پاراچنار میں داعش کے دھمکی آمیز پیغامات
پاکستان میں عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے وجود اور عدم وجود کے حوالے سے نجی اور قومی ٹی وی شوز میں کافی بحث و مباحثہ ہوچکا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل وفاقی حکومت نے دہشتگرد گروہ داعش کے سائے سے بھی انکار کیا تھا، لیکن اب داعش کے سائے نہیں، اسکے وجود بلکہ اسکی پوری قوت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ایک نجی ٹی رپورٹ کے مطابق زبیر الکویتی کی سربراہی میں پاکستان اور افغانستان میں داعش اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہے اور دیگر ایجنسیوں کی نسبت اس دہشتگرد تنظیم کی افرادی قوت کرم ایجنسی میں سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ اس رپورٹ کو کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ گذشتہ روز اتوار کو صبح سویرے پاراچنار کے نواحی علاقے جالندھر میں داعش کے نام سے متعدد پمفـلٹ برآمد ہوگئے۔ جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم اس راستے سے کرم ایجنسی پر حملہ کریں گے۔ اسکے ردعمل میں پولیٹیکل انتظامیہ نے فوراً موقع پر پہنچ کر علاقائی مشیران کو ہر قسم کے حالات کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پولیٹکل حکام نے جالندھر کے عوام کو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ علاقے کے دفاع کے لئے روایتی اسلحہ بلکہ ہر قسم کا بھاری اسلحہ بھی اپنے ساتھ لیکر مورچے سنبھال لو۔ چنانچہ جوانوں نے پورے عزم کے ساتھ اپنے ملک اور علاقے کے دفاع کیلئے قدم اٹھایا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاڑہ چمکنی کا وہ علاقہ جہاں سے 2008ء کی لڑائی کے دوران پاراچنار شہر پر میزائل داغے جاتے تھے۔ یعنی درے سری (تین چوٹیاں) کی پہاڑی چوٹی کو فوج نے مکمل طور پر سنبھال لیا ہے، جس سے پاراچنار شہر جہاں عام آبادی کے علاوہ فوج اور ایف سی کے ہیڈ کوارٹر نیز سول انتظامیہ کے دفاتر بھی موجود ہیں، پر میزائل داغے جانے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ خیال رہے کہ گذ شتہ دو ماہ سے حکومت کرم ایجنسی میں ہر قبیلے اور ہر گاوں کی سطح پر رات کے وقت پہرہ دینے کی تلقین کرتی رہی ہے۔ لہذا لوگ حکومت کے کہنے پر اسی وقت سے رات کو پہرہ دیتے رہے ہیں۔ اس دوران کئی مرتبہ کرم ایجنسی میں مختلف مقامات پر دہشتگرد گروہ داعش کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔ نہ صرف دھمکی بلکہ اب تک کرم ایجنسی میں ایک درجن سے زائد مرتبہ راکٹ لانچر اور میزائل کے ذریعے حملے کئے جاچکے ہیں، جبکہ مقامی حکومت نے اس حوالے سے داعش یا اسکے سرپرست قبائل کی آج تک کوئی سرزنش نہیں کی بلکہ یہاں کے اکثریتی، محب وطن اور پرامن قبائل یعنی طوری بنگش اقوام کے خلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ یہاں معاشرے کے فعال اور بااثر افراد کو نامعلوم مقدمات میں ملوث قرار دیکر انکی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے گئے۔ کئی ایک کو گرفتار کیا گیا جبکہ درجنوں افراد گرفتاری کے دوران ناقابل برداشت جسمانی ریمانڈ کے خوف سے اپنے علاقے کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
گذشتہ روز اس نئے پمفلٹ نے حکومت کے ساتھ علاقے کے عوام کو بھی بیدار کر دیا ہے۔ اگرچہ عوام کے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس علاقے پر یہ لوگ اپنی قسمت آزما چکے ہیں، مگر اس علاقے سے انکے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا ہے، بلکہ ہمیشہ سے یہاں پر انکو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ان تمام تر واقعات کے باوجود علاقائی عمائدین اور مشیران ایک خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ داعش کا کوئی وجود نہیں بلکہ حکومت علاقے کو دباو میں رکھنا چاہتی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کرم ایجنسی میں جب انکو آپریشن کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا اور یہ کہ گھر گھر تلاشی انکے لئے مہنگی بھی پڑسکتی ہے تو اب خود ساختہ جنگ کے ذریعے لوگوں کو اپنا اسلحہ باہر نکالنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چنانچہ جب جنگ کے دوران یہ لوگ اپنا اسلحہ مورچوں میں لے جائیں گے تو مبینہ طور پر حکومت اپنی کارروائی شروع کرے گی اور نہایت کم محنت پر اسے تمام بھاری اسلحہ مل جائے گا۔ عزائم کچھ بھی ہوں، سب سے اہم مسئلہ طوری اقوام کے اندرونی اتفاق و اتحاد کا ہے، جب تک قوم کے اندر اتحاد قائم ہے تو کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ بصورت دیگر انکا وجود ہی ختم ہوجائے گا
Add new comment