اربعین کے دن زیارت پڑھنے کی سفارش کیوں ہوئی ہے؟
اربعین کے دن زیارت پڑھنے کی سفارش کیوں ہوئی ہے؟
قرآن میں سفارش ہوئی ہے کہ ایام اللہ کی یاد آوری کی جائے تاکہ اللہ تعالی کے عظیم دن نہ بھول پائیں، اربعین واقعہ کربلا کا تسلسل ہے ، اور اسی لئے عاشورا کے تحفظ کے لئے جو کہ اللہ کا عظیم ترین دن ہے امام حسین علیہ السلام کے عاشق امام حسین علیہ السلام کے قیام سے تجدید عہد کرتے ہیں اور یہ تجدید عہد وہ بہترین طریقے سے انجام دینے کا اظہار زیارت کربلا کی طرف سفر اختیار کرنے پر کرتے ۔
اسی لئے امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے کہ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں: شب و روز کے دوران 51 رکعات نماز واجب و نماز مستحب، زیارت اربعین (روز اربعین زیارت امام حسین علیہ السلام)، دائیں ہاتھ کی انگلی میں انگشتری پہننا، سجدے کے وقت پیشانی خاک پر رکھنا اور نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے تلاوت کرنا۔
ایک دلیل جس کی وجہ سے یہ دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ساتھ مخصوص ہوا یہ ہے کہ آج ہی کے دن حرم اہلبیت علیہم السلام شام سے کربلا لوٹے ہیں ، اور بنابر قول سید مرتضی آج ہی کے دن سر مبارک امام حسین بدست امام زین العابدین شام سے کربلا لایا گیا ہے اور آپ کے جسم اطہر کے ساتھ ملحق کیا گیا، شیخ طوسی نے فرمایا: زیارت اربعین اسی دن سے ہے۔
جب سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی ہے اس وقت سے شیعیان اہل بیت علیہم السلام آپ کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے سفر کرتے رہے ہیں، کچھ سواری پر، کچھ پیادہ چل کر اور کچھ لوگ تبلیغ کی نیت سے پا برہنہ ہوکر کربلا جاتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں، جن میں بعض روایات پیادہ جانے پر تاکید کرتی ہیں، لہذا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیادہ جانا شروع ہی سے تھا اور ابھی تک یہ تسلسل موجود ہے۔
اربعین کے دن زیارت سید الشھدا علیہ السلام کی علما اور اولیا الہی نے بہت اہمیت بیان کی ہے اور وہ خود بھی نجف اشرف سے کربلا کی طرف پا برہنہ جاتے ہیں۔
آج کے دن ۶۱ ھ میں صحابی پیامبر(صلی اللہ علیہ و آلہ)جناب جابر بن عبداﷲانصاری نے شہادت امام حسین(علیہ السلام) کے بعد پہلی مرتبہ آپکی قبر مطہر کی زیارت کی ، اور یہ سنت حسنہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے وقت بھی جبکہ اموی اور عباسی جیسے خونخوار اور سفاک لوگوں کی حکومت تھی انجام پاتا رہا۔
اربیعن میں پیادہ چلنے کی سنت شیخ انصاری کے زمانے میں
بعض تاریخی روایات میں بیان ہوا ہے کہ زیارت کربلا کے لئے پیادہ سفر کرنے کی رسم شیخ انصاری (متوفی سال 1281 قمری) کے زمانے میں بھی موجود تھی، لیکن زمانے کے حالات نے اسے فرموشی کے سپرد کردیا اور پھر میرزا حسین نوری کے توسط سے دوبارہ اس سنت حسنہ کو زندہ کیا گیا۔
اس عالم با عمل نے پہلے عید قربان کے موقع پر نجف سے کربلا کی طرف پیادہ جانے کا اقدام کیا اور تین دن تک راستے میں رہے اور اس وقت ان کے ساتھ تقریبا اپنے دوستوں اور چاہنے والوں میں سے 30 لوگ ان کے ساتھ تھے۔ محدث نوری نے پھر ارادہ کیا کے ہر سال اس کو تکرار کرے اور آخری دفعہ 1319 ہجری قمری میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پیادہ گئے۔
اربعین کے دن جابر عبداللہ انصاری کا امام حسین علیہ السلام کی قبر پر حاضری دینے کا واقعہ
