عید الاضحی اور امام خمینی (ره)
عید الاضحی اور امام خمینی (ره)
بیٹے کی قربانی کا مسئلہ نوع انسانی کے نقطہ نظر سے ایک ایسا باب ہے کہ جو نہایت اہم ہے۔ لیکن وہ چیز کہ جو اس عمل کا مبدأ ہے اور وہ چیز کہ جو باپ بیٹے کے ما بین ظہور میں آئی اس کا تعلق قلب وروح اور معنویت سے ہے۔ یہ امر ان مسائل سے مافوق ہے کہ جو ہم لوگ سمجھتے ہیں ۔ ہم سب کہتے ہیں کہ انہوں نے ایثار کیا، قربانی کی اور واقعاً ایسا ہی تھا اور یہ بات اہم بھی ہے لیکن کیا یہ بات خود ابراہیم ؑ کی نظر میں بھی ایثار تھی؟ کیا ابراہیم ؑ کی نظر میں بھی یہ تھا کہ وہ خدا کے حضور کوئی تحفہ پیش کررہے ہیں ؟ کیا اسماعیل ؑ کے پیش نظر بھی یہ تھا کہ وہ خدا کیلئے کوئی جانفشانی کررہے ہیں یا ایسا نہیں تھا؟ جب تک انسان کی ’’میں ‘‘ موجود ہو ایسا ہی ہے۔ جب تک اس کا ’’خود‘‘ موجود ہے، ایسا ہے۔ اس کا نام ایثار ہے۔ اس صورت میں وہ کہتا ہے کہ میں اﷲ کی راہ میں اپنے بیٹے کو نثار کررہا ہوں ، میں اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کررہا ہوں ۔ یہ بات ہمارے لیے اہم ہے اور بہت اہم ہے۔ ابراہیم ؑ کی نظر میں یہ مسئلہ نہ تھا، ان کی نظر میں یہ ایثار نہ تھا۔ وہ ’’خود‘‘ کو نہ دیکھتے تھے کہ ایثار کرتے۔ اسماعیل ؑ خود کو نہ دیکھتے تھے کہ ایثار کرتے۔ ایثار یہ ہے کہ میں ہوں اور تو ہے اور پھر میرا اور تیرا عمل ایثار ہے جبکہ اہل معرفت بزرگوں اور اولیا اﷲ کی نظر میں یہ شرک ہے۔ اگرچہ ہماری نظر میں یہ بڑا کمال ہے اور عظیم ایثار ہے۔
عید کا ایک مفہوم ہماری نظر میں ہے اور ایک مفہوم ابراہیم ؑ اور عظیم انبیاء ؑ کی نظروں میں ہے۔ ہم بھی مناتے ہیں اور وہ بھی عید مناتے ہیں لیکن ان کی عید، عید لقاء ہے۔ وہ وہاں عود کرتے ہیں کہ جہاں وہ ظاہر ہوتے ہیں اور اس امر کیلئے وہ عید مناتے ہیں ۔ اس کے معنوی پہلو بہت زیادہ ہیں کہ جو ہماری دسترس میں نہیں ۔ اس کے سیاسی واجتماعی پہلو بھی بہت ہیں اور بہت رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ زیادہ ہوں گے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۴۹)
Add new comment