پاکستان کنفیوژن کا شکار، داعش کی موجودگی کا اقرار اور انکار
انٹیلجنس بیورو کے سربراہ نے داخلہ امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ اسلام آباد سمیت پنجاب اور ملک کے دیگر شہروں میں عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا نیٹ ورک موجود ہے جس کے خلاف موثر کارروائیاں عمل میں لاتے ہوئے اس کےخاتمے کے لئے آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی۔بی کے سربراہ آفتاب سلطان کی جانب سےسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کے سامنے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد،لاہور سمیت جنوبی پنجاب اور باقی صوبوں میں عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے،سانحہ صفورہ کی مثال دیتے ہوئے آئی۔بی کے سربراہ نے کہا کہ سانحہ صفورہ کیس میں گرفتار ہونے والے تمام تکفیری دہشتگردوں کا تعلق تکفیری دہشتگرد گروہ داعش سے ہی ہے،اور ان گرفتار ہونے والے تکفیری دہشتگردوں سے ہونے والی تفتیش کی روشنی میں جب کاروائیوں کا آغاز کیا گیا تو معلوم ہوا کہ داعش پاکستان میںمنظم وجود رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ حکومتی شخصیات اور اداروں باالخصوص وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے پاکستان میں داعش کی موجودگی سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا،باوجود اسکے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے دورہ برطانیہ کے دوران لندن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران اس بات کا انکشاف کیا تھا ک اسلام آباد میں عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ کی محفوظ پناہ گاہیں اور سہولت کار موجود ہیں ۔جنرل راحیل شریف کا واضع اشارہ اسلام آباد کے قلب میںموجود تکفیری دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ اور سہولت کار مولانا عبد العزیز اور امِ حسسان کی طرف تھا۔ تاہم صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے دبے الفاظوں میں پنجاب میں داعش کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اس تنظیم کے حمایتیوں کی بہت کم تعداد موجود ہے،حالانکہ دیکھا جائے تو خود پنجاب پولیس نے کچھ عرصے میں داعش کے سینکڑوں تکفیری دہشتگردوں کو واصلِ جہنم کرنے کے ساتھ ساتھ کئی داعشی دہشتگردوں کی گرفتاریاں بھی ظاہر کی ہیں۔لیکن نا جانے کیا وجہ ہے حکمران داعش کی موجودگی ماننے کو تیا ہی نھیں ہیں اور ان ہی حکمرانوں کی ماتحت سیکیورٹی ایجینسیز اور دیگر ادارے مسلسل پنجاب میں عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے دہشتگردوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہیں بلکہ اس دوران اچھے نتائج بھی حاصل ہورہے ہیں
آئی ۔بی کے سربراہ آفتاب سلطان کا کہنا تھیں کہ ’ہمیں8 سے 10 سال جاگتے رہنا ہوگا کیونکہ جنرل ضیا الحق کےدور سے لے کر بعد کی دو نسلوں تک کے ذہن بدلے گئے اوراب ان ذہنوں کو بدلنے میں وقت لگے گا۔‘ پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر رحمان ملک کی سربراہی میں داخلہ امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے انٹیلجنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہ سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی،انصار الاسلام،جیش محمد،جماعت الدعوۃ ،جند اللہ سمیت بعض مذہبی سیاسی جماعتیں داعش کی تکفیری سوچ اور اسکی خلافت کی حمایت کرتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اس تنظیم کی حمایت کرتی ہے جبکہ افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔ دوسری جانب وزارت خارجہ کا سرکاری موقف بھی یہی ہے کہ ملک میں داعش کا کوئی منظم نیٹ ورک نہیں ہے اور وہ آئی بی کے سربراہ کی سینیٹ کے سامنے پیش کردہ معلومات ، ثبوتوں پر کوئی تبصرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے ہفتہ وار بریفنگ میں داعش کے بارے میں اپنے ان قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت خارجہ کا داخلی یا سکیورٹی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک مملکتی نظام میں دوسرے محکموں کی طرح یہ وزارت بھی متعلقہ اداروں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہی اپنا نقطہ نظر تیار کرتی ہے اور اسے پیش کرتی ہے۔ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ادارے اس بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی رائے ہی حتمی قرار دی جائے گی۔ لیکن اس صورت میں آخر وہ کون سی مجبوری ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تو نہ صرف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے تال میل کا ذکر کر رہے ہیں اور اس رجحان کے تدارک کے لئے تجاویز بھی پیش کرتے ہیں، لیکن اسی حکومت کی وزارت خارجہ ان معلومات سے بے خبر ایک ایسا طے شدہ موقف بیان کرنے پر مجبور ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک کے دو اہم اداروں کے اس متضاد موقف کی روشنی میں تو یہی اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں سرکاری سطح پر کنفیوژن اور بے یقینی موجود ہے۔ اس لئے وزارت خارجہ صرف وہی بیان دیتی ہے جو ملک کے سیاسی حکمران عوام اور دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی حقیقت سے انکار اور اپنی کامیابی کا مسلسل اصرار تا کہ یہ تاثر پختہ کیا جا سکے کہ حکومت بہت فعال ہے اور صورتحال پورے طور سے اس کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن یہ رویہ شکست خوردگی کا مظہر ہے اور اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ ملک کے سیاسی حکمران نہ تو زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ اس جھمیلے میں پڑنا چاہتے ہیں۔ وہ حکمرانی کے مزے لوٹنا اور آئندہ انتخاب کے موقع پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے چند خوشنما نعرے ایجاد کرنا چاہتے ہیں جو ان کے مخالفین کو زچ کر دیں اور عوام کسی طرح پھر سے اسی قیادت کو اپنی تقدیر سے کھیلنے کا موقع فراہم کر دیں۔سیاستدانوں کے پاس چونکہ اس سوال کا سوائے اس کے کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ بقلم خود اس مشکل کا حل ہیں۔ یعنی برسر اقتدار گروہ کو حکمرانی سے علیحدہ کر کے معاملات کی باگ دوڑ ہمارے ہاتھ میں دے دی جائے تو سارے معاملات درست ہو جائیں گے۔ تجربہ کار اور جہاں دیدہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ ان تجربوں سے گزر چکے ہیں، اس لئے وہ اس نعرے کا استعمال ذرا احتیاط سے کرتے ہیں اور عوام کو اگلے انتخاب میں ہوشمندی سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں
اس تمام تر صورتحال میں عوام ایک لٹو کی مانند گھوم رہی ہے،اور سوچ رہی کہ کیا کیا جائے ؟کس سے فریاد کی جائے ؟ کس کے در پر اپنی پیشانی رکھ کر اپنی اور ملک کی جان کی امان لی جائے۔ حکمران اور ان کے ماتحت اداروں میں کو یکسوئی نظر نھیں آرہی،سب ایکدوسرے کو موردِ الزام ٹہرا کر اپنی کرسی اوراور مفادات کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔اورشاید عوام اب دہشتگردوں کے ہاتھوں میں اپنے مستقبل تلاش کررہی ہے
Add new comment