جب تک سعودی بادشاہت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، مسلمانوں کا قتل عام جاری رہیگا، انیس ہارون
(ٹی وی شیعہ) پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ کا انٹریو
محترمہ انیس ہارون پاکستان کی معروف خاتون سماجی رہنما ہیں، آپ پاکستان کی سول سوسائٹی کا معتبر نام ہیں، آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں، آپ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ کئی صحافتی اداروں سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں، کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں، ملکی و غیر ملکی اخبار و جرائد میں خواتین و حقوق انسانی کے موضوعات پر آپ کے مضامین چھپے رہتے ہیں، آپ عورت فاؤنڈیشن پاکستان کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں، اور آج بھی اس کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن پاکستان اور ویمن ایکشن فارم کی بھی سربراہ رہ چکی ہیں، آپ گزشتہ چالیس سالوں سے خواتین کے حقوق اور سماجی مسائل کے حوالے سے ملکی و عالمی سطح پر پاکستان اور یہاں کی سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہی ہیں، اور کئی ملک و بین الاقوامی اداروں کی فعال رکن ہیں، آپ نے پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کیخلاف تحریک بحالی جمہوریت کے تحت جدوجہد کی تھی۔ ”شیعہ نیوز“ نے محترمہ انیس ہارون کے ساتھ پاکستان میں دہشتگردی و انتہاپسندی، داعش کی پاکستان میں موجودگی کی حقیقت، مولوی عبدالعزیز، سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت، حقوق نسواں بل و دیگر موضوعات کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ
شیعہ نیوز: پاکستانی معاشرے میں دہشتگردی کی کیا وجوہات ہیں اور کیا حل پیش کرینگی۔؟
انیس ہارون: ہماری ریاست نے دہشتگردی کو بہت ہوا دی ہے، جب ہم بھارت سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں انتہاپسندی نچلی سطح سے اوپر آئی ہے کہ عوام نے بی جے پی کو ووٹ دئیے، ایک نہیں دو بار حکومت میں لائے، اس کے مقابلے میں ہمارے یہاں انتہاپسندی اوپر سے آئی ہے، پاکستان میں جو بھی حکمران آیا، اس نے طاقت و اقتدار کے حصول کیلئے، اس کے جاری رہنے کیلئے مذہب کو استعمال کیا، جو کہ پاکستان کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوا، اس کا سب سے فائدہ انہوں نے اٹھایا، جنہوں نے پہلے پاکستان اور قائداعظم کی مخالفت کی، اور پھر پاکستان پر مسلط ہوگئے، سب پر حاوی ہو گئے، سب سے آگے ہو گئے، الیکشن کے نام پر سلیکشن کی صورت میں جعلی حکومتیں عوام پر مسلط کی گئیں، پھر ظاہر ہے انہوں نے عوامی منشا کے بجائے اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھایا، لہٰذا ریاست نے انتہاپسندی اور دہشتگردی کو بہت ہوا دی ہے، اس کی سپورٹ کی ہے، خاص طور پر آمر جنرل ضیا کے زمانے میں، جب اقتدار میں ان کی پارٹنر جماعت اسلامی تھی، تو اس ضیا دور میں بہت کھل کر مذہب کا استعمال ہوا، اور اسی دور سے پاکستان میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کا فروغ ہوا۔ تو جب ملک کو آپ مختلف تعصبات، طبقات میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ہتھیاروں کی بھرمار ہو، امن و امان کی صورتحال انتہائی کمزور ہو، اور پھر اس پر ریاست کی طرف سے انتہاپسند گروہ کو تشکیل دیا جائے، اس وجہ سے ملک دہشتگردی کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان میں شفاف و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو، اس میں تسلسل ہو، جس کے نتیجے میں جمہوریت ہونی چاہیئے، جو کم از کم عوام کو جوابدہ تو ہوتی ہے، ناکہ آمریت مسلط ہو جائے، جو چاہئے فیصلہ کرے اور عوام پر مسلط کر دے، شفاف انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونی چاہیئے کہ اگر وہ عوام مرضی کے برعکس قانون سازی کریں تو عوام انہیں اگلے انتخابات میں مسترد کر دے، اگر کوئی دہشتگردی کے فروغ کا باعث بنے، یا دہشتگردی کے خاتمے میں رکاوٹ بنے، تو پھر عوام اس کا احتساب کر سکے، اسے مسترد کر سکے، اصل بات یہ ہے کہ ملک میں شفاف و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو، جس کے نتیجے میں عوام کے منتخب کردہ حکمران اقتدار میں آئیں۔
