ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف مقدمہ دائر
امریکہ کی شہری آزادی کی یونین نے اپنی درخواست میں تاکید کی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چھے اسلامی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی پر عمل درآمد کے لئے امریکی وزارت خارجہ کے داخلی احکامات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پابندیاں امریکی آئین کے خلاف ہیں۔
اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد ایران ، سوڈان ، سومالیہ ، لیبیا ، شام اور یمن سمیت سات اسلامی ممالک کے شہریوں ، مہاجرین اور پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلہ روکنے سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔
ٹرمٹ کے اس اقدام کی امریکہ کے اندر بھی بڑے پیمانے پر مخالفت کی جارہی ہے۔ مخالفین نے امریکی صدر کے فیصلے کو دین ، انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور اسے امتیازی سلوک سے قرار دیا ہے۔
سیاٹل کی ایک فیڈرل عدالت نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے پورے ملک میں فوری طور پر معطل کرنے حکم دیا تھا۔
اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے سیاٹل کی فیڈرل کورٹ کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کے لئے سن فرانسسکو کی اپیل کورٹ کا سہارا لیا۔ سن فرانسسکو کی اپیل کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کی مخالفت کرتے ہوئے سیاٹل عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی۔
امریکہ کے صدر نے سن فرانسسکو کی اپیل کورٹ کے فیصلے کو بھی سیاسی قرار دے دیا تھا۔ بعد ازاں صدر ٹرمپ نے امریکی وزارت دفاع پنٹاگون اور وزارت خارجہ کے دباؤ میں آکر نئے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کئے تاہم پابندی کی اس فہرست سے عراق کا نام خارج کر دیا۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد ریاست ہوائی کی ایک عدالت نے اس پر روک لگانے کا مطالبہ کر دیا۔ ریاست ہوائی کے اٹارنی جنرل ڈگ چن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قومی سلامتی کے بہانے نافذ کیا جانے والا یہ فیصلہ بھی مہاجرین اور پناہ گزینوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور یہ مزید پابندیوں کا دروازہ کھول دے گا۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف ریاست ہوائی کے اٹارنی جنرل کی اپیل کے بعد امریکہ میں چھے اسلامی ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی کو بھی معطل کردیا گیا- اس وقت ، ٹرمپ کی نئی ایمیگریشن پالیسی کے خلاف متعدد عدالتی احکامات کے پیش نظر شہری آزادی کی یونین کی جانب سے ٹرمپ کے خلاف کیس بھی ، تارکین وطن کے خلاف امتیازی پالیسیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے امریکی صدر کے اختیارات کو محدود کرنے کا باعث بنے گا۔
Add new comment