ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب ، اربعین: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ،مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعاء سے توسل
سوال:
سوال: کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے دعا کی درخواست کرنا جایز ہے؟
جواب : تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعاء سے توسل کرنا آپ کی زندگی میں جایز ہے، بلکہ مومن کی دعاء سے توسل کرنا بھی جایز ہے خداوندعالم فرماتا ہے : ” ِ وَ لَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَہُمْ جاوُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحیماً “ ۔ اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ خداوند عالم ،ظالمین کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مجلس میںجانے کی دعوت دے رہا ہے تاکہ آنحضرت (ص) ان کے مغفرت کی دعاء کریں ۔
دوسری آیت میں منافین کی برایی بیان ہویی ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مجلس میں جا کر اپنی مغفرت کی دعاء کریں تو وہ اعتراض کرتے ہویے منہ موڑ لیتے ہیں : ” وَ إِذا قیلَ لَہُمْ تَعالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللَّہِ لَوَّوْا رُوُسَہُمْ وَ رَاٴَیْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَ ہُمْ مُسْتَکْبِرُون“ ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آو رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں۔
اب ہم یہاں پر ایک ایسی تاریخی سند بیان کریں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصحاب نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات میں آپ کی دعاء سے بھی توسل کیا ہے اور آپ کی شخصیت سے بھی توسل کیا ہے ۔ اس نمونہ کو بیان کرنے کا ہدف ، دوسرے موضوع سے استدلال کرنا ہے ۔
عثمان بن حنیف نے نقل کیا ہے : ایک بیمار شخص، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: خدا سے میری شفاء کیلیے دعاء کیجیے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو میں دعاء کرتا ہوں لیکن بہتر یہ ہے کہ تم صبر کرو، اس نے کہا : آپ دعاء کیجیے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھو اور اس دعاء کو پڑھو:
پروردگارا ! میں تجھ سے تیرے پیغمبر کے واسطہ سے جو کہ پیغمبر رحمت ہیں دعاء کرتا ہوں ۔ یا محمد ! میں تمہاری وجہ سے تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت کو پوری کرے ۔ خدایا اس کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔
عثمان بن حنیف کہتے ہیں : خدا کی قسم ابھی ہم ایک دوسرے سے جدا نہیںہویے تھے کہ وہ ہمارے پاس آیا تو گویا وہ بیماری ہی نہیں تھا! اس روایت کا شمار صحیح ترین روایات میں ہوتا ہے او راس کو ترمذی نے صحیح کہا ہے (۳) ۔ ابن ماجہ بھی اس حدیث کو صحیح جانتے ہیں (۴) ۔
اس حدیث سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
۱۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعاء سے توسل کیا جاسکتا ہے ، اس بیمار کی بات اس پر گواہ ہے جس میں اس نے کہا : خدا سے میری شفاء کی درخواست کرو۔ نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا جواب بھی اس پر دلالت کرتا ہے : اگر تم چاہتے ہو تو میں دعاء کرتا ہوں اور اگر صبر کرو تو زیادہ بہتر ہے ۔
۲۔ دعاء کرنے والا انسان اپنی دعاء کے ضمن میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے توسل کرسکتا ہے اور یہ جواز ، اس دعاء سے اخذ ہوا ہے جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک حاجت مند کو تعلیم دی ۔ اس میں غور و فکر کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہر مسلمان دعاء کرتے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے توسل کرسکتاہے اور ان کے ذریعہ خداوند عالم کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے ۔ اس طرح کے توسل پر مندرجہ ذیل جملے دلالت کرتے ہیں:” اللھم انی اسالک و اتوجہ الیک بنبیک“۔ اس سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات اور شخصیت سے توسل کرتے ہویے خداوند عالم سے درخواست کرنا ہے ۔
دوسرا جملہ ”محمد ، نبی رحمت“ کی تعبیر ہے جو حدیث کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے اوراس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات سے توسل کرنا مراد ہے اور یہ سب آپ کی فضیلت او رکرامت کی وجہ سے ہے ۔
نیز یہ جملہ ” یا محمد ، میں تمہاری خاطر پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں“ ”انی اتوجہ بک الی ربک“ ، بھی دلالت کرتا ہے کہ اس مریض نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دی ہویی تعلیم کے ذریعہ آپ کو وسیلہ قرار دیا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فضیلت اور کرامت کی وجہ سے خود آنحضرت (ص) سے توسل کیا ہے ۔
اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کو ایسی دعاء کی تعلیم دی جس میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات سے توسل کو بیان کیا گیا ہے اور یہ اپنی قسم کا دوسراتوسل ہے ۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے مستحب ہے کہ انبیاء ، اولیاء اور صالحین کی دعاء سے توسل کریں ، اسی طرح یہ بھی جایز ہے کہ وہ اپنی دعاوں میں خود ان سے اور ان کے مقام و منزلت سے بھی توسل کریں(۵) ۔
1 . نساء: 64.
2 . منافقون: 5.
3 . صحیح ترمذى: ج5، (کتاب الدعوات، باب 19 شماره 3578).
4 . سنن ابن ماجه ج1، ص441 شماره 1385، مسند احمد: ج4، ص138 و... .
5. سیماى عقاید شیعه،ص 137
Add new comment