شیعہ نیوز: پاکستان میں دہشتگردوں نے تعلیمی اداروں کو بطور سافٹ ٹارگٹ نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، انکا بچاؤ کیسے ممکن ہے۔؟
انیس ہارون: اس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان بھر میں بلاامتیاز و تفریق تمام دہشتگردوں، انکے سرپرستوں، سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کی جائے، جیسا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تھوڑی سی سختی ان سب کے خلاف ہوئی ہے۔ لیکن اب ایک عام اعتراض یہ سامنے آ رہا ہے کہ کیا صرف سندھ میں ہی دہشتگردی ہے، کیا صرف خیبر پختونخوا میں ہی دہشتگردی ہے، کیا صرف بلوچستان میں ہی ہے، پنجاب میں ان دہشتگردوں کے خلاف سختی کیوں نہیں ہو رہی ہے، خاص طور پر جب ہمیں پتہ ہے کہ کالعدم دہشتگرد تنظیمیں وہاں نئے نئے ناموں سے کام کر رہی ہیں۔ ابھی جو بھارت میں پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کا واقعہ ہوا تھا، اس کے بعد ہماری طرف سے کہا گیا کہ کالعدم جیش محمد کے بہت سارے دفاتر سیل کر دیئے گئے ہیں، لیکن جیش محمد تو بہت عرصے سے کالعدم قرار دی جا چکی ہے، تو اس کے دفاتر کھلے ہوئے کیوں تھے، انہیں تو آپ کو بہت عرصہ پہلے سے سیل کر دینے چاہیئے تھے۔ لہٰذا اس طرح سے ہمارے سامنے دوہرا معیار، دوغلی پالیسی سامنے آتی ہے کہ ایک طرف تو ہم انہیں استعمال بھی کرتے ہیں، انہیں رکھتے ہیں، ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اپنے کام کیلئے، آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ کالعدم تنظیمیں آپ کے کہنے کے مطابق کام کریں، تو یہ طریقہ کار درست نہیں، کیونکہ جو بھی مسلح گروہ ہوتے ہیں، دنیا کی تاریخ میں جب ان کے پاس تھوڑا سے بھی اختیار آتا ہے، تو یہ اپنے بنانے والوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، بغاوت کر دیتے ہیں، آج جب پاکستان میں کالعدم دہشتگرد تنظیمیں ہتھیار اٹھا کر خود فوج کو ہی مارنے نکل آئیں، تو انہیں احساس ہوا کہ معاملہ بہت خطرناک ہو گیا ہے، لہٰذا ان کا سائز (size) کم کر دیا جائے، پھر آپریشن شروع کیا گیا، اس سے قبل جب طالبان اور دیگر کالعدم دہشتگرد تنظیموں نے شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، عوامی مقامات پر خودکش حملے کئے گئے، سینکڑوں اسکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا، لیکن اس وقت تو انہیں کسی نے روکا نہیں، لیکن جب ان دہشتگردوں میں اتنی ہمت آگئی کہ فوج کے اسکولوں میں بھی گھس آئے، بچوں کو دہشتگردی و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، پھر باچا خان یونیورسٹی کو نشانہ بنایا، کیونکہ ان دہشتگردوں کو پتہ ہے کہ تعلیم یافتہ بچے ان کے راستے کی دیوار بنیں گے، لہٰذا دہشتگردوں نے علم دشمن کارروائیاں شروع کر دیں۔ ایک تو وہ دہشتگرد ہوتے ہیں، جو دہشتگرد کارروائیوں کے دوران خود مر جاتے ہیں، یا مارے جاتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہوتے ہیں، جب تک آپ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرینگے، ان پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، ان کو نہیں پکڑیں گے، ان کا خاتمہ نہیں کرینگے، اس وقت تک یہ ماسٹر مائنڈ دہشتگرد بناتے رہیں گے، جو پاکستان بھر میں دہشتگرد کارروائیاں کرتے رہینگے۔
