یہ داعش کون ہیں؟
یہ داعش کون ہیں؟ کہاں سے ہیں انکے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ امت مسلمہ کے ہر دردمند فرد کے ذہن میں کلبلاتے ہیں ،،، ان دردمندوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ ہر آن مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں اور ان میں سے جو زیادہ جذباتی ہیں وہ ہر اس گروہ کے پیچھے چل پڑنے کو بیقرار رہتے ہیں کہ جو کسی بھی طور اسلام اور مسلمانوں کا محافظ ہونے کا دعویٰ کرے اور جو ذرا کم جذباتی ہیں وہ جسمانی طور پہ ساتھ تو نہیں دے پاتے لیکن دل سے یا زبان سے اسکی تائید و حمایت کرتے دیکھے جاتے ہیں ،،، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کے مختف حصوں میں ایسے کئی نام نہاد مخلصین ابھرتے رہے ہیں کہ جنہوں نے ان جذباتی مسلمانوں کی ملی تڑپ کا پورا فائدہ اٹھایا اور پھر انکے خوابوں کی دنیا اجاڑ کے رکھدی ۔۔۔ ماضی قریب میں پہلے القائدہ پھر طالبان ، نائیجیریا میں بوکو حرام اور اب عراق اور شام میں داعش کی نمو و پرورش اسی سلسلے کی چند کڑیاں ہیں۔
جہاںتک داعش کا تعلق ہے تو اسنے ان مسلمانوں کی نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ جو 1924 میں امت مسلمہ کے آخری مرکز خلافت ترکی کی تباہی اور وہاں سے خلافت کے ادارے کے خاتمے سے بہت مایوس و ناشاد ہوئے تھے اور اب بھی اسی سوچ کے اسیر ہیں کہ امت مسلمہ کے جملہ مسائل کا حل خلافت کے مرکزی نظام کی بحالی میں مضمر ہے ۔
معروضی حالات میں یہ سوچ کس قدر قابل عمل ہے اس پہ مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت صاد نہیں کرتی تاہم اندر ہی اندر ان میں سے بہتیرے ایسے ہیں جو خود یہ جانتے ہیں کہ یہ خواب اب ناقابل تعبیر ہے تب بھی متمنی ہیں کہ یہ کسی نہ کسی طور شرمندہء تعبیر ہوجائے ۔
داعش کی فصل عراق پہ امریکی افواج کے قبضے کے بعد پیدا ہونے والے ایسے ابتر حالات کی نرسری میں تیار ہوئی ہے کہ مایوس اور منتشر عراقیوں کو اسکے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی میسر نہ رہا تھا اسکی داغ بیل ابومصعب الزرقاوی نے ڈالی تھی کہ جو اصلاً عراق سے تھا لیکن اسنے اپنا پہلا مسلح گروہ اردن میں منظم کیا اور اسنے وہاں اپنی کارروائیاں ایک مسلح گروہ’التوحید والجہاد‘ بناکر شروع کی تھیں پھر وہ اسامہ بن لادن سے مل گیا اور اپنی تنظیم کو عراق میں القائدہ کی شاخ میں ضم کرکے اس کا سربراہ بن گیا تھا 2002 سے 2006 تک کے عرصے میں اسنے اپنی جارحانہ یا دفاعی کارروائیوں سے اس قدر شہرت حاصل کرلی تھی کہ وہ عالمی سطح پہ مطلوب ترین دہشتگردوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پہ شمار کیا جاتا تھا۔
اسی دوران اس نے القائدہ کی عراقی شاخ کا نام دولت اسلامیہ عراق رکھ کر ایک نئے باب کا آغاز کیا لیکن وہ مزید آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ 2006 میں وہ ایک بم دھماکے میں ہلاک کردیا گیا اور کچھ عرصے کیلئے داعش کی یہ ابتدائی شکل پس منظر میں چلی گئی لیکن پھر 2010 میں ابوبکر البغدادی نے جب اسکی کمان سنبھالی تو اچانک ہی اسکی جنگو کارروائیوں میں پھر سے نئی جان پڑگئی اور اسنے اس تنظیم کو نہایت جارح اور متشدد بنادیا اور 3 ہی سال بعد شام میں موجود ایک اور جنگجو مسلح گروہ النصرہ کو اپنے گروہ کے ساتھ ضم کرکے الدولت اسلامیہ عراق و شام (داعش ) قائم کرلی جسکا اول اول تو یہ مقصد تھا کہ وہ شام اور عراق کے چند علاقوں کو باہم ملاکر ایک نئی مملکت کی تشکیل کرے کیونکہ وہ عراق اور شام کی 1932ء میں قائم کردہ حدود کو ماننے سے صاف انکاری ہے۔ابوبکر البغدادی کون ہے اور کہاں سے آیا ہے یہ بھی بہت پراسرار معاملہ ہے ،،، اسکا اصل ابراہیم اعواد ابراہیم البدری ہے اسی وجہ سے خلیفہ ابراہیم بھی کہلاتا ہے، اس ضمن میں اسکے بچپن ، لڑکپن اور اوائل جوانی کے حوالے سے جو معلومات دستیاب ہیں وہ اول تو بہت کم ہیں دوسرے مستند نہیں ہیں اور ان پہ شکوک و شبہات کے گہرے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
