پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت(1)

پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں "حسن آغاز" کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔

خواہشات کے مرکب پر سوار نہ ہوں؛

قائد انقلاب اسلامی نے فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول حدیث مع تشریح کو بیان کیا ۔ یہ حدیث، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
خواہشات کے مرکب پر سوار نہ ہوں؛
من اكل ما يشتهي ولبس ما يشتهي وركب مايشتهي لم ينظر اللّه اليه حتى ينزع او يترك.
تحف العقول صحفه 38
ترجمہ : اگر کوئي شخص جتنا دل چاہے کھاتا جو کچھ بھی دل چاہے پہنتا اور جس سواری پر دل چاہ گیا سوار ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اس وقت تک نظر کرم نہیں ڈالے گا جب تک وہ ایسا کرنا ترک نہیں کر دیتا۔
شرح: حدیث میں " رکب ما یشتھی" سے ممکن ہے حقیقی معنی مراد ہوں، یعنی ہر وہ سواری جو ایک شخص کو پسند ہو اور جس پر سوار ہونے کے لئے اس کا دل چاہتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مراد "مرکب الامر " ہو یعنی جس چیز کا بھی دل چاہے وہ کرنے بیٹھ جائے۔ بہرحال خدا وند عالم جو عالم وجود میں تمام انسانی کمالات، تمام خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے، چاہتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا تابع اور دل کا اسیر نہ ہو بلکہ اپنی چاہتوں اور خواہشوں پر قابو رکھے خواہشات سے مجبور ہوکر کوئي کام انجام نہ دے۔ اس منزل میں ان افراد کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے جو اپنی ہر خواہش پوری کرنے پر قادر نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ انسان کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کی راہ ہموار نہ دکھائی دے۔ جہاں تک ہو سکے انسان کو خواہشات کا مقابلہ اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہئے۔

توکل آنکھوں کی ٹھنڈک؛

الدنيا دُوَل، فما كان لك أتاك على ضعفك وما كان منها عليك لم تدفعه بقوّتك ومن انقطع رجاءه مما فات، استراح بدنه ومن رضي بما قَسَمه اللّه قرّت عينه.
تحف العقول صحفه 40
ترجمہ: دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چکر کاٹتی رہتی ہے پس جو کچھ تمارا حصہ ہے وہ تمہیں ضرور ملے گا خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو اور دنیا کی جو مصیبتیں اور آفتیں تمہارا مقدر ہیں انہیں تم اپنے زور بازو سے برطرف نہیں کر سکتے۔ جو شخص ہاتھ سے نکل جانے والی چیزوں کی حسرت دل سے نکال دیتا ہے اس کو جسمانی سکون مل جاتا ہے اور جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل رہتی ہے۔
شرح: حدیث میں "دول" جمع ہے "دولۃ" کی جس سے مراد وہ چیز ہے جو ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دنیوی سرمائے کا مزاج یہ ہے کہ وہ ایک حالت پر نہیں رہتا، تغیر و تبدل اس کا خاصہ ہوتا ہے۔ کبھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ مال و منال، جاہ و حشم، وسائل و امکانات اور صحت و عافیت جو ہمارے پاس ہیں عمر کے آخر تک ہمارا ساتھ دیں گے۔ جی نہیں، بہت ممکن ہے کہ ہم ان سے محروم ہو جائیں۔ یہاں دنیا کی جو بات کی گئي ہے کہ جس نے بھی اپنی امیدیں اس دنیا سے قطع کر لیں اس کے ذہن کو راحت مل گئی۔ اس سے مراد برائي کی دنیا ہے یعنی وہ چیزیں جو انسان اپنی نفسانی خواہشات کےتحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور جس کی خاطر وہ اپنے خالق اور قیامت کو بھی فراموش کر دیتا ہے۔ ورنہ وہ دنیا جو کمال و ارتقا اور ان چیزوں کے حصول کا باعث ہو جن کا حصول انسان کا فریضہ ہے، وہ یہاں پر مراد نہیں ہے۔

تین عادتیں کمال ایمان؛

ثلاثٌ من كنّ فيه استكمل خصال الإيمان:الذي إذا رضي، لم يُدْخِله رضاه في باطلٍ وإذا غَضِبَ لم يخرجه الغضب من الحقّ وإذا قدر لم يتعاط ما ليس له.
تحف العقول صفحه 43
ترجمہ: جس شخص میں یہ تین عادتیں ہوں اس میں ایمانی صفات کامل ہو جائیں گی: جب کسی چیز سے راضی و خوشنود ہو تو یہ خوشی اور پسندیدگی اسے باطل کی حدود میں داخل نہ کر دے، جب غصہ آئے تو وہ دائرہ حق سے خارج نہ ہو جائے، جب قوت و طاقت حاصل ہو تو جو چیز اس کی نہیں ہے اس کی طرف دست درازی نہ کرے۔
شرح: روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان انہیں تین عادتوں تک محدود ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس شخص کے یہاں یہ تینوں صفتیں ہوں اس کے یہاں گویا ایمان کی سبھی صفات جمع ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک صفت، نیک صفات کا گلدستہ ہے اور ایک صفت پیدا ہونے سے صفات حسنہ کے بہت سے پھول کھل جاتے ہیں۔ کسی کی خوشنودی اور محبت اس کو باطل کی طرف نہ کھینچ لے جائے کہ وہ اس کا دفاع کرنے لگے یا اسی طرح کسی سے غصہ و ناراضگی ہے جو غلط روئے کا باعث بنتی ہے۔ جب قوت و اقتدار مل جائے تو انسان ایسا کوئي کام نہ کرے جو اس کو نہیں کرنا چاہئے۔

علم حیا ہے؛

الحياءُ حياءان، حياءُ عقلٍ وحياء حُمْقٍ، وحياء العقل العلم وحياءُ الحُمقِ الجهل.
تحف العقول صفحه 45
ترجمہ: شرم و حیا کی دو قسمیں ہیں، عاقلانہ حیا اور حماقت آمیز حیا، عاقلانہ حیا علم ہے، حماقت آمیز حیا جہالت ہے۔
شرح: عاقلانہ حیا و شرم یہ ہے کہ انسان عقل و خرد کی بنیاد پر شرم و حیا کا احساس کرے۔ مثلا گناہ کرنے سے شرم کرے اسی طرح ایسے لوگوں کے سامنے حیا کہ جن کا احترام لازم ہے علم کی حیا ہے، یعنی ایسے مواقع پر روش اور انداز عالمانہ ہو۔ جہالت کی حیا یہ ہے کہ انسان کچھ پوچھنے سیکھنے یا عبادت وغیرہ میں شرم کرے، جیسے بعض افراد ماحول سے متاثر ہوکر احساس کمتری کے تحت نماز پڑھنے میں شرم کرتے ہیں یہ جاہلانہ حیا ہےجو صحیح نہیں ہے۔

Add new comment