ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب ، امت محمدیہ کا شرف اور فضیلت،مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [آل عمران: 110]
تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے،تم لوگوں کو اچھےکاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ امتِ محمدیہ کی تعریف ہے اس لئے کہ انہوں نے اقامتِ دین میں اپنا حصہ ڈالا اور دینی اوصاف بھی حاصل کئے، لہذا اگر کوئی برائی سے نہ روکے اور سب گناہوں میں لگ جائیں تو یہ تعریفی کلمات کے مستحق نہ ہونگے، بلکہ انہیں مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اور پھر اسی وجہ سے وہ تباہ و برباد بھی ہوجائیں گے۔
اس امت کی ٖفضیلت کے باعث اللہ نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کر دیا، اللہ نے فرمایا: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہے [آل عمران: 19]
اسی لئے اللہ تعالی اس کے علاوہ کسی اور دین کو قبول بھی نہیں فرمائیں گے، اسکا اعلان اللہ نے قرآن میں یوں کیا: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا [آل عمران: 85]
اسی پر بس نہیں بلکہ ساری مخلوق کو اس دین کی پیروی کرنے کا بھی حکم دیا، فرمانِ نبوی ہے: (قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺکی جان ہے، اس دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے وہ یہودی ہو یا عیسائی میری دعوت کو سنے اور اس پر ایمان نہ لائے وہ یقینا جہنمی ہو گا[صحیح مسلم]
اس سے بڑھ کر اللہ تعالی نے تمام کے تمام انبیاء سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کی بعثت انکی زندگی میں ہوجائے تو تمام اس پر ایمان لاؤ گے، فرمانِ نبوی ہے: اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری ہی اتباع کرنی پڑتی۔[مسند احمد]
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: اسلام اس دنیا کے کونے کونے تک پہنچے گا۔ فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میرے لئے زمین کو سکیڑ دیا ، چنانچہ میری نظر مشرق و مغرب پر پڑی اور میری امت کی حکمرانی وہیں تک پہنچے گی جہاں تک میری نظر پڑی۔‘‘ [صحیح مسلم]
ایسے ہی اللہ تعالی نے بھی اس امت کے پوری دنیا میں پھیل جانے کا وعدہ کیا۔ فرمانِ نبوی ہے: ’’جہاں جہاں یہ دن اور رات ہیں وہیں تک یہ دین بھی پہنچے گا، چاہے کسی کو اچھا لگے یا بُرا اللہ تعالی اس زمین پر کچے مکانوں سے لیکر پختہ مکانوں تک اس دین کو ضرور پہنچائے گا۔‘‘ [مسند احمد]
اللہ تعالی نے اس امت کے دین کی حفاظت کابھی ذمہ لیا اور غالب کرنے کا وعدہ بھی کیا، اللہ کا فرمان ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [التوبة: 33]
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کردے۔ خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو
اس امت کو ملنے والی کتاب سراپہ نور ، ہدایت، اور نصیحت ہے، سابقہ تمام کتابوں کی نگران، محافظ، اور انکی امین ہے، اللہ نے اسی لئے فرمایا:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ [المائدة: 48]
’’اور ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اور اس کی جامع و نگران بھی ہے۔‘‘
اللہ نے اس کتاب کو ہمہ قسم کی تبدیلی، تحریف، کمی اور زیادتی سے محفوظ فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[الحجر: 9]
’’یقینا ہم نے ہی ذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
یہ بھی قرآنی حفاظت کا ہی حصہ ہے کہ اللہ تعالی نے سنتِ نبوی کی حفاظت سند اور متن کے ذریعے کی ، سنتِ نبوی وحی کی دو اقسام میں سے ایک ہے، ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک کوئی ایسی امت نہیں گزری جنہوں نے اپنے نبی کی احادیث ، نسب ناموں کو اس امت محمدیہ کی طرح محفوظ کیا ہو"
