القسام بریگیڈ پر پابندی سے فلسطینی مشتعل ۔میڈیا

ٹی وی شیعہ[ مرکز اطلاعات فلسطین]مصر کی ایک عدالت کی جانب سے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس" کے عسکری ونگ عزالدین القسام شہید بریگیڈ کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دینے کے فیصلے پر فلسطینی عوام میں شدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فلسطین کی نمائندہ شخصیات اور جماعتوں ‌نے بھی مصری عدالت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی خدمت قرار دیا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اتوار کے روز مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت فلسطین کے مختلف شہروں میں مصری عدالت کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس اور ریلیاں بھی منعقد کی گئیں جن میں ہزاروں فلسطینیوں‌نے شرکت کرکے مصری عدالت کے فیصلے کو یکسر مسترد کردیا۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مصرنے القسام بریگیڈ پرپابندیاں عاید کرکے اسرائیلی جنگی جرائم کی پردہ پوشی اور مظلوم فلسطینی عوام سے دفاع کا حق بھی سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ القسام بریگیڈ کا ہدف صرف قابض اسرائیل ہے۔ حماس اور القسام کسی دوسرے ملک کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھاتی۔ اس کے باوجود مصری عدالت کا فