سعودی عرب شام میں خون ریزی کا ذمےدار
شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے ترکی اور سعودی عرب کو شام میں ہونے والی خون ریزی کا ذمےدار قرار دیا ہے۔ فیصل مقداد نے ہفتے کے دن کہاکہ وہابی، داعش اور رجب طیب اردوغان جیسے افراد دہشتگرد گروہوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے شام میں ہونے والی خونریزی کے اصل ذمےدار ہیں۔ فیصل مقداد نے مزید کہا کہ تاریخ دہشتگردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کرنے والے سعودی عرب کو معاف نہیں کرے گی۔ شام کے نائب وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ شام نہ تو جارحین کے آگے نہیں جھکے گا اور نہ ہی وہ تکفیریوں کے آگے گھٹنے ٹیکے گا کیونکہ فوج عوام کی حمایت کے ساتھ مکمل فتح حاصل ہونے تک دہشتگردوں اور جارحین کا مقابلہ جاری رکھے گي اور وہ ان کے ساتھ گھٹنے نہیں ٹیکے گي۔ واضح رہے کہ شام میں سنہ دو ہزار گيارہ سے فوج اور دہشتگرد گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دہشتگرد گروہوں کو ترکی ، سعودی عرب ، امریکہ اور صیہونی حکومت نیز ان کے عرب اور غیر عرب اتحادیوں کی حمایت اور مالی ، اسلحہ جاتی اور صحافتی مدد حاصل ہے۔
سعودی عرب علاقے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حامی ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے "جمہوریت کا دفاع "نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب اور قطر کی طرف سے دہشگردوں کی تشہیراتی، مالی اور فوجی امداد کی تائید کی ہے۔ امریکہ کے تحقیقاتی ادارے کی یہ رپورٹ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی کئی رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف دہشتگردوں کی مالی اور فوجی مدد کر رہا ہے بلکہ کئی سعودی باشندے عراق اور شام میں موجود ہیں اور دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک دہشتگردی کے تمام واقعات میں سعودی عنصر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور دہشتگردی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔آل سعود دراصل عالم اسلام میں نفاق کا ہدف لیکر ہی اقتدار میں آئے تھے اور آج تک اسی منحوس پالیسی پر کار بند ہیں۔ القاعدہ، طالبان، النصرہ اور داعش کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اعلٰی سطح پر قائم ہیں، جبکہ اسی حمایت کی عالم اسلام کو آج تک سزا دی جا رہی ہے اور اس سے بچاؤ کیلئے ضروری ہے کہ تکفیری سوچ کی ترویج روکی جائے اور اسی کے ذریعے ہی عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ایسے دینی مدارس کو بند کرنا ضروری ہے جو تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ تاہم تکفیری سوچ کو روکنا انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تکفیری سوچ کی ترویج کو روکےاس لئے کہ تکفیری ٹولہ اسلام کے خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کر رہا ہے لہذا آج ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کردار سے اسلام کے حقیقی چہرے کو اجاگر کرے۔ ہماری آواز مضبوط ہونی چاہئے کیونکہ تکفیری دہشت گرد جو کچھ اسلام کے نام پر انجام دے رہے ہیں اس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے کہ اسلام محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور قتل و غارت کے درپے نہیں بلکہ دنیا اور آخرت میں انسانوں کی نجات چاہتا ہے۔ جبکہ تکفیری عناصر کے مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات سے دین اسلام کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ان کے یہ انتہا پسندانہ اور اسلام کی تعلیمات سے عاری اقدامات غیر مسلم افراد کو اسلام سے دور کر رہے ہیں۔ تکفیری دہشت گرد جعلی احادیث اور قرآنی آیات کو اپنے اقدامات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ ان کے شدت پسندانہ اقدامات کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ عام انسانوں کو قتل کر کے ان کے سر تن سے جدا کرتے ہیں اور سعودی عرب انہی کی حمایت و مدد کر رہا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کو ایسا نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ تکفیری گروہ اپنے دہشت گردانہ اقدامات کے سبب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں بدگمانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
خطے میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسلام اور اسلامی معاشروں کیلئے ایک خطرہ ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے عرب ممالک میں ایک نیا گروہ معرض وجود میں آیا ہے جو بعض ممالک میں برسراقتدار آنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے بعد ایک مخصوص سوچ کو پوری دنیا میں پھیلانا شروع کر دیا اور دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر دینی مدارس، یونیورسٹیوں، تحقیقاتی مراکز، اخبارات، اشاعتی اداروں اور میڈیا سنٹرز کی بنیاد رکھی۔ اس گروہ نے پوری دنیا میں اپنی سوچ پھیلانے کیلئے اب تک اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔اس لئے اس کا سدباب ہونا چاہئے اور عالم اسلام میں موجود تکفیری سوچ اور گروہوں کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانان عالم، اسلام کا دفاع کرنے کیلئے میدان میں آئیں۔ اس لئے کہ تکفیری سوچ غیر اسلامی ہے، جس کی ترویج کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔اور اس جانب ابھی اپنی گفتگو میں ہندوستان کے معروف اہلسنت عالم دین اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے بھی اشارہ کیا کہ اسلام کو بدنام کرنے میں سعودی عرب کا اہم کردار رہا ہے۔اس لئے کہ وہابی فکروسوچ رکھنے کی وجہ سے امریکہ، سعودی عرب کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے حالات کشیدہ ہوں اور عالمی سطح پر اسلامی ممالک کو کمزور کیا جاسکے سعودی عرب دنیا کا ایسا واحد دہشتگرد ملک ہے کہ جو وہابی اور تکفیری فکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
Add new comment