کاظمین کی تاریخ اور اس میں واقع زیارات

اس دوران حاضرین نے اظہارکیاکہ آپ کی لاش کونجف اشرف لے جایاجائے گااور آپ کومولائے کائنات علیہ السلام کے جوارمیں دفن کرینگے، آپ نے فرمایا ”مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میری لاش کوجوارحضرت کاظم علیہ السلام سے لے جایاجائے

کاظمین علیہماالسلام  میں  حرم مطہر کے اندر اور اس سے باہر چند علماء اور اسلامی دانشمدوں ، سیاسی اور حکومتی لوگوں کے مزارات ہیں:

zخواجہ نصیرالدین طوسی(597 ق ـ 671 ق)

کاظمین کے حرم میں بالائے سرکے قریب ایک گوشہ میں خواجہ نصیرالدین طوسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبرواقع ہے، آپ کی ولادت۱۱ جمادی الاول ۵۹۷ ھ ق شہرطوس میں ہوئی، اور ۱۸ ذی الحجہ، ۶۷۲ ھ ق میں اس دنیاسے رخصت ہوئے۔

آپ کوفقہ، حدیث، فلسفہ، ریاضیات، طبیعات، جغرافیہ، فلکیات اور نجوم میں کافی مہارت حاصل تھی، آپ کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے بہت سے علماء عیادت کے لئے آئے اس وقت آپ نے وصیتیں کرنا شروع کیں ، اس دوران حاضرین نے اظہارکیاکہ آپ کی لاش کونجف اشرف لے جایاجائے گااور آپ کومولائے کائنات علیہ السلام کے جوارمیں دفن کرینگے، آپ نے فرمایا ”مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میری لاش کوجوارحضرت کاظم علیہ السلام سے لے جایاجائے“ اس لئے آپ کوجوارکاظمین میں دفن کیاگیا۔

ابوسبحہ

موسی بن ابراہیم اصغر بن موسی کاظم علیہ السلام جن کا لقب المرتضی تھا، آپ کو زیادہ تسبیح اور ذکر کرنے کی وجہ سے ابوسبحہ کہا جانے لگا، بغداد میں وفات پائی اوراپنے جد اور والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

الامیر سید

ابوالحسن علی بن المرتضی بن علی علوی حسنی، جو الامیر سید کے نام سے معروف ہیں، حنفی فقیہ تھے اور مدرسہ میں جامع السلطان تھے، آپ کو امام موسی کاظم بن جعفر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا ہے۔

ابن قولویہ(ف 369 ق)

ابوالقاسم جعفر بن محمد بن قولویہ قمی، آل بویہ کے دور میں شیعہ فقیہ اور محدثان میں سے تھے آپ حرم کے شرقی رواق میں دفن ہیں، ابن قولویہ کو معزالدولہ دیلمی نے دعوت دے کر قم سے کاظمین بلایا اور یہاں ایک حوزہ علمیہ کی تائسیس کروائی، شیخ مفید اور ابو الفتح کراچکی آپ کے شاگروں میں سے تھے اور شیخ مفید کو آپ کے پہلو میں دفن کیا گیا ہے ، ابن قولویہ نے فقہ اور حدیث میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں اور آپ کی مشہور کتاب کامل الزیارات ہے۔

عون و عبداللہ

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دو فرزند عون اور عبداللہ کا مرقد شریف باب البصرہ میں حرم کے شرقی سمت میں واقع ہے جس پر شاندار زیارت بنی ہوئی ہے۔

ابو یوسف

اہل سنت کے مشہور فقہااور علما سے تھے، آپ عباسی دور میں قاضی اور فقیہ تھے، صحن کے اندر دفن ہیں۔

امام علی علیہ السلام  کے خاص شیعوں میں سے تھے، اور جنگ صفین، جمل اور نہروان میں ان کا شمار ممتاز فوجیوں میں ہوتا تھا، 36 ہجری قمری  کو دنیا سے کوچ کیا، اور سلمان فارسی کے قبر کے نزدیک دفن کیا گیا۔

