قرآن اور آحادیث میں عید قربان کا مقام

عید الاضحی وہ عید ہے جو بامعرفت لوگوں کو ابراہیمی قربانی کی یاد دلاتی ہے ۔ وہ قربانی کہ جس سے فرزندان آدم ، اصفیا اور اولیاء کو درس ایثار اور جہاد ملتا ہے

 [2]
قرآن اور آحادیث میں عید قربان کا مقام
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّی * وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی  [3]" بتحقیق جس نے پاکیزگی اختیار کی وہ فلاح پا گیا،
۔ اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔ "
وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی  اس آیت کی تفسیر میں آیا ہےکہ «قال: صلوة الفطر و الأضحی»؛  اس سے مراد عید قربان اور عید فطر ہے۔  [4]
قرآن کی ایک اور آیت جو عید الاضحی کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ " فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ  "  [5] پس آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔ یہاں پر نماز سے مراد عید الاضحی کی نماز ہے  اور اسی بات پر پیغمبر اسلام کی حدیث اور مفسرین کے اقوال  بھی موجود ہیں ۔  [6]
عطا و بخشش کا دن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے اس بارے میں ارشاد فرمایا: " إنّ الملائکة یقومون یوم العید علی أفواه السکّة و یقولون: أغدوا إلی ربّ کریم، یعطی الجزیل و یغفر العظیم"  [7]
ملائکہ عید کے دن چپ رہنے والے انسانوں کے لبوں پر آجاتے ہیں اور یا لوگوں کے راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں او رکہتے ہیں  :علی الصبح پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو جاو کیونکہ وہ بہت زیادہ دینے والا اور نہایت ہی بخشنے والا ہے۔
امام خمینی کا خوبصورت بیان
امام خمینی عید الاضحی کے بارےمیں فرماتے ہیں کہ : " عید الاضحی وہ عید ہے جو بامعرفت لوگوں کو ابراہیمی قربانی کی یاد دلاتی ہے  ۔ وہ قربانی کہ جس سے فرزندان آدم ، اصفیا اور اولیاء کو درس ایثار اور جہاد ملتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ ۔ اس توحید کے عظیم سپوت اور بت شکن نے تمام انسانوں کو یہ سکھایا کہ  اپنے عزیز ترین  ثمرہ حیات  کو اللہ کی راہ میں قربان کر دو اور اس کی بارگاہ سے عیدی لو ۔ اپنے اور اپنے عزیزوں کو فدا کر دو اور دین خدا اور عدل الہی کو قائم کرو ۔ انہوں نے ہم تمام نسل آدم کو سمجھایا کہ "مکہ " اور " منی " عاشقوں کی جائے قربانی اور توحید کی جائے اشاعت اور شرک کی  بساط لپیٹنے کا مقام ہے اور اپنی جان اور عزیزوں سے دل باندھنا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے ۔  [8]
صحیفہ سجادیہ میں عید الاضحی کا بیان
امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں : «اَللَّهُمَّ هذا یَوْمٌ مُبارَکٌ مَیْمُونٌ، وَالْمُسْلِمُونَ فیهِ مُجْتَمِعُونَ فی اَقْطارِ اَرْضِکَ، یَشْهَدُ السَّآئِلُ مِنْهُمْ وَالطَّالِبُ وَالرَّاغِبُ وَالرَّاهِبُ، وَاَنْتَ النَّاظِرُ فی حَوآئِجِهِمْ، فَاَسْئَلُکَ بِجُودِکَ وَ کَرَمِکَ وَهَوانِ ماسَئَلْتُکَ عَلَیْکَ، اَنْ تُصَلِّی عَلَی‏ مُحَمَّدٍ وَالِهِ؛
ترجمہ : بارالہا! یہ دن کتنا بابرکت اور مبارک ہے اور اس دن مسلمان تیری زمین میں جگہ جگہ جمع ہیں  ۔ اور ان کی حالت یہ ہےکہ کوئی تجھ سے سوال کررہے ہیں تو کوئی طالب حاجت  ہیں ، کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں تو کوئی تیرےخوف میں مبتلا ہیں اور تو ان سب کی حاجتوں کا مشاھدہ کررہا ہے پس میں تجھ سے تیرے جود و کرم کے صدقے سوال کرتا ہوں اورجو سوال کرتا ہوں اس کا جواب تجھ پر ہی ہے اور وہ سوال یہ ہےکہ محمد و آل محمد پردرود بھیج ۔
منابع
1- کتاب الحج‌ّ، دزفولی، مرتضی بن محمّد امین انصاری، ‌ناشر: مجمع الفکر الإسلامی، ‌1425 ه‍‍ ق، ‌چاپ: اول، ‌قم- ایران، ‌محقّق/ مصحّح: جمعی از پژوهشگران مجمع اندیشه اسلامی‌.
2- کتاب الحجّ، یزدی، سیّد محمّد محقّق داماد‌، ناشر: چاپخانه مهر‌، 1401 ه‍‍ ق‌، چاپ: اول‌، قم- ایران‌، مقرّر: عبدالله جوادی آملی‌.

 

________________________________________
 [1] ۔ التوبة:3
 [2] ۔ کافی، ج،۴ ص۲۹۰.
 [3] ۔ الأعلی:14و 15
 [4] ۔ بحار الانوار، ج ۸۷، ص ۳۴۸
 [5] ۔ الکوثر:2
 [6] ۔ بحار الانوار، ج ۷۸، ص ۳۴۹.
 [7] ۔ مستدرک الوسائل، ج ۶، ص ۱54.
 [8] ۔ صحیفه نور، ج ۱۸، ص ۸۷

 

Add new comment