ہمارے پیارے نبی ﷺ افضل ترین پیغمبر ہیں، آپ نے اپنے بارے میں فرمایا: ’’میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سربراہ ہونگا۔‘‘
اسی لئے معراج کے موقعہ پر بیت المقدس میں تمام انبیاء نے آپکی اقتداء میں نماز ادا کی،انہیں اللہ تعالی نے اقوال زریں (جوامع الکلم) کی نعمت سے نوازا، اور ساری خلقت کیلئے انہیں رسول بنایا۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [سبأ: 28]
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔
آپ خاتم الانبیاء ہیں، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس امت نے سابقہ امتوں کے مقابلے میں بہت سے فضائل اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے حاصل کئے، مثلا: آپ ساری کائنات سے افضل ،اللہ کے ہاں تمام انبیاء سے مکرم، آپکو ایسی شریعت ملی جواس سے پہلے کسی کو نہ مل سکی، مزید برآن یہ کہ اس امت کے منہج کے مطابق کیا گیا تھوڑا عمل بھی دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے"
آپکے صحابہ رضی اللہ عنہم انبیاء کے بعد بلند ترین مقام رکھتے ہیں، فرمانِ نبوی ہے: ’’سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں۔‘‘ [صحیح بخاری]
اللہ نے وقت کے ساتھ ساتھ دین کی حفاظت کرنے والے لوگوں کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔ فرمان ِ نبوی ہے: ’’میری امت کا ایک گروہ حق بات کیلئے ہمیشہ غالب رہے گا، انہیں کوئی سازش کرنے والا نقصان نہیں پہنچا سکتا، حتی کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ اسی حالت میں ہوں۔‘‘ [صحیح مسلم]
اس امت کے علماء انبیاء کے ورثاء ہیں جو کبھی گمراہی پر اکٹھے نہیں ہوسکتے اور ہر سو سالہ عرصے پر اللہ تعالیٰ اس امت میں ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس امت کی تجدید کریگا۔ فرمانِ نبوی ہے: ’’یقینا اللہ تعالی اس امت میں ہر صدی کے شروع میں اسکی تجدید کیلئے کسی کو ضرور بھیجے گا۔‘‘ [ابوداؤد]
یہ امت سابقہ امتوں کے بارے میں گواہی دے گی کہ انہیں انکے رسولوں نے ڈرایا تھا۔ فرمانِ باری تعالی ہے: لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔[البقرة: 143]
اور یہ امت تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ہے [البقرة: 143]
اس امت کے تمام شرعی احکام مکمل ، آسان اور فطرتِ سلیم کے موافق ہیں ، اللہ نے فرمایا: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ اللہ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے [البقرة: 185]
سابقہ امتوں پر شرعی احکامات میں بہت سختیاں تھیں لیکن اللہ نے اس امت کے احکامات بہت آسان بنائے، مثلا: اللہ تعالی نے ساری زمین کو نماز کی جگہ اور مٹی کو طہارت -تیمم- کا ذریعہ بنایا۔
تیمم اور موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی گئی، سابقہ امتوں کی بنسبت اس امت کی عبادات بھی افضل ہیں ، یہ گنتی کی پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، لیکن اجر میں پوری پچاس ہیں، نماز میں یہ صف بندی کریں تو وہ اللہ کے ہاں فرشتوں کی صف بندی کی طرح ہے ، کیونکہ وہ بھی پہلے اگلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں فرمانِ نبوی ہے:’’ ہمیں اللہ نے تین چیزوں کی وجہ سے لوگوں پر برتری دی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی نے ہماری صفوں کو فرشتوں کی صفوں جیسا بنایا اور ساری کی ساری زمین کو جائے نماز قرار دے دیا، اور پانی کی عدم موجودگی میں مٹی کو ذریعہ طہارت بنادیا۔‘‘ [صحیح مسلم]
