن عبدالوھاب (بارھویں صدی ہجری کے دوسرے دور میں )
ان دو افراد نے حقیقی شافعین سے شفاعت کی درخواست کو ممنوع قرار دیا، چنانچہ ان کا کہنا ھے: ”انبیاء ،ملائکہ اور اولیائے الٰھی ،بروز قیامت شفاعت کرنے کا حق رکھتے ھیں، لیکن شفاعت کو اس کے مالکِ حقیقی اور اس کی اجازت دینے والے یعنی خداوندعالم سے درخواست کرنا چائیے چنانچہ یوں کہنا چائے: پروردگارا! انبیاء اور اپنے دیگر نیک صالح بندوں کو روز قیامت میرا شافع قراردے۔
لیکن ھمیں اس بات کا حق نھیں ھے کہ یوں کھیں: اے پیغمبر ھماری شفاعت فرمائیں ۔ 1
قبل اس کے کہ ھم شفاعت کی درخواست کو ممنوع قرار دینے والوں کے دلائل پیش کریں پھلے قرآن و حدیث کی روشنی میں شفاعت کی درخواست کے جائز ھونے پر دلائل اور شواہد پیش کرتے ھیں:
 

۱۔شفاعت کی درخواست دعا کی درخواست ھے ۔

پیغمبر اکرم (ص)اور دیگر شافعین سے شفاعت کی درخواست دعا کی درخواست کے علاوہ کچھ نھیں ھے ان حضرات کی دعا ان کی عظمت اور مقام ومنزلت کی بناپر باب اجابت سے ٹکراتی ھے۔ جس کے نتیجہ میں گناھگار پررحمت خدا نازل ھوتی ھے۔
کسی مومن بھائی سے دعا کی درخواست میں ذرا بھی اشکال نھیں ھے ، پیغمبر اکرم (ص) سے دعا کی درخواست بھت بلند ھے اگر ھم کھتے ھیں: یا وجیھا عند اللہ اشفع لناعنداللہ، (اے وہ جس کی خدا کے نزدیک عظمت ومقام ھے خدا کے نزدیک ھماری شفاعت فرما) (یعنی آپ ھماری بخشش کے بارے میں خدا سے دعا فرمائیں )
اصولی طور پر احادیث کی کتابوں میں لفظ شفاعت دعا کے معنی میں زیادہ استعمال ھوا ھے یھاں تک کہ صحیح بخاری کے موٴلف (امام بخاری ) نے اپنی کتاب کے دوبابوں کے عنوانوںاسی لفظ شفاعت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے قائم کیا ھے، چنانچہ ان میں سے ایک امام سے مسلمانوں کی شفاعت کے بارے میں ھے اور دوسرا مسلمانوں سے مشرکین کا شفاعت طلب کرنے کے سلسلہ میں، جو کہ اس طرح ھیں:

الف۔ ”اذا استشفعوا الی الامام لیستسقي لھم، لم یردّھم“۔2
”جس وقت مسلمان ،امام سے شفاعت کی درخواست کریں کہ ان کے لئے باران رحمت طلب کرے تو امام کو ان کی درخواست ردّ نھیں کرنا چاہئے“۔

ب۔ ”اذا استشفع المشرکون بالمسلمین عند القحط“۔
”جس وقت مشرکین قحط سالی کے موقع پر مسلمانوں سے طلب شفاعت کریں“۔
یہ دونوں باب ھماری بات کے بھترین گواہ ھیں ، اس کے علاوہ ابن عباس ، پیغمبر اکرم (ص) سے ایک حدیث میں نقل کرتے ھیں:
”ما من رجل مسلم یموتُ فیقوم علی جنازتہ اربعونَ رجلاً لایشرکون بالله شیئاً الا شفعھم الله فیہ“۔ 3
جب کسی مسلمان کا انتقال ھوجائے اور اس کے جنازہ پر خدا کے ساتھ شرک نہ کرنے والے چالیس افراد نماز پڑھیں تو خداوندعالم اس کے بارے میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ھے“۔
لہٰذا اس شخص کے بارے میں ان چالیس لوگوں کی شفاعت اس کے علاوہ کچھ نھیں ھے کہ یہ لوگ اس کے جنازہ پر خدا سے اس کے لئے طلب رحمت و مغفرت کرتے ھوئے کھتے ھیں: ”اللھم اغفر لہ“، (پالنے والے! اس مرد مومن کو بخش دے)
پس اگر شفاعت کی حقیقت ”دعا“ ھے تو پھر دعا کی درخواست حرام کیسے ھوسکتی ھے؟!
 