ثقہ الاسلام کلینی (محمد بن یعقوب بن اسحق الکلینی رازی)

ثقہ الاسلام کلینی (محمد بن یعقوب بن اسحق الکلینی رازی) اپنے زمانے میں شیعوں کے رئیس اور موثق ترین اور مستحکم ترین حدیث نقل کرنے والوں میں سے تھے،  "شافی "شریف کے مصنف ہیں کہ جو شیعہ کی حدیث کا ایک مہم منبع ہے اور تقریبا بیس سال میں تالیف ہوا ہے کہ جس میں تقریبا 160000 روایات موجود ہیں اور یہ شیعوں پر آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے اور خصوصا اھل علم پر، آپ وہ تھے جن کی عظمت اور تعریف میں مشہور مورخ ابن اثیر کو کہنا پڑا کہ آپ مجدد اور چوتھی صدی میں شیعہ مذہب کے موسس ہیں۔

کلینی نے سن 329 (تناثر نجوم) کو شعبان کے مہینے میں اس دنیا سے رحلت فرمائی۔

آپ کا مزار جامع الاصفیہ مسجد میں کہ جو شارع الجمہوری کے شورجہ محلے میں واقع ہے۔

سید رضی اور سید مرتضی سے منسوب قبور

سید رضی اور سید مرتضی کے بارے میں جیسے ہم نے پہلے ہی کربلا کے باب میں بیان کیا، کہ آپ بغداد میں اور اپنے گھر میں دفن ہوئے اور پر وہاں سےکربلا منتقل کردیئے گئے، آج یہ دو قبریں جو آپ دونوں سے منسوب ہیں ظاہرا وہ جگہ ہے جہاں پر آپ کو اول دفن کیا گیا ، یہ جگہ گنبد کے ساتھ ایک شاندار بارگاہ بنی ہوئی ہے، جس کے شمال میں ایک وسیع صحن القبلہ ہے جو ابھی تعمیر ہورہا ہے، اس صحن کا تعمیراتی کام جس کو شہید صدر کا نام دیا گیا ہے، سن 1378 (2009 م )میں شروع ہوا تھا، اس صحن کی مساحت 7000 مربع میٹر ہے۔

اس صحن کے داخلی اور بیرونی راستے میں تین دروازے ہیں کہ جن کا سب سے بڑا صحن قبلہ ہے، یہ راستہ جامع مسجد صفوی کی طرف نکلتا ہے۔

تہہ خانہ  میں ایک سرداب ہے جس کی وسعت 5000 میٹر مربع ہے جس کے دو  بیرونی راستے ہیں ان میں سے ہر ایک راستہ سرداب میں جانے کےلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس کی مساحت 120 مربع میٹر  ہے، اس کے علاوہ سیڑھیاں بھی ہیں اور 4 لفٹ بھی لگائے گئے ہیں، اسی طرح مدرسے ، عجائب گھر اور مہمان خانہ کو بھی تعمیر کیا گیا ہے، یہ صحن ابھی تک عراق کے عتبات میں سب سے بڑی صحن محسوب ہوتی ہے۔

شہر کاظمین کی تاریخ

 145 -ھ ق ۔  یہ باغ "شونیزی‌" کے نام سے معروف تھا جس پر  خلیفہ منصور دوانیقی نے "مقابر قریش‌"  کا نام رکھا ۔

 179 -ھ ق- ہارون کے حکم سے امام موسی کاظم علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد لایا گیا اور اسی شہر کے زندان میں ان کو قید رکھا۔

183-ھ ق. امام موسی کاظم (علیہ السلام)  کو خلیفہ کے حکم پر سندی بن شاہک نے زہر دیا اور اسی شہر کے زندان میں آپ کو رکھا گیا۔

183 -ھ ق. بدن مطہر امام (علیہ السلام )  کو مقابر قریش کے محلے میں، جس کو امام نے پہلے سے خرید رکھا تھا، دفن کیا گیا۔

 220 -ھ ق. امام جواد (علیہ السلام)  کو معتصم عباسی کے حکم پر زہر دے کر شہید کی گیا، آپ علیہ السلام کو  اپنے جد کے پہلو میں دفن کیا گیا،  آپ دونوں علیہما السلام کے مرقد مبارک پر گنبد اور عمارت تعمیر کی گئی اور اس کے بعد مقابر قریش کو کاظمیہ کا نام دیا گیا۔

 336 -ھ ق. معزالدولہ (آل بویہ)کے حکم سے ایک اور شاندار گنبد تعمیر کروائی گئی، اور ہر قبر پر

 369 -ھ ق. عضد الدولہ نے حرم میں توسیع کا کام کیا، اور شہر کے اطراف میں دیوار کھڑی کروائی اور اس طرح کاظمین خاص جگہ میں تبدیل ہوئی۔

 441 -ھ ق.کرخ بغداد میں شیعہ اور سنی جھڑپوں میں حرم مطہر کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا۔

 490 -ھ ق. مجد الملک نے حرم کے دیواروں پر ٹائل لگوائے، اور حرم کے شمال میں ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی اور دو خوبصورت منارے بنوائے۔

 569 -ھ ق. دجلہ میں سیلاب کے باعث صحن اور حرم مطہر کو نقصان پہنچا۔

 575- ھ ق. الناصر لدین اللہ ، کے شیعہ وزیر کے کہنے پر حرم مطہر میں مہمانخانہ اور حجرے  تعمیر کروائے۔

 608 -ھ ق.عباسی خلیفہ نے حرم کے اطراف میں موجود حجروں کو دینی مدرسے میں تبدیل کروایا۔

 656 -ھ ق. مغل ہلاکو خان کا بغداد پر حملہ کے وقت کاظمین کو لوٹا گیا۔

 658 -ھ ق.  عطا ملک جوینی جو ہلاکو خان کا وزیر تھا، نے دوبارہ تعمیراتی کام کروایا اور حرم کو پہنچے ہوئے نقصان کی تلافی کروائی۔

 776 -ھ ق. دجلہ میں سیلاب کی وجہ سے حرم مطہر کو نقصان پہنچا، سلطان اویس جلایری نے خراب شدہ جگہ کی تعمیر کروائی۔

 926 -ھ ق. شاہ اسماعیل صفوی نے دو شاندار گنبد تعمیر کروائے، اور ان پر تائل لگوائے اور ساتھ میں حرم کے شمال میں مسجد تعمیر کروائی۔

 1045- ھ ق. شاہ صفی، نے صحن کے چاروں گوشوں میں چار منارے تعمیر کروائے جو ابھی تک موجود ہیں۔

 1211 -ھ ق. آقا محمد خان قاجار نے دو گنبدوں کو خالص سونے سے ڈھانپ دیا اور حرم کی زمین اور صحن کو سنگ مرمر سے مرمت کروایا۔

 1229- ھ ق. فتح علی شاہ،  قاجار نے حرم کے اندر آئینہ کاری کروائی اور مناروں کے اوپر سونے کا کام کروایا۔

 1255 -ھ ق. معتمد الدولہ، قاجار کے حکام  ، نے حرم کے جنوب، شرق اور غربی ایوان میں سونے کا کام کروایا۔

1282 -ھ ق.شیخ العراقین، وکیل امیر کبیر ، نے ایوانوں میں آیئنہ کاری اور صحن میں ٹائلوں کا کام کروایا، فرہاد میرزا، عباس میرزا کے فرزند، نے حرم کو دوبارہ تعمیر کروایا، اس کی وفات کے بعد اس کو حرم میں ہی دفن کروایا گیا،۔

 

Add new comment