شام کے مظلوموں میں اور پوتن کے دکھ میں گہری مماثلت
شام کے شمالی شہر حلب میں برپا قیامت صغری میں جہاں بشارالاسد کی فوج اور اس کے حامی ملیشیا کا ہاتھ ہے وہیں اس جنگ اور خون خرابے میں روس کو بھی قصور وار قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ روسی جنگی طیارے بھی دن رات حلب کے درو بام پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بموں سے تباہی پھیلا رہے ہیں۔روسی بمباری سے اس وقت حلب اور اس کے باشندے بالخصوص بچے جس مصیبت سے دوچار ہیں بالکل ایسے ہی آج سے 70 برس قبل روسی صدر ولادی میر پوتن کا آبائی شہر لیننگراد دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہی اور بربادی کا سامنا کررہا تھا۔ اس تباہی اور بربادی کے نتیجے میں پوتن نے اپنا ایک بھائی بھی کھود دیا تھا۔ جس کرب سے اس وقت اہل حلب گذر رہے ہیں۔ ستر برس قبل خود پوتن کا خاندان ایسے ہی حالات کا سامنا کررہا تھا۔آج سے 70 برس پیشتر جب پوتن کا بھائی شدید بیماری اور بھوک کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں جا رہا تھا تب پوتن ابھی بہت چھوٹی عمر کا تھا تھا۔ اس وقت بیمار اور نحیف ونزار بیٹے کی حالت زار پر اس کی ماں دھاڑی مار مار کر روتی تھی۔ آج ولادی میر پوتن کے حکم سے طیارے حلب کی آبادی پر بمباری کرتے ہیں اور یہاں کے بچے زخموں اور بیماریوں کے ساتھ بھوک اور ننگ کا اسی طرح مقابلہ کررہے ہیں جس طرح کسی دور میں پوتن کے خاندان نے کیا تھا۔برطانوی اخبار نے 70 برس قبل پوتن کے آبائی شہر لیننگراد کی حالت پر روشنی ڈالی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب دوسری عالمی جنگ نے سوویت یونین کے دروازے پر دستک دی تو پوتن کے آبائی شہر لیننگراد میں 8 لاکھ لوگ رہائش پذیر تھے۔ یہ لوگ کئی مہینوں تک محصور رہے اور یہاں پر محصور ہونے والے بچے، عورتیں اور مرد بمباری، بیماریوں اور بھوک سے ہلاک ہوتے رہے۔1941 سے 1944 تک لیننگراد اتحادیوں کے محاصرے میں رہا اور کسی قسم کا امدادی سامان محصورین تک نہیں پہنچنے دیا جا رہا تھا۔ آج حلب اسی طرح کی کیفیت سے گذر رہا ہے جہاں چار سو محاصرہ اور محصورین بچوں تک خوراک اور ادویہ تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔پوتن کا بھائی بھی غذائی قلت اور بیماریوں کے دوران علاج کی سہولت سے محرومی کا شکار ہوا۔ آخر کار تشنج کی بیماری نے اس کی جان لے لی تھی۔پوتن کی والدہ کہتی ہیں کہ دوسری عالم جنگ کے دوران اس کے شوہر کے چھ میں سے پانچ بھائی جنگ کا ایندھن بنے۔ خود پوتن کی والدہ کے اپنے کئی قریبی رشتہ دار بھی جنگ، بھوک اور بیماریوں کے باعث ہلاک ہوگئے تھے۔ولادی میر پوتن خود بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ان کے ملک میں بدترین قتل عام کیا گیا۔ اپنی ایک خفیہ دستاویز میں پوتن کا کہنا ہے کہ اس کے بھائی کو بیسکار یفکسوی نامی ایک قبرستان میں پانچ لاکھ دوسرے مقتولین کے ہمراہ اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا تھا۔
Add new comment