دہشتگرد گروہ داعش کے منڈ لاتے سائے اور اہلیان کرم ایجنسی کافریضہ
فاٹا سمیت پاکستان بھر میں حالات نہایت خطرناک اور کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ وہی پرانے مہرے نام تبدیل کرکے ایک بار پھر نئے (داعش) کے نام سے سرگرم ہورہے ہیں۔ چنانچہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے تمام تر تکفیری دہشتگرد بالخصوص انکے ساتھ کسی مسئلہ پر اختلاف رکھنے والے تکفیری درندوں نے تو داعش کی بیعت میں سب پر سبقت لی ہے۔ حکومت کی جانب سے فاٹا کی دیگر ایجنسیوں کی نسبت کرم ایجنسی کو اس حوالے سے انتہائی حساس قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کرم ایجنسی کی انتظامیہ اس مسئلے پر مسلسل خاموشی اختیا ر کئے بیٹھی ہے۔
داعش کے منڈلاتے سائے پورے پاکستان پر تو چھاگئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ روز ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پاراچنار کے نواحی علاقے جالندھر، جو کہ ایف آر کے علاقے پاڑہ چمکنی کے ساتھ ملتا ہے، میں داعش کے نام سے دھمکی آمیز پمفلیٹ پھینکے گئے۔ جس میں اس علاقے بلکہ پورے پاراچنار کو حملے کی دھمکی دی گئی تھی۔ حکومت نے اگرچہ علاقے میں خطرناک مورچوں کا کنٹرول پہلے سے ہی سنبھال لیا ہے۔ تاہم تکفیری دہشتگردوں کے لئے علاقے کا اتحاد نہایت ضروری ہے۔ تاہم کسی کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے کیونکہ اب کرم ایجنسی میں حالات اس نہج پر بھی نہیں۔ بلکہ دس دن قبل ایک نہایت سنجیدہ شخصیت علامہ شیخ فدا حسین مظاہری صاحب نے پاراچنار کی مرکزی جامع مسجد کے پیش امام کی حیثیت سے فرائض سنبھال لئے ہیں۔ علامہ صاحب نے اپنے پہلے خطاب کے ساتھ ہی اپنی پالیسی سب پر واضح کردی ہے۔ انہوں نے پہلے جمعہ اور اسی طرح دوسرے جمعہ کو بھی اپنے خطاب میں شیعہ و سنی مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی تلقین کی۔ انہوں نے لوگوں کو اپنے تمام تر اختلافات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ آقائے مظاہری نے اپنی پالیسی وضع کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ حکومت کے بغیر کسی بھی علاقے میں امن ممکن نہیں۔ تاہم حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہمارے مسائل اور جائز حقوق کا خیال رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلے صادر فرمائے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم پر امن قوم ہیں۔ تاہم اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہم پرامن احتجاج کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فدا حسین مظاہری کی آمد شاید کرم ایجنسی کے لئے فال نیک ثابت ہو۔ او اتحاد بینالمسلمین اور اتحاد بین المومنین کی صورت میں پھر داعش کوئی چیلنج رہے گا، نہ ہی طالبان اور القاعدہ۔ چنانچہ علاقے کے عوام اور خواص کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے۔ اور ایسی باتوں اور حرکتوں سے قطعی گریز کرنا چاہئے جن سے نفاق کی آگ بھڑک جانے کا اندیشہ ہو۔
اس حوالے سے علمائے کرام کا فریضہ سب سے زیادہ اور اہم ہے کہ وہ سٹیج اور منبر سے عوام کو اتحاد اور اتفاق کا درس دیں۔ دیگر سطحی موضوعات کی بجائے اپنی تقریروں کا موضوع ہی اتفاق و اتحاد کو قرار دیں۔ اور کرم ایجنسی پر آنے والی ممکنہ آفت سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین کیا کریں۔ اگرچہ اب وہ حالات نہیں رہے ہیں جو ایک یا دوسال قبل تھے۔ تاہم کرم میں رہنے والے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس علاقے اور اس میں رہنے والے افراد کا بیرونی دشمنوں سے پوری قوت کے ساتھ دفاع کریں
Add new comment