اس امت کیلئے اللہ تعالی نے کھانے پینے کیلئے بہت سی پاکیزہ اشیاء کو حلال قرار دیا تا کہ انہیں استعمال کر کے اللہ کی اطاعت کر سکیں، اسی لئے ہم سے پہلی اقوام پر حلال چیزوں کو صرف اس لئے حرام قرار دیا گیا کہ انہوں نے ظلم و زیادتیاں کی، اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
اسی ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو پہلے ان کےلئے حلال تھیں [النساء: 160]
اور اسی طرح اللہ تعالی نے اس امت کیلئے بہت سی آسانیاں پیدا کیں، فرمانِ باری تعالی ہے: وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ان کے بوجھ ان پر سے اتاردئے اور وہ بندشیں کھول دی جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے [الأعراف: 157]
مثلا: پہلے توبہ کرنے کیلئے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے، قرآن مجید میں فرمایا: فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ اپنے خالق کے حضور توبہ کیلئے اپنے آپ کو قتل کرو۔ تمہارے رب کے ہاں یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہے [البقرة: 54]
جبکہ اس امت کیلئے توبہ کا طریقہ کار بہت ہی آسان ہےجسکے یہ تین آسان مرحلے ہیں، گناہ چھوڑ دیں، گناہ کرنے پر پشیمان ہوں،اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم ہو۔
یہود کیلئے تورات کے مطابق قتل یا زخمی کرنے کی صورت میں قصاص لینا ضروری تھا، وہ کسی حالت میں بھی دیت نہیں لے سکتے تھے، جبکہ عیسائیت میں صرف اور صرف دیت ہی لی جاسکتی تھی قصاص کی کوئی شکل نہیں تھی، لیکن ہماری امت کیلئے اللہ تعالی نے تین اختیارات بنا دئے، قصاص، یا دیت، یا معاف کرنا، اسی بارے میں فرمایا: ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ یہ تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے [البقرة: 178]
ہماری اس امت کیلئے اللہ نے مالِ غنیمت کو حلال قرار دیا، جبکہ سابقہ امتوں پر یہ حرام تھا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا جو کچھ تم نے بطور غنیمت حاصل کیا ہے اسے تم کھا سکتے ہو [الأنفال: 69]
غلطی ، بھول چوک یا جبرا کروائے جانے والے گناہوں کو اللہ نے معاف کر دیا ہے، اسی طرح دل میں اگر کوئی وسوسہ پیدا ہو اس پر بھی پکڑ نہیں ہوگی جب تک انسان اس کے مطابق قول یا فعل سے عمل نہ کرے۔
گذشتہ امتوں کو عذاب دینے کیلئے اللہ نے وبائی امراض نازل فرمائے جبکہ اس امت کیلئے وبائی امراض سے ایمان کی حالت میں فوت ہونیوالے لوگوں کو شہید کا درجہ دیا، فرمانِ نبوی ہے: ’’طاعون ہر مسلم کیلئے شہادت کا سبب ہے۔ [متفق علیہ]
اس امت کا رعب اللہ نے تمام کے دلوں میں ڈال دیا ہے، بشرطیکہ اپنے دین پر قائم رہے، فرمانِ رسالت ہے: ’’اللہ نے میری اتنی مدد کی کہ اگر دشمن ایک ماہ کی مسافت پر بھی ہو تب بھی ہمارے ڈر سے کانپتا ہے۔‘‘
اس امت کے مقام و مرتبہ کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں دیگر قوموں کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا، اسی لئے قبروں پر عمارت اور یا انہیں سجدہ گاہ بنانے سے روکا گیا، فرمایا:’’تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاءاور نیک صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا تھا اور میں تمہیں اس سے روکتا ہو۔‘‘ [صحیح مسلم]
اسی طرح تصاویر سے بھی منع فرمایا اور کہا - ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق- جب انہوں نے کنیسہ میں تصاویر دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو یہ اسکی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے اور وہاں اسی قسم کی تصاویر بنالیتے، اللہ کے ہاں انکا درجہ بد ترین مخلوق کا ہے۔ [صحیح بخاری]