شیعہ نیوز: کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان دہشتگردی کی طرف مائل ہوئے ہیں۔؟
انیس ہارون: یہ بالکل حقیقت ہے کہ دہشتگردی میں صرف غریب و محروم طبقہ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان بھی اس طرف مائل نظر آتے ہیں، برین واشنگ ہے، مذہب کی غلط تشریح ہے، اس وقت مغرب میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے خلاف بھی ردعمل ہے، مغرب کے خلاف ان کا غصہ یہاں اتر رہا ہے، پھر فلسطین میں جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے، عالمی سطح پر مذہب پر صف بندی ہو رہی ہے کہ یہ مسلمان ہے، یہ عیسائی ہے، پھر مسلمانوں میں بھی آپس میں تنازعات ہیں، سعودی عرب ایران تنازعہ، یہ بھی کردار ادا کر رہے ہیں، پاکستان سعودی عرب کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، سعودی عرب امریکا کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، سعودی عرب شیعہ مسلمانوں کو مارنا چاہتا ہے، وہابیت پھیلانا چاہتا ہے، پھر جو نوجوان دہشتگردوں کے آلہ کار بن رہے ہیں، انہیں پیسہ اور ہتھیار کہا ں سے مل رہے ہیں، یہ داعش، القاعدہ اور دیگر کو مالی و عسکری مدد کہاں سے مل رہی ہے، دنیا جانتی ہے کہ داعش کو امریکا نے بنایا ہے، داعش کا خلیفہ ابوبکر البغدادی امریکی آلہ کار ہے، امریکا کا مقصد مسلمانوں کو لڑا کر انکے وسائل پر قبضہ کرنا ہے، جس طرح انہوں نے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں تو مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئے، اور میں تو کہتی ہوں یہ بہت ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں سعودی بادشاہت سمیت تمام بادشاہتوں کا خاتمہ ہونا چاہیئے، یہ ناگزیر ہے، جب تک یہ سعودی بادشاہت (house of saud) نہیں گرتی، اسکا خاتمہ نہں ہو جاتا، اس وقت تک مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہیگا۔ یہاں آخر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ نوجوانوں کے دہشتگردی ک طرف مائل ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں تعلیم تباہ ہو چکی ہے، یونیورسٹیز سے ڈگری لینے کے بعد نوکری نہیں ملتی، ٹیکنیکل تعلیمی ادارے پورے شہر میں صرف دو ہیں، وہاں جگہ نہیں ہے کہ نوجوان جا کر تربیت حاصل کریں اور روزگار حاصل کریں، کوئی تعلیمی منصوبہ بندی نہیں ہے، تو پھر دہشتگردی اور جرائم میں تو اضافہ ہوگا۔
شیعہ نیوز: کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کئی اعلٰی تعلیم یافتہ پروفیشنل خواتین بھی دہشتگرد نیٹ ورک سے منسلک ہوئی ہیں۔؟
انیس ہارون: جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ نوجوانوں کا مغرب پر غصہ یہاں اتر رہا ہے، یہی حال خواتین کا بھی ہے، پھر خواتین کو گمراہ کیا جا رہا ہے، وہی برین واشنگ کی جا رہی ہے، مذہب کی غلط تشریح کی جا رہی ہے۔
شیعہ نیوز: پاکستان میں داعش کے خطرے اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے کیا کہیں گی۔؟
انیس ہارون: میرے خیال میں حکومتی روش دفاعی ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں داعش کوئی الگ سے تنظیم آکر نہیں بنی ہے، پاکستان میں پہلے سے فعال کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے دہشتگرد ہی ہیں جن میں سے کچھ نے داعش کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہے یا داعش میں چلے گئے ہیں، ایسا نہیں لگتا کہ باہر سے کسی نے آکر پاکستان میں داعش بنائی ہے، مثال کے طور پر لال مسجد اسلام آباد کے مولوی عبدالعزیز کہتے ہیں کہ میں داعش کا پیرو ہوں، داعش کا حامی ہوں، داعش کا علمبردار ہوں، طالبان میں پھوٹ پڑی، کئی لوگوں نے طالبان سے علیحدگی اختیار کرکے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا، کئی لوگوں نے طالبان اور القاعدہ کی بیعت توڑ کر داعش کی بیعت کر لی ہے، پاکستان میں دہشتگرد عناصر ہوئی ہیں، بس انہوں نے نام و انداز تبدیل کرکے داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ہمارے لئے اہم ترین یہ ہے کہ یہ تمام دہشتگرد عناصر کسی بھی نام سے سامنے آئیں، انتہائی خطرناک ہیں، اب تو داعش و دیگر کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی سپورٹ میں بغیر داڑھی والے اور بہت ماڈرن لوگ بھی افراد بھی آگئے ہیں، جن کے ذہن بند ہوگئے ہیں، جنکی آنکھیں بند ہیں، جن کے کان بند ہیں، یہ لوگ غور و فکر کرنا نہیں چاہتے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں، لہٰذا اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی کسی نام سے بھی دہشتگردی کر رہا ہے، سپورٹ کر رہا ہے، سب کا بلاتفریق و بلاامتیاز خاتمہ کیا جائے۔
شیعہ نیوز: اسلام آباد میں بیٹھ کر کھلے عام داعش سمیت دیگر دہشتگرد عناصر کی حمایت کرنیوالے لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز کے حوالے سے کیا کہیں گی، جن کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں آ رہی ہے، جبکہ سول سوسائٹی کافی عرصے سے آواز بلند کر رہی ہے۔؟
انیس ہارون: ایک زمانے میں ریاست نے انہیں اور ان جیسے دیگر لوگوں کو پالا پوسا ہے، افغان جنگ میں استعمال کیا ہے، کشمیر بھیجتے رہے ہیں، اگر وہ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ضرورت ہے، یہ ان کا اسٹرٹیجک اثاثہ (strategic asset) ہیں، تو وہ ان کو ختم کرنا نہیں چاہتے، وہ تو بس ان کا سائز کم کرکے انہیں اپنے قابو میں لانا چاہتے ہیں، جیسا کہ یہ ابھی خود ہی مان گئے کہ جب یہ بھارتی پٹھان کوٹ ایئربیس حملے میں استعمال ہوئے، انہوں نے خود یہاں ان لوگوں کو پکڑا ہے، اور کہا ہے کہ ہم ان کا ٹرائل کرینگے۔
شیعہ نیوز: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کو سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرنی چاہیئے۔؟
انیس ہارون: مضحکہ خیز بات ہے کہ سعودی عرب نے اعلان کیا کہ پاکستان اسکے فوجی اتحاد کا حصہ ہے، اس پر جب حکومت سے پوچھا گیا تو مشیر داخلہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ہمیں تو معلوم ہیں نہیں، ہمارے پاس تفصیلات ہی نہیں ہیں، پھر یہ ہوا کیسے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم ہر وقت وہاں کشکول لیکر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں کہ پیسہ چاہیئے، پیسہ چاہیئے، اور وہ دے بھی رہے ہیں، تو وہ ایسے تھوڑی دے رہے ہیں، ہماری آرمی کو تو حکمرانوں نے کرائے کی فوج بنا رکھا ہے کہ جسے ضرورت ہو استعمال کرنے کیلئے، وہ پیسہ دے کر لے لے، جیسے ماضی میں آمر جنرل ضیا الحق نے ہماری فضائیہ کو فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنے کیلئے بھیجا تھا، اسی طرح دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں مشرف نے آدھی رات کو ہی کھڑے ہو کر ایک فون کال پر کہہ دیا کہ ہاں ٹھیک ہے سر، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس سعودی فوجی اتحاد میں بھی ہماری فوج براہ راست تو نہیں گئی، لیکن عسکری تربیت دینے کیلئے تو گئے، کیونکہ پاکستان کی نواز حکومت کا سعودی بادشاہت کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ ہے، لیکن سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت پاکستان کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے، کیونکہ ہم کس سے لڑ رہے ہیں، ہم آپس میں لڑ رہے ہیں، آپس میں اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، سعودی فوجی اتحاد کس کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے، ایران کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے، شیعہ مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے، یہ کوئی طریقہ ہے، بہرحال پاکستان کو سعودی فوجی اتحاد کا کسی طور پر بھی حصہ نہیں بننا چاہیئے۔