خاندان طہارت و عصمت کا اربعین کے دن کربلا آنا جیسے کہ بعض روایات میں نقل ہو ہے چاہے ٹیک ہو یا نہ ہو لیکن ظاہرا اس میں کو شک نہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری ایک تابعی کے ساتھ کے بعض نے ان کا نام عطیہ ذکر کیا ہے اور بعض نے عطا لکھا ہے اور احتمال ہے کہ عطیہ بن حارث کوفی حمدانی ہے بہر حال ایک تابعی تھا کہ جو کوفہ کا رہنے والا تھا، وہ یہ راستہ طے کر کے اس دن شہید کربلا علیہ السلام کے قبر مطہر پر حاضر ہوتے ہیں، حسینی مقناطیس کی جاذبیت کا آغاز اربعین کے دن سے ہے۔ اور ہی جاذبیت جابر بن عبداللہ کو مدینہ سے اپنے طرف کربلا کھینچ کر لائیں یہ وہی مقناطیسی قوت ہے جو آج بھی صدیوں بعد میرے اور آپ کے دل میں ہے ، وہ لوگ جو معرفت اہلبیت علیہم السلام رکھتے ہیں اور کربلا سے عشق رکھتے ہیں کربلا ان کے دلوں میں زندہ ہے تربت حسینی اور سید شہدا کے مرقد اقدس سے یہ عشق اسی دن سے شروع ہوچکا ہے ۔
جابر بن عبداللہ صدر اول کے مجاھدین میں سے ہیں ان کا شمار اصحاب بدر میں ہوتا ہے ، یعنی امام حسین علیہ السلام کے ولادت سے پہلے جابر بن عبداللہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے خدمت میں تھے اور ان کے ساتھ جہاد کررہے تھے، اور انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت اور بچپنے کا وقت اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے، جابر بن عبداللہ انصاری نے کئی بار امام حسین علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی آغوش میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا ، انہوں نے دیکھا ہوگا کہ پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسین علیہ السلام کی آنکھوں کو چوم رہے ہیں، ان کے چہرے کو چوم رہے ہیں، اپنے مبارک ہاتھوں سے امام حسین علیہ السلام کو کھلا رہے ہیں اور پانی پلا رہے ہیں، یقینا جابر بن عبداللہ نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا، جابر بن عبداللہ نے یقینا پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو اپنی کانوں سے سنا ہوگا جب وہ یہ فرما رہے ہونگے حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کو خلفاء کے زمانے میں، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے میں، مدینہ میں کوفہ میں یہ سب جابر بن عبداللہ کے آنکھوں کے سامنے سے ہوگا اور اب جابر نے سنا کہ حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کردیا گیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے جگر گوشے کو تشنہ لب شہید کردیا گیا، وہ مدینہ سے چلے اور کوفہ سے، عطیہ ان کے ساتھ ہوئے۔
عطیہ سے روایت ہے کہ : جابر عبداللہ جب فرات کے کنارے پر آئے، اور غسل انجام دیا، صاف اور سفید کپڑے پہنے اور پھر چھوٹے چھوٹے قدم اور احترام کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے قبر اقدس کی طرف روانہ ہوئے، وہ روایت جو میں نے دیکھی ہے اس میں نقل ہوا ہے :جب قبر اقدس پر پہونچے تو بلند آواز میں اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر کی صدا کی ، یعنی جب انہوں نے دیکھا کہ کس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا جگر گوشہ، سرکش لٹیروں کے ہاتھوں مظلومیت کے ساتھ شہید ہوچکے تو انہوں نے تکبیر کی آواز کو بلند کیا، پھر لکھا ہے کہ: حضرت جابر بن عبداللہ غم سے نڈال ہوکر قبر امام حسین علیہ السلام پر غش کھا کر گر پڑے، نہیں پتہ کیا گزرا ہوگا، لیکن اس روایت میں آیا ہے کہ جب انہیں ہوش آیا تو امام حسین علیہ السلام سے گفتگو شروع کی: : «السلام علیكم یا آل الله، السلام علیكم یا صفوه الله».
Add new comment