ظاہری طور پر بھی دیگر اقوام کی مشابہت سے منع کیا گیا، اسی لئے داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا اور مونچھوں کے کٹوانے کا حکم دیا، ادائیگی عبادت میں بھی انکی مشابہت سے روکا ؛ چنانچہ روزہ کیلئے سحری کرنا اہل کتاب کی مخالفت ہے، اور اسی طرح خانہ بدوشی اور جانوروں جیسی زندگی گزارنے سے بھی منع کیا، اور اللہ تعالی نے اس امت کو دو عیدیں عنائیت کیں جس میں تیسری عید کی گنجائش نہیں۔
’’اللہ نے اس امت کی زندگی کم رکھی ہے فرمانِ نبوی ہے: (تمہاری زندگی گذشتہ امتوں کے مقابلے میں اتنی ہیں جیسے ایک دن کے مقابلے میں عصر سے مغرب کا وقت۔‘‘ [صحیح بخاری]
اللہ تعالی نے ساٹھ سے ستر سال کے درمیان اس امت کی عمریں مقرر کی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ امت با برکت امت ہے فرمانِ نبوی ہے: ’’میری امت کی مثال ایک بارش کی مانند ہے۔‘‘ [سنن ترمذی]
اللہ نے ان کیلئے صبح کے وقت میں برکت رکھی، دن اور رات میں برکت ڈالی ، چنانچہ دن کے وقت یا رات کے وقت کئے ہوئے بعض اعمال کئی مہینوں اور سالوں کی عبادت سے بھی افضل ہیں، جیسے لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، صرف عرفہ کے دن کا روزہ سابقہ اور آئندہ ایک، ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، ہرماہ میں تین روزے رکھنا سارے سال کے روزے رکھنے کے برابر ہے۔
اللہ نے اس امت کو با برکت جگہیں بھی عنائت فرمائی، مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نماز سے افضل ہے، اور مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار نماز سے افضل ہے، اور مسجد اقصی میں ایک نماز پانچ سو نمازوں سے بہتر ہے۔
اللہ نے چھوٹے چھوٹے اعمال پر بہت ہی بڑا ثواب مقرر کیا۔ مثلا: جس نے جماعت کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی گویا کہ اس نے آدھی رات قیام کیا، اور جس نے صبح فجر کی نماز بھی با جماعت ادا کی گویا کہ اس نے ساری رات قیام کیا، اور جس نے ایک حرف قرآن مجید کا پڑھا اسکے لئے ہر حرف کے بدلے نیکیاں ہیں۔
جس نے سو بار "سبحان الله وبحمده" پڑھا اسکے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور جس نے "سبحان الله وبحمده " کہا اس کیلئے جنت میں کھجور کا درخت لگا دیا جاتا ہے ، اور جس نے "سبحان الله" سو بار کہا اس کیلئے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا ایک ہزار برائیاں مٹا دی جاتی ہیں، اور جس نے ایک دن میں بارہ (سنن مؤکدہ) ادا کیں اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک عالی شان محل بنا دے گا۔
یہ ایسی امت ہے جس کو اچھے کاموں کا موقعہ دیا گیا، تمام دنوں میں افضل ترین دن (جمعۃ المبارک) عطا کیا گیا، فرمانِ رسالت ہے: ’’ہمیں جمعہ کے دن کی اللہ کی جانب سے راہنمائی ملی اور سابقہ قوموں کو اس سے محروم رکھا۔‘‘ [صحیح مسلم]
ایک دوسرے کے سلام کرنے پر اللہ نے بہت زیادہ ثواب مقرر کیا جو کہ کسی دوسری امت کو نہیں ملا فرمانِ نبوی ہے: ’’یہودیوں کو سلام اور آمین کہنے پر جتنا تم سے حسد ہے کسی اور چیز پر نہیں۔‘‘
ان سب سے بڑھ کر اللہ نے اس امت کا ثواب دوہرا رکھا ، فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [الحديد: 28]
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا کرے گا۔
اسی بارے میں فرمانِ رسالت ہے: ’’اللہ نے تمہیں دوہرا اجر دیا ، اس پر یہود و نصاری نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے: ہم نے کام زیادہ کیا اور مزدوری بہت کم ملی ! اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا حق مارا ہے؟ کہنے لگے: نہیں، اللہ نے فرمایا: تو یہ میرا فضل ہے میں جسے مرضی عطا کروں۔‘‘ [صحیح بخاری]
