اسرائیل ترکی تعلقات ایک حقیقت
ترک صدر رجب طیب اردوغان سے امریکی یہودیوں کی تنظیموں کے وفد کی ملاقات کے بعد ایک بار پھر ترکی اور صیہونی حکومت کے تعلقات اور ان کا مستقبل ذرایع ابلاغ کی گرما گرم بحث کا موضوع بن گیا۔ امریکہ کے صیہونیوں کی تنظیموں کے وفد نے حال ہی میں ترکی کا دورہ کیا ہے اور اس دورے میں رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی ہے۔ رواں برس کے آغاز میں ترک صدر نے صیہونی حکومت کے مقابل اپنے لہجے میں نمایان نرمی لا کر کہا تھا کہ اسرائيل کو علاقے میں ترکی جیسے ملک کی ضرورت ہے اور ہمیں بھی یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ ہمیں بھی اسرائيل کی ضرورت ہے اور یہ علاقے کی ایک حقیقت ہے۔
رجب طیب اردوغان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہےکہ دوہزار دس سے صیہونی حکومت اور ترکی میں بظاہر تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ صیہونی کمانڈوز نے غزہ کے لئے ترکی کی مرمرہ نامی امداد کشتی پرحملہ کیا تھا اور اس حملے میں دس ترک امدادی کارکن مارے گئے تھے۔ ترکی نے اس واقعے کے بعد صیہونی حکومت سے معافی مانگنے پر تاکید کی ہے تا کہ اس کےبعد دونوں ملکون کے تعلقات معمول پر آسکیں۔ یاد رہے صیہونی حکومت اور ترکی میں محض سیاسی اعتبار سے تعلقات میں کشیدگي ہے اور اس کے درمیان اقتصادی اور سیکورٹی تعاون بدستور جاری ہے اس پر کوئي اثر نہیں پڑا ہے۔
گذشتہ برس کے آخری مہینوں سے انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کےلئے خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں اور دونوں نے بعض امور پر اتفاق بھی کرلیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق مرمرہ کشتی میں صیہونی کمانڈوز کے ہاتھوں مرنے والے افراد کے اھل خانہ کو بیس ملین ڈالر تاوان، ترکی میں حماس کی سرگرمیوں کو محدود کرنا، ترکی میں صیہونی حکومت کے خلاف دائر کئے گئے مقدموں کو خارج کرنا، جیسے امور پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے ترک صدر اردوغان نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ایک شرط یہ رکھی تھی کہ اسرائيل غزہ کا محاصرہ ختم کردے گا لیکن یہ شرط محض دکھاوا تھی اور اردوغان اس شرط سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ انہیں بیچارے مظلوم فلسطینیوں کی بہت زیادہ فکر ہے لیکن صیہونی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے اس شرط کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا کوئي ارادہ نہیں رکھتے۔
ایسا لگتا ہے کہ علاقے کی سطح پرجو حالات بدل چکے ہیں اور بدل رہے ہیں اس بات کا سبب بنے ہیں کہ رجب طیب ارودغان صیہونی حکومت سے قریب ہوتے جائيں۔ رجب طیب اردوغان کی پالیسیاں علاقائي سطح پر بالخصوص شام میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں جبکہ دوسری طرف شام میں روس کے کردار سے ترکی اور روس کے درمیان جو کشیدگي آئی ہے اس کی وجہ سے ترک صدر مجبور ہوگئے ہیں کہ کم از کم میڈیا کی سطح پر وہ صیہونی حکومت کے خلاف موقف نہ اپنائيں بلکہ یہ کوشش کریں کہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کم از کم اس حد تک معمول پر لے آئيں جس حد پر پانچ برس قبل تھے۔ ان حالات میں رجب طیب اردوغان کی صدارت میں ترکی اور صیہونی حکومت کے تعلقات سے مستقبل میں فلسطینی کاز پر کیا اثرات پڑیں گے اس کے لئے دو بنیادی سناریو کا تصور کیا جاسکتا ہے۔
پہلا سناریو یہ ہے کہ ترکی اور صیہونی حکومت کے مذاکرات کامیاب رہیں گے اور ایک سمجھوتے کے تحت ان کے تعلقات ماضی کی طرح اچھے ہوجائيں گے۔ موجودہ حالات میں اس بات کا قومی امکان ہے کہ یہ سناریو جامہ عمل پہن سکتا ہے۔ اس سناریو کے عملی ہونے کے بعد یہ احتمال بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ غزہ پٹی کے حالات بھی بدل جائيں گے اور یہ امید کی جاسکتی ہےکہ غزہ پر صیہونی حکومت کی بعض ظالمانہ پانبدیاں ختم ہوسکتی ہیں اور ایک مرتبہ پھر رجب طیب اردوغان اپنے آپ کو فلسطینی عوام کا مسیجا بنا کر پیش کرسکتے ہیں اور یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی حالت میں بہتری آئي ہے اور وہ غزہ کی تعمیر نو کی بھی کوششیں کررہے ہیں۔
اس کے مقابل یہ ضعیف امکان بھی پایا جاتا ہےکہ صیہونی حکومت اور ترکی کے درمیان مذاکرات، علاقے کے حالات کی وجہ سے خاطر خواہ نتیجے تک نہیں پہنچ پائيں گے یا کم از کم، پہلی بات جو ہم نے کہی تھی وہ تاخیر سے حاصل ہوگي لیکن اس تاخیر سے صیہونی حکومت اور ترکی کے درمیاں جاری اقتصادی تعلقعت اور تعاون پر اثر انداز نہیں ہوگي۔ اس کے علاوہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہےکہ ترکی اور حماس کے تعلقات متاثر ہوجائيں گے اور ترکی بعض حلقوں کے دباؤ میں آگر تحریک حماس کے بعض رہنماؤں سے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا تقاضہ کرے گا۔
Add new comment