ابونعمان ابراہیم بن مالک اشتر
ابراہیم بن مالک اشتر نخعی (مقتول ٧٢ق/٦٩١م) مالک اشتر کے فرزند جنہوں نے مختار بن ابو عبید ثقفی کی حمایت میں امام حسین(علیہ السلام) کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اموی حکومت کے خلاف قیام کیا.
اس نے کچھ عرصہ مختار اور مصعب کے حکم سے، موصل اور اس کے اطراف کے علاقوں کی حکومت بھی کی۔
مختار کے فوج کا سپہ سالار ابراہیم نخعی تھا، جس نے خلیفہ وقت عبدالملک کے خلاف قیام کیا اور بصرہ اور کوفہ سمیت عراق کے دوسرے شہروں پر تصرف حاصل کیا۔
آپ نے جنگ صفین میں امام علی(علیہ السلام) کے چاہنے والوں اور اپنے والد مالک اشتر کے رکاب میں معاویہ سے جنگ کی اور اس وقت وہ جوان تھے ۔
مختار ثقفی کے ساتھ قیام
ابراہیم اور مختار نے آپس میں طے کیا کہ ربیع الاول کے وسط میں سنہ ٦٦ ق/ اکتوبر ٦٨٥م کو کوفہ سے قیام کی شروعات کی جائے، لیکن تیاری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہفتہ بعد اسی مہینے جمعرات کے دن قیام کا آغاز کیا. اور عبداللہ بن مطیع جو کہ عبداللہ بن زبیرکی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا،کےہاتھوں سے کوفہ کو لے لیا۔ ١٠ محرم سنہ ٦٧ (٦اکتوبر ٦٨٦م) زاب کے نزدیک موصل سے ٥ کیلو میٹر کے فاصلے پر [17] دونوں لشکروں کے درمیان جنگ شروع ہوئی. ادھر ابراہیم کا لشکر ابن زیاد کے لشکر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا. ابراہیم نے اس جنگ میں عبیداللہ اور کچھ دوسرے افراد جیسے حصین بن نمیر اور شرجیل بن ذی الکلاع جو کہ امام حسین(علیہ السلام) کے قاتل تھے ان کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور کہا گیا ہے کہ ان کے جنازوں کو جلایا گیا.
مصعب بن زبیر کا ساتھ
ابراہیم کی غیر موجودگی میں، مصعب بن زبیر نے باغیوں کے ساتھ مل کر کوفہ پر حملہ کیا اورمختار کو قتل کرکے کوفہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور مختار کو قتل کردیا، ابراہیم نے اپنی اور اپنے قبیلے کی جان کو بچانے کے لئے مصعب کی بیعت کی اور اسی طرح موصل، جزیرہ، آذربایجان اور ارمنیہ کا حاکم برقرار رہا، یہاں تک کہ عبدالملک نے ۷۱ یا ۷۲ قمری ھجری کو مصعب پر حملہ کیا، اور مصعب نے ابراہیم کو اس سے مقابلے کے لئے بلوایا۔
ابراہیم کا انجام
عبدالملک نے مصعب کے سپہ سالاروں کو رشوت دینا شروع کیا۔اور ایک لشکر اپنے بھائی محمد بن مروان کے ہمراہ ابراہیم سے لڑنے کے لئے روانہ کی کہ جو بغداد کے نزدیک آمنے سامنے ہوئی، اور جنگ کے حساس لحظات میں مصعب کے ایک کمانڈر نے میدان چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کی جس کے ساتھ ایک بڑی تعداد بھی باگ گئی، اس طرح ابراہیم کا محاصرہ کیا گیا اور اس پر ہرطرف سے نیزوں کے وار ہونے لگےجس کا وہ دلیری سے مقابلہ کررہا تھا، لیکن آخر میں اس کو قتل کروا کر ابراہیم کے قاتل نے اس کا سر جدا کیا اور عبدالملک کے پاس لے گیا اور عبیداللہ بن زیاد کے غلاموں نے آپ کے بدن کو آگ لگا دی۔
ابراہیم کی قبر
آپ کی قبر بغداد کے قدیمی راستے میں واقع ہے یہ قبر سامرا سے ۸ فرسخ اور دجلہ سے ۴ فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں اس کی شہادت واقع ہوئی تھی، یہ قبر شیخ ابراہیم کے نام سے جانی جاتی ہے، اور بلند مقام پر واقع ہے جس پر ایک گبند بنی ہوئی ہے اور اس کے دروازے پر ایک سنگی تختی نصب ہے جس پر لکھا گیا ہے کہ ھذا قبر مرحوم السید ابراہیم بن مالک الاجدار النخعی، علمدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ البتہ اشتر کی جگہ غلطی سے اجدر لکھا گیا ہے، اور علمدار کے کلمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایرانیوں کا ہے۔
ابراہیم شیعہ اور سنی علما کی نظر میں
علامہ مجلسی نے ابراہیم کے متعلق کہا ہے: ابراہیم ایسا بندہ نہیں تھا جس کو اپنے دین میں شک ہو، وہ اپنے عقیدہ سے گمراہ نہیں ہوا اور اس نے کبھی اپنے یقین کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس نے امام حسین علیہ السلام کی خون کا انتقام لینے والوں کا ساتھ دیا اور وہ اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے محب اور چاہنے والوں میں سے تھا اور ان کا علمدار اور خود کو ان پر قربان کرنے والوں میں سے تھا۔
علامہ سید محسن امین: ابراہیم ایک شجاع اور بہادر مرد تھے اور اپنے قبیلے کے سردار اور اس کی حفاظت کرنے والے تھے، آپ بہت بلند ہمیت کے مالک تھے اور حق و حقیقت کے ساتھی تھے، آپ ہمیشہ سے اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں میں سے رہے، ابراہیم اپنے والد کی طرح تمام خوبیوں کا مالک تھا۔
ذہبی جو اہلسنت عالم ہے کہتاہے: ابراہیم اپنے باپ کی طرح بہادر تھااور وہ ایک فاضل شیعہ تھے۔
ابن جوزی یہ بھی اہلسنت عالم ہے: ابراہیم بن اشتر کی آواز ایک ہیبت اور جذبہ سے سرشار تھی، بلازری جو ایک اہل سنت عالم ہے کہتا ہے اس کے باوجود کہ ابراہیم کی عمر اس وقت ۹ سال تھی پر بھی ایک شجاع انسان تھا ۔
Add new comment