آخر زمانے میں دین پر قائم شخص کیلئے اللہ تعالی نے پچاس صحابہ کے برابر ثواب رکھاہے ، اور صحابہ کرام کیلئے ان سے بھی زیادہ مقرر کیا، اور فتنوں کے دور میں عبادت کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہجرت کی طرح ہے۔
امت محمدیہ کی یہ بھی فضیلت ہے کہ یہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے اور انہیں ایمان لانے پر دوہرا اجر ملتا ہے، فرمان نبوی ہے: ’’جو کوئی ایمان لے آئے اسکے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ (52) وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (53) أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ [القصص: 52- 54]
’’جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب (تورات) دی تھی وہی اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں[52] اور جب انھیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں: ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ (قرآن) ہمارے پروردگار کی طرف سے سچی کتاب ہے، ہم تو اس سے پہلے (بھی اللہ کے سچے) فرمانبردار تھے۔[53] یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبارہ دیا جائے گا۔‘‘
اللہ نے جیسے بہترین دین دیا ہے اس امت کو دنیا سے بھی نوازا اور اتنا کچھ عنایت کیا جو اس سے پہلے لوگوں کو عنائت نہیں کیا، فرمانِ نبوی ہے: ’’مجھے اللہ نے دو خزانے دئے ہیں یعنی سونا اور چاندی۔‘‘ [صحیح مسلم]
ایک روایت میں ہے کہ ’’اللہ تعالی نے مجھے خواب میں زمین کے خزانوں کی چابیاں عنائت فرمائیں۔‘‘ [صحیح بخاری]
اس فرمان نبوی کے بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دنیا سے چلے گئے ہیں، اور آپ کے فرمان کا مصداق تم بن رہے ہو" یعنی تم اس زمین کے خزانے نکال رہے ہو۔
یہ بھی اس امت کا شرف ہے کہ اللہ اسے یک بار بھوک ،یا پانی میں غرق نہیں فرمائے گا، جیسےسابقہ امتوں کے ساتھ ہوا، انہیں اللہ نے آندھی، زمین میں دھنسنا، تیز آواز، اور پانی میں غرق کیا، فرمانِ نبوی ہے:’’میں نے اللہ سے تین چیزوں کا مطالبہ کیا ان میں سے اللہ نے دو عطا کردی ، میں نے دعا کی اے اللہ ! میری امت کو بھوک سے تباہ مت کرنا،اللہ نے منظور کر لی، میں نے کہا: میری امت کو پانی میں غرق نہیں کرنا،اللہ نے یہ بھی منظور کر لیا، پھر میں نے سوال کیا: اے اللہ انہیں داخلی اختلافات سے بچانا، اللہ نے اسے قبول نہ کیا۔‘‘ [صحیح مسلم]
اللہ نے آپکی یہ دعا بھی قبول کی کہ ان پر خارجی دشمن غالب نہ آئے، اور اللہ تعالی نے اس امت کو دو امان بھی دیےہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس امت کیلئے امان تھی، اور یہ آپ کی وفات کے ساتھ ختم ہوگئی، اور دوسری امان باقی ہے، اور وہ استغفار کرنا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
یہ مناسب نہیں کہ اللہ انہیں عذاب دے اور آپ ان میں موجود ہوں اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو عذاب دے جو استغفار کرتے ہوں [الأنفال: 33]
اس امت کے افراد زندہ ہوں یا فوت ہوجائیں ہر حالت میں اللہ کے ہاں معزز ہیں، اسی لئے لحد (قبر کے گھڑے کے سائیڈ میں بنائی جانیوالی قبرجسے ہمارے ہاں بغلی قبر بھی کہتے ہیں) ہمارے لئے اور شق قبر (قبر کے گھڑے کے درمیان میں بنائی جانیوالی قبر)کسی اور کیلئے، سب سے پہلے جن کی قبر قیامت کے دن کھلے گی وہ ہمارے پیارے نبیﷺ ہی ہونگے اور انہی کی سب سے پہلے سفارش قبول کی جائے گی۔
اس امت کو قیامت کے دن میدان محشر میں وضو کے اعضاء سے پہچانا جا سکے گا، آپﷺ نے فرمایا:’’میری امت جب قیامت کے دن آئے گی تو ان کے اعضائے وضو چمکتے ہونگے۔‘‘ [صحیح بخاری]