بغدادی سے متعلق جو تھوڑی سی معلومات مل سکی ہیں انکے مطابق 44 سالہ اس جنگجو لیڈر کی پیدائش عراقی شہرالسمارہ میں ہوئی تھی اور اسنے بغداد یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی بعد میں فقہ میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں لیکن بعد کے حالات پہ پردہ پڑا ہوا ہے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ عراق پہ امریکی فوج کے قبضے کے زمانے میں ایک برس امریکی مغربی عراق میں قید بھی کاٹ چکا ہے اسکی 2 یا 3 بیویاں ہیں جن میں سے ایک 2 بچوں سمیت لبنانی حکومت کی قید میں ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسنے عراق کو امریکی قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد میں بہت آخر میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ وہ داعش میں بھی 2010 میں شامل ہوا تھا لیکن اپنی شمولیت کے بعد سے مسلسل جارحانہ کارروائیوں میں بہت شہرت پالینے کے بعد جون 2014 میں اسنے عراق اور شام ہی نہیں ساری اسلامی دنیا کے خلیفہ ہونے کا اعلان کرڈالا اور رقہ کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کے بعد یہ بھی کہا کہ وہ اپنی خلافت کو یورپ میں بھی قائم کرے گا۔
اسکے ساتھ ہی اسنے نہایت تیز جنگی حملوں کے نتیجے میں کمزور عراقی حکومت سے 40 فیصد عراقی علاقے چھین لئے اور شام کے بھی بہت سے علاقے اپنے زیرنگیں لے آیا- چونکہ اسنے زیادہ تر ایسے علاقوں پہ قبضہ کیا ہے کہ جہاں تیل کے ذخائر ہیں چنانچہ داعش کے پاس اب کئی ارب ڈالر کے اثاثے ہیں اور ہر قسم کےجدید اسلحے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن میں ٹینک شکن توپیں راکٹ لانچر و میزائل جیسے جدید ہتھیار بھی شامل ہیں۔
بغدادی کی داعش کی ان کامیابیوں نے اسکا حوصلہ بہت بلند کردیا ہے اور اب اسکے لوگ نہ صرف لیبیا، نائیجیریا ، چاڈ ، صومالیہ اور یمن میں بھی لڑرہے ہیں بلکہ اب افغانستان بھی اپنے قدم رکھ چکے ہیں۔ ان علاقوں میں مقامی افراد ہی نہیں بغدادی کی اپیل پہ دیگر کئی ممالک سے حتیٰ کے یورپ اور مغربی دنیا سے بھی نوجوان جوق درجوق آکر داعش کا حصہ بن رہے ہیں - ان میں کچھ تو گمراہ ہوکر اسے دین کی جنگ سمجھ کر لڑنے پہنچے ہیں تو بہت سے لوگ پیسے کی ریل پیل اور عیاشی کے بھرپور امکانات کی وجہ سے داعش میں شامل ہوئے ہیں اور مسلسل ہوئے جارہے ہیں۔
داعش کے ہاتھوں عراق ہی نہیں شام میں بھی بہت بربادی ہوچکی ہے، دین کی اپنی من مانی اور جاہلانہ تشریحات کو سمجھنے والے انکے رویئے نے ہر مختلف سوچ کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ ابتک موصل اور متعدد علاقوں میں 30 مقابر اور9 مساجد مسمار کرچکے ہیں یہاں تک کےانہوں نے کئی انبیاء کرام ( حضرت یونس ، حضرت شیث ، حضرت جرجیس اور حضرت دانیال علیہم اسلام ) کے مزارات کو بھی تباہ کرڈالا ہے۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں انکی حکومت قائم ہوچکی ہے وہاں پہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی روزمرہ کا معمول ہے۔ فقہ کی اپنی من مانی تشریحات کے باعث اپنے نظریات کے خلاف ادنیٰ کوئی عمل یا بات داعشیوں کے لئے قطعی ناقابل برداشت ہے اور قابل گردن زدنی ہے ذرا ذرا سی بات پہ مشتعل ہوکر کسی بھی مختلف الخیال فرد کا سرقلم کردیا جاتا ہے۔
داعش کی حرکات کے خلاف عالم اسلام کے سبھی مسالک کے اکثر علماء نے انکی تکفیر کا فتویٰ دیدیا ہے جس میں قاہرہ میں واقع مشہور مرکزعلمی جامعتہ الازہر جیسے وقیع ادارے کے علماء خاص طور پہ نمایاں ہیں۔
تاہم داعش اور ابوبکر البغدادی کے بارے میں رائے رکھنے والے دو واضح گروہوں میں منقسم ہیں ،،، کچھ لوگ بغدادی کوعراقیوں کی صفوں میں امریکیوں کا ایجنٹ باور کرتے ہیں اور ایک صدی قبل عرب کا روپ دھار کر ترکی کی مرکزی حکومت سے عربوں کو لڑا دینے اور خلافت ترکی کے حصے بخرے کروانے سوائے زمانہ برطانوی ایجنٹ ٹی ایس لارنس کا دوسرا روپ قرار دیتے ہیں کیونکہ اسکی اٹھان کس طرح ہوئی اور وہ اچانک اتنے غیرمعمولی مقام تک کیسے پہنچا ، اسکی تفصیلات کہیں دستیاب نہیں ہیں ، جبکہ دوسری رائے رکھنے والے اسے مغربی طاقتوں کا ایجنٹ تو نہیں کہتے لیکن ایک بے پناہ جذباتی اور جنگجو فطرت کا حامل وہ لیڈر سمجھتے ہیں کہ جو اسلام کی اپنی من پسند تعبیر و تشریح کرتے ہوئے اسے ایک سخت گیر و بے لچک مذہب سمجھ بیٹھا ہے ،،، لیکن خواہ ایک بات درست ہے یا دوسری ، وہ عراق اور شام میں مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا ذمہ دار ہے اور یوں اگر وہ بالفرض مغربی طاقتوں کا ایجنٹ نہیں بھی ہے تب بھی عملاً انکے ہی ایجنڈے پہ عمل کرتا نظر آرہا ہے،گویا وہ مسلمانوں کا وہ نہایت نادان دوست ہے کہ جس نے انہیں کسی دانا دشمن سے بھی کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بات بھی کھل کے سامنے آرہی ہے کہ داعش سے نمٹنے کیلئے مغربی ممالک کے دستوں نے اب تک جو بےلگام کارروائیاں کی ہیں، وہ نہایت غافلانہ و مکارانہ ہیں کیونکہ انکے نتیجے میں مارے جانے والے زیادہ تر افراد بے گناہ و عام شہری ہیں اور ان کی یہ ظالمانہ کارروائیاں و افعال ایک طرح سے داعش کیلئے مزید پھیلاؤ کا سبب بن رہےہیں ۔
اب رفتہ رفتہ امت مسلمہ کی آنکھیں کھلتی جارہی ہیں اور وہاں دنیا بھر سے جوش و جذبے سے پہنچنے اور داعش کا حصہ بننے والے نوجوانوں میں سے بہت لوگ اب خود کو کسی جال میں پھنسے ہوئے پرندے کی طرح محسوس کررہے ہیں لیکن انکے لئے واپسی کی راہیں مسدود کردی گئی ہیں۔
عالم اسلام میں بیشتر کو اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ داعش کے اقدامات سے کسی بھی مغربی ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ ان سے صرف مسلمانوں کو پٹوایا اور دربدر کروایا جارہا ہے اور مسلمانوں کی اس قوت اور ان وسائل کو تتر بتر کیا جارہا ہے کہ جو کبھی مجتمع ہوکر اسرائیل اور امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال سکتی تھی ۔
داعش نے ملت اسلامیہ کو سب سے بڑا نقصان یہ پہنچایا ہے کہ وہ اپنے سفاکانہ طرزعمل اور وحشیانہ سزاؤں کی وجہ سے دنیا کے سامنے اسلام کا پرامن اور حقیقی چہرہ مسخ کرتے جارہے ہیں اور یوں باآسانی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جسکے ہوشربا اعداد وشمار نے طاغوتی قوتوں کی نیندیں اڑا رکھی تھیں تو دراصل ان قوتوں نے القائدہ ، طالبان ، بوکوحرام اور داعش جیسی منفی تنظیموں کے ذریعے دین محمدی کے بڑھتے اور چڑھتے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں اور فی زمانہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کیلئے ایک کے بعد دوسرے محاذ کھولنے ہی کو اپنی بقاء کا نسخہ سمجھ رہے ہیں۔
Add new comment