۲۔ حدیث انس اور شفاعت کی درخواست

صاحب سنن ترمذی ؛ انس بن مالک سے نقل کرتے ھیں کہ انھوں نے نقل کیا:
”ساٴلت النبي اٴن یشفَع لي یومَ القیامةِ، فقال: اٴنا فاعل، قلتُ: فاٴین اطلبک؟ فقال: علی الصراط“ 4
”انس بن مالک نے پیغمبر اکرم (ص) سے درخواست کی کہ روز قیامت میری شفاعت فرمائےے گا، آنحضرت (ص) نے قبول کرتے ھوئے فرمایا: ”میں اس کام کو انجام دوں گا“۔
اس کے بعد عرض کی: اے میرے آقا آپ سے کھاں ملاقات ھوگی؟
آنحضرت (ص) نے فرمایا: صراط کے پاس۔
انس بن مالک نے (خالی الذہن ) آنحضرت (ص) سے شفاعت کی درخواست کی، اور پیغمبر اکرم (ص) نے بھی مثبت جواب دیا، لیکن انس کے ذہن میں ذرا بھی یہ بات نھیں آئی کہ شفاعت کی درخواست ایک قسم کا شرک ھے۔
 

۳۔ سواد بن عازب اور شفاعت کی درخواست

سواد بن عازب (جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور ناصرین میں سے تھے) نے پیغمبر اکرم (ص) کی مدح میں کچھ اشعار کھے ھیں، جن میں وہ کھتے ھیں:
و کن لي شفیعاً یوم لا ذو شفاعةبمغنٍ فتیلاً عن سواد بن عازب 5
”یا رسول اللہ! روز قیامت میری شفاعت فرمائےے گا، جس روز دوسروں کی شفاعت سواد بن عازب کو خرمے کی گٹھلی برابر فائدہ نھیں پہنچائے گی“۔
 

۴۔ حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبر اکرم سے شفاعت کی درخواست کرنا

جس وقت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کے غسل و کفن سے فارغ ھوئے تو آنحضرت (ص) کے چھرہٴ اقدس کو کھولا اور عرض کی:
”باٴبی اٴنت و اُمّي طبتَ حیاً و طبتَ میتاً واذکرنا عند ربک “6
”میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ حیات و موت کے عالم میں پاک و پاکیزہ ھیں، مجھے بھی اپنے پروردگار کے حضور یاد کیجئے گا“۔
عرب لوگ جملہ ”واذکرني عند ربک“ کو شفاعت کے بارے میں استعمال کرتے ھیں جیسا کہ جناب یوسف علیہ السلام نے اپنے اس قیدی ساتھی سے کھا جو کہ آپ کی پیشن گوئی کے مطابق بادشاہ کا ساقی ھونے والا تھا :
((وَاذْکُرنِي عِنْدَ رَبِّکَ)) 7
”اور ذرا اپنے مالک سے میرا بھی ذکر کردینا“
آخر میں یہ بات عرض کرتے چلےں کہ انبیاء علیھم السلام سے توسل اور ان کو وسیلہ قرار دینے کے سلسلہ میں جو آیات و روایات بیان ھوئی ھیں سبھی ایک طرح سے شفاعت کی درخواست کے بارے میں ھیں۔
 

شفاعت کی درخواست کو ممنوع قرار دینے والوں کے دلائل

طلب شفاعت کو ممنوع قرار دینے والے اس کی حرمت پر جن چیزوں سے استدلال کرتے ھیں ان کو ھم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ھیں:
 

۱۔ شفاعت کی درخواست شرک ھے!