ہر نبی کو اللہ نے ایک مقبول دعا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا کو اپنی امت کی خاطرروزِ محشر کیلئے محفوظ کر لیا، فرمانِ رسالت ہے: ’’ہر نبی کی ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے، چنانچہ ہر نبی نے اپنے اس اختیار کو استعمال کر لیا، اور میں نے اسکو اپنی امت کی شفاعت کی خاطر محفوظ کر لیا، ان شاء اللہ اسکا فائدہ میرے ہر ایسے امتی کو ہوگا جو شرک کی حالت میں فوت نہ ہوا ہو۔‘‘ [متفق علیہ]
سب سے پہلے جو امت پل صراط کو عبور کرے گی وہ یہ ہی امت ہے، فرمانِ رسالت ہے: ’’جہنم پر پل صراط بنایا جائے گا، پھر میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو عبور کرینگے۔‘‘ [صحیح مسلم]
ہم اس دنیا میں سب سے آخر میں ہیں لیکن روزِ قیامت سب سے آگے ہونگے، چنانچہ ہمارے نبی محترم سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوائیں گے، فرمانِ رسالت ہے: (میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر پہنچ کر اسے کھلواؤں گا، جس پر دربان کہے گا: آپ کون؟، تو میں جواب دونگا: محمد، تو وہ جواب میں کہے گا: آپ ہی کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی کیلئے دروازہ نہ کھولا جائے۔ [صحیح مسلم]
جنت میں بھی سب سے پہلے یہ ہی امت داخل ہوگی، ان کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہوگی ، انکی صفوں کی تعداد اسی (80)ہوگی اور باقی تمام لوگ چالیس (40) صفوں میں ہونگے، فرمانِ نبویﷺ ہے:
’’اہل جنت کی صفوں کی تعداد ایک سو بیس (120) ہے ، ان میں سے اسی(80) صفیں صرف اس امت کی ہونگی۔‘‘ [مسند احمد]
فرمانِ نبویﷺ ہے: ’’ان میں سے ستر ہراز (70000) ایسے بھی ہونگے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے۔‘‘ [متفق علیہ] اور ایک جگہ فرمایا: ’’میں نے اللہ سے مزید اضافے کی درخواست کی تو اللہ نے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار (70000) کا اضافہ فرمادیا۔‘‘ [مسند احمد]
ان سب فضائل کے بعد!
اس امت کے مؤمن صاحبِ شرف و فضیلت، مکرم، اوراس سے اللہ کی مدد کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، اب مؤمنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دین پر فخر محسوس کریں، اس پر سختی سے کار بند رہیں ، دوسروں کو اس دین کی دعوت دیں، باطل فرقوں سے مشابہت اختیار نہ کریں ، اور امتِ محمدیہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے اللہ کا شکر ادا کریں اور نیکیوں میں اضافہ کریں۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [الأنعام: 161].
بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المُسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفِروه.
دوسرا خطبہ
الحمد لله على إحسانه، والشكرُ له على توفيقِهِ وامتِنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيمًا لشأنه، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا مزيدًا.
مسلمانو!
اس امت کا کوئی فرد بھی اگرعظیم انسان بننا چاہتا ہے تو اسے شریعت اور دین کے تمام اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، جس میں سب سے پہلے عقیدہ توحید ہے اور اسکے بعد محمدﷺ کے نبی ہونے کی گواہی، پھر عبادات کو اچھے انداز میں ادا کرنا، اللہ کی مخلوق پر احسان کرنا اور جس شخص کے اعمال اچھے نہ ہوئے اسے امتِ محمدیہ کا فرد ہونے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا [سبأ: 37]
تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے (وہ بن سکتا ہے)
Add new comment