سعودی عرب اور دہشت گردی

اس وقت ساری دنیا میں انتھا پسند وہابی دہشتگردوں کو سعودی عرب کی مالی حمایت حاصل ہے۔ بغداد میں امریکہ کے سابق سفیر کرسٹو فر ہیل نے بھی وائٹ ہاوس کو اپنی رپورٹوں میں کہا تھا کہ سعودی عرب عراق میں دہشتگردی کی حمایت کرکے بغداد کی عوامی حکومت کے لئے سب سےبڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ کرسٹو ہل نے وائٹ ہاوس کو آگاہ کیا تھا کہ سعودی عرب اپنے درباری ملاؤں کو قتل کے فتوے جاری کرنے پر مجبور کرکے دیگر قوموں کے خلاف دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔
آج سعودی اور قطری سرمائے کے بل بوتے پر دنیا بھر کے سلفی اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی مدد ہورہی ہے اور اس حوالے سے نہ صرف سعودی اور قطری پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے بلکہ سعودی عرب کے نام نہاد علماء نے اپنے فتووں کی کتابیں بھی کھول دی ہیں۔ سعودی علماء جو بحرین میں حکومت مخالف مظاہرون کو خلاف اسلام اور حرام سمجھتے تھے، آج عراق اور شام میں مسلمانوں کے قتل عام اور حکومت کو نیست و نابود کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں اور انکی دامے درمے سخنے مدد بھی کر رہے ہیں۔
افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، بحرین اورشام میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے ملک کی حثیت سے سعودی عرب کا کردار اتنا عیاں ہو گیا ہے کہ کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ عرب ممالک کی انقلابی تحریکوں اور خطے کے ممالک سے متعلق سعودی عرب کے اقدامات اور موقف سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس وقت سعودی عرب ان تمام ممالک پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں امریکہ کا آلۂ کار بن چکا ہے جن کو واشنگٹن اپنا دشمن جانتا ہے، یا جن ممالک میں امریکہ کے مفادات خطرے میں ہیں۔ سعودی عرب نے خطے کے عرب ممالک میں جاری انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لئے ان ممالک کے حکام کو بے تحاشا دولت سے نوازا ہے،
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں تکفیری دیوبندی اور تکفیری سلفیوں کے ملوث ہونے اور ان کو سعودی عرب سے برا راست حمایت اور فنڈنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور تنظیموں کو چاہیئے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اس بات پر مجبور کریں کہ سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی فنڈنگ جس سے پوری دنیا میں دہشت گردی کی جاتی ہے اس پر اور تکفیری اور سلفی دہشتگردوں کے خلاف کڑے سے کڑے اقدامات کریں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دہشتگردی کے واقعات میں سعودی عنصر صاف دیکھا جا سکتا ہے ، پاکستان میں موجود دیوبندی تکفیری دہشت گرد بھی سعودی فنڈنگ اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود سعودی غلاموں کی مدد سے پاکستان میں رہنے والے شیعہ اور بریلوی مسلمانوں اور اقلیتوں پر آئے روز جو حملے کر رہے ہیں وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کے سعودی عرب اور دہشتگردی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ طالبان اور القاعدہ کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اعلٰی سطح پر قائم ہیں، جبکہ اسی حمایت کی عالم اسلام کو آج تک سزا دی جا رہی ہے۔ اسی بات سے آل سعود کے نفاق آمیز پالسیوں کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اگر آج سعودی عرب میں آل سعود کا خاتمہ ہو جائے تو مسلمانوں کے درمیان بہت سے مسائل اور اختلافات آن واحد میں ختم ہو جائیں۔
انتہا پسندگروہوں میں سعودی عرب کے اثر رسوخ اور سعودی عرب کی جانب سے طالبان سمیت افغانستان ، عراق اور شام میں موجود انتہا پسند گروہوں کی ہمہ گیر حمایت و مدد کۓ جانے کے پیش نظر ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کو طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے اور افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے انخلاء کا راستہ ہموار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے باہمی تعلقات نیز افغانستان میں طالبان کے ساتھ اسلام آباد کے قریبی تعلقات کے پیش نظر سعودی عرب کے ولیعہد سمیت اعلی حکام نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر اس بات کی کوشش کی کہ پاکستانی حکومت طالبان کے ساتھ سمجھوتے کے سلسلے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے لۓ آمادہ ہوجائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ بہت معمولی قیمت پر افغانستان کے امور میں پاکستان کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے بند کۓ جانے اور افغانستان کے امور میں پاکستان کے موقف کو سمجھنے پر تاکید کرتا ہے ۔
سعودی عرب کے اعلی حکام کے دورۂ پاکستان سے خطے میں امریکی پالیسیوں پر سعودی عرب کی تشویش کی بھی عکاسی ہوتی ہے ۔ حتی بعض عرب حلقوں نے آل سعود کا انجام مصر میں حسنی مبارک کے خاندان کے انجام جیسا ہونے کے بارے میں انتباہ دیا ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو ہی انتہاپسندی کے پھیلاؤ کی وجہ سے اپنی اپنی فکر لاحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد اور اعلی حکام نے اسلام آباد کا دورہ کرکے طالبان کے معاملے میں سرگرم کردار ادا کیاہے جبکہ نواز شریف کی حکومت یہ توقع کر رہی ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے دینی مدارس میں اپنے اثر رسوخ سے فائدہ اٹھا کر اس ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں اس کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب ہی پاکستان میں وہابیت کا پرچار کررہا ہے اور وہابیت ہی پاکستان میں تشدد اور دہشتگردی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

Add new comment