شیعہ نیوز: گذشتہ دنوں ممتاز قادری کو تو پھانسی دے دی گئی، لیکن سینکڑوں سزائے موت یافتہ دہشتگردوں کو پھانسی نہیں دی جا رہی ہے، کہا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
انیس ہارون: کچھ عرصہ قبل لشکر جھنگوی کے سرغنہ ملک اسحاق کا انکاؤنٹر کیا گیا، اس طرح جب تک یہ سمجھتے ہیں اکرم لاہوری اور دیگر دہشتگرد انکے yes men ہیں، تو وہ ان کو نہیں مارینگے، لیکن جب انہیں یہ شبہ ہوگا کہ یہ دہشتگرد بھی ملک اسحاق کی طرح قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو یہ انہیں بھی مار دینگے، کچھ لوگوں کو تو کام کیلئے رکھا ہوا ہے، انہیں تحفظ فراہم کا جاتا ہے، مثال کے طور پر حافظ سعید جیسے لوگ، جیسے اہلسنت و الجماعت یعنی کالعدم سپاہ صحابہ، یہ سب کو پتہ ہے کہ سپاہ صحابہ کو جب کالعدم قرار دیا گیا تو انہوں نے نام بدل کر اہلسنت والجماعت رکھ لیا ہے، کیوں ان کے پاکستان بھر میں دفاتر کھلے ہوئے ہیں، کیوں آپ نے انہیں کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
شیعہ نیوز: پنجاب میں حقوق نسواں بل منظور کیا گیا، نواز حکومت women empowerment policy بنا رہی ہے، مگر خواتین و بچے مسلسل اس طبقے کے ہاتھوں ظلم و زیادتی و استحصال کا شکار ہیں، جنہیں حکومتی سرپرستی حاصل ہے، پھر حکومت یہ خواتین کے نام پر یہ قدامات کرکے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔؟
انیس ہارون: دو باتیں ہیں، اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی چھ قوانین خواتین کے اختیارات کیلئے پارلیمنٹ میں منظور کئے گئے، بہت ساری ترقی پسند قانون سازی ہوئی، لہٰذا پاکستانی خواتین جانتی ہیں، ان کے ذہن میں یہ سب باتیں ہیں، تو جب آپ انتخابی عمل میں جاتے ہیں، تو اس میں خواتین کے ووٹ بہت بڑی تعداد میں پڑتے ہیں، اب ان خواتین ووٹرز کو پتہ ہے کہ ان کی اصل ڈیمانڈ کیا ہے، اور کون انہیں پور کر سکتا ہے، لہٰذا یہ سب ان خواتین کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش ہے کہ ہم تو بہت ترقی پسند ہیں، خواتین کے حقوق کیلئے ہم بہت مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، یہ تو پہلی وجہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نواز حکومت نے بیرون ملک بہت سارے معاہدے کئے ہیں، اس مناسبت سے مغرب نے نواز حکومت کو جو فائدے دیئے ہیں، وہ کافی حد تک حقوق نسواں کے تحفظ سے مشروط ہیں، لہٰذا نواز حکومت نے مغرب کو بھی خوش کرنا ہے، اور مغرب کو بتانا ہے کہ ہماری حکومت نے پاکستان میں یہ یہ چیزیں کر دی ہیں، اور یہ یہ کر رہے ہیں، یعنی حقوق نسواں کی مناسبت سے کی گئی قانون یا جو آئندہ مزید ہونے والی ہے، اس کے ذریعے یہ خواتین ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنا اور فوائد حاصل کرنے کیلئے مغربی لابی کو دکھانا چاہتے ہیں۔ میں یہاں واضح کر دوں کہ پنجاب میں جو خواتین کے تحفظ کیلئے بل منظور ہوا ہے، ہم جو خواتین کی تنظیمیں اسے دکھ رہی ہیں، یہ بہت زیادہ کمزور بل ہے، اس میں تو بہت ساری چیزیں شامل ہونی چاہیے تھی جنہیں شامل ہی نہیں کیا، اس بل کو کرمنلائز (criminalize) ہی نہیں کیا گیا، جبکہ اسے کرمنلائز کئے بغیر خواتین کیلئے فائدے مند نہیں بنایا جا سکتا، ہم نے بھی حکومت کو اس بل کے حوالے سے بہت سارے مشورے دیئے تھے، جنہیں حکومت نے مانا ہی نہیں، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ہی زیادہ کمزور بل ہے، اس کو بہت بہتر بنایا جانا چاہیئے، کیونکہ جب تک آپ خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کرینگے، جب تک خواتین کو انکے حقوق نہیں دینگے، تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔
Add new comment