وہ لوگ کھتے ھیں: ھمیں کہنا چاہئے: ”اللھم اجعلنا ممن تنالہ شفاعة محمد“ (پروردگارا! ھمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جن کو (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شفاعت نصیب ھوگی۔)
اور ھمیں ھرگز یہ کہنے کا حق نھیں ھے: ”یا محمد اشفع لنا عند اللہ“ ( یا رسول اللہ! خدا کے نزدیک ھمارے شفاعت فرمائیں)، اگرچہ یہ صحیح ھے کہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کو شفاعت کا حق عطا کیا ھے، لیکن ھمیں آنحضرت (ص) سے شفاعت طلب کرنے سے روکا ھے، لہٰذا ھمیں خدا سے شفاعت طلب کرنا چاہئے جس نے آنحضرت (ص) کو حق شفاعت عطا فرمایا ھے۔
جواب:
قرآنی آیات اس بات کی گواھی دیتی ھیں کہ جن حضرات نے حق و حقیقت کی گواھی دی ھے وہ روز قیامت شفاعت کریں گے اور ایک طرح سے شفاعت کے مالک ھیں، (البتہ خداوندعالم کی اجازت سے اور محدود مالکیت کے ساتھ)
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
(( وَلاَیَمْلِکُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ)) 8
”اور اس کے علاوہ جنھیں یہ لوگ پکارتے ھیں وہ سفارش ( شفاعت) کابھی اختیار نھیں رکھتے مگر وہ جو سمجھ بوجھ کر حق کی گواھی دینے والے ھیں“۔
لفظ ”اِلّا“ حرف استثناء ھے جس کے ذریعہ حق کی گواھی دینے والے گروہ کی مالکیت کی حکایت ھوتی ھے۔
شفاعت کے مالک ھونے کامطلب یہ ھے کہ خداوندعالم کی طرف سے ان کو اجازت دی جاچکی ھے۔
اب یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب خداوندعالم نے ایسے حضرات کو یہ حق دیدیا ھے تو پھر ایسے شخص سے شفاعت کی درخواست میں کیا حرج ھے؟
اگرچہ شفاعت کی درخواست کرنے کا لازمہ یہ نھیں ھے کہ وہ قبول بھی ھوجائے، بلکہ شفاعت کی اجازت رکھنے والے حضرات بھی خاص شرائط کے تحت انسان کی شفاعت کریں گے۔
واقعاًوھابی فرقہ کے بانی کی بات کتنی عجیب ھے، چنانچہ اس کا کہنا ھے: ”خداوندعالم نے اپنے اولیاء کو شفاعت کا حق دیا ھے لیکن ھمیں ان سے شفاعت کی درخواست سے منع کیا ھے“۔9
جواب:
اولاً: خداوندعالم نے کونسی آیت میں (سچے) شافعین سے شفاعت کی درخواست کو ممنوع قرار دیا ھے؟ اگر یہ ممنوعیت اس وجہ سے ھے کہ ایسی درخواست شرک ھے، تعریف ”شرک فی العبادہ“ کی مفصل بحت کے مطابق ایسی بلند ہستی کہ جس کی بندگی کا ھم اعتراف کرتے ھیں اس کو خدا یا خدائی کاموں میں مصدر اور مرکز نھیں مانتے، اس سے طلب شفاعت کرنا اس کی عبادت اور پرستش نھیں ھے۔
ثانیاً: ایسی گفتگو ایک طرح سے ضد و نقیض باتوں کی مانند ھے کیونکہ جب ایک جانب خداوندعالم نے اپنے اولیاء کو حق شفاعت عطا فرمایا ھے تاکہ دوسرے افراد خدا کے شافعین سے فیضیاب ھوسکیں، تو پھر دوسری جانب اس درخواست کو کیوں ممنوع قرار دے دیگا؟
 

۲۔ مشرکین کا شرک اور ان کا بتوں سے شفاعت طلب کرنا

اولیائے الٰھی سے شفاعت کی درخواست کی حرمت پر ان لوگوں کی دوسری دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے مشرکین کے شرک کی وجہ یہ تھی کہ وہ بتوں سے شفاعت طلب کرتے تھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
((وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ الله۔۔۔)) 10
”اوریہ لوگ خدا کو چھوڑکر ان کی پرستش کرتے ھیںجو نہ نقصان پہنچا سکتے ھیں اور نہ فائدہ اوریہ لوگ کھتے ھیں کہ یہ خدا کے یھاں ھماری سفارش کرنے والے ھیں“۔
اس بنا پر پیغمبر اور اولیائے الٰھی سے ھر طرح کی شفاعت طلب کرنا بتوں سے شفاعت طلب کرنے کی طرح ھے۔ 11
جواب:
اولاً: شفاعت کی ان دونوں درخواستوں میں واضح فرق ھے کیونکہ مشرکین بتوں کو خدا مانتے تھے اوران کو شفاعت کا حقیقی مالک سمجھتے تھے۔
جبکہ ایک موحد اور مسلمان شخص انبیاء اور اولیائے الٰھی کو خدا کے بندے سمجھتا ھے جو خدا کی طرف سے اس مقام کے مالک ھیں، لہٰذا ان دونوں درخواستوں کو ایک کس طرح قرار دیا جاسکتا ھے؟
ثانیاً: مشرکین بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ان کی عبادت کے بعد ان سے طلب شفاعت کیا کرتے تھے، انھیں دو کاموں کی طرف آیات اشارہ کرتی ھیں، پھلے عمل کی طرف آیت کا یہ فقرہ: ((وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ )) اور دوسرے عمل کی طرف آیت کا دوسرا فقرہ: ((وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ الله))، اشارہ کرتا ھے، جبکہ مسلمان صرف اور صرف خدا کی عبادت کرتے ھیں اور خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کے بعد اس کے اولیاء سے طلب شفاعت کرتے ھیں۔
اس بیان سے واضح ھوجاتا ھے کہ ان دونوں درخواستوں کو ایک جیسی قرار دینا بالکل بے بنیاد ھے۔
 

۳۔ مُردوں سے شفاعت کی درخواست لغو اور حرام ھے۔

ان لوگوں کی آخری دلیل یہ ھے کہ جو اولیائے الٰھی اس دنیا سے کوچ کرچکے ھیں ان سے شفاعت کی درخواست فضول اور حرام ھے۔
اس دلیل کا جواب برزخی حیات کے پیش نظر روشن ھوجاتا ھے کیونکہ راہ خدا میں شھید ھونے والے افراد مردہ نھیں ھوتے بلکہ زندہ ھوتے ھیں، تو شہداء کے پیغمبر بطریق اولی زندہ ھیں۔
اور اگر فرض کرلیں کہ انبیاء علیھم السلام مرچکے ھیں اور وہ ھماری باتوں کو نھیں سنتے ، لیکن اس صورت میں ان سے شفاعت کی درخواست کرنا لغو ھوگا حرام نھیں۔
اگر کوئی انسان کنویں میں گرجائے تو اگر وہ کسی راہگیر سے مدد طلب کرے تو اس کا یہ کام عاقلانہ ھے لیکن اگر کنویں میں لگے پتھروں سے نجات کی درخواست کرے تو اس کا یہ کام غیر مفید ھوگا، نہ کہ حرام اور نہ ھی شرک در عبادت۔

منبع: وھابیت، مبانی فکری و کارنامہ عملی، استاد جعفر سبحانی تبریزی، ص ۲۹۷ تا ۳۰۴۔ترجمہ: اقبال حیدر حیدری (گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)

1. کشف الشبھات ص۱۶۔
2. صحیح بخاری،ج۲، صفحہ۲۹ تا ۳۰۔
3. صحیح مسلم ج،۳، صفحہ ۵۴۔
4. سنن ترمذی، ج۴، صفحہ ۶۲۱، حدیث ۲۴۳۳۔
5. الاصابة، ج۲، صفحہ۹۶،شمارہ ترجمہ۳۵۸۳۔
6. نہج البلاغہ، خطبہ۲۳۰۔
7. سورہ یوسف، آیت۴۲ ۔
8. سورہ زخرف ، آیت۸۶ ۔
9. کشف الشبھات ، صفحہ۱۶۔
10. سورہ یونس، آیت ۱۸۔
11. کشف الشبھات ، صفحہ۱۴۔

ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب ،  اربعین: بشریٰ للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین،مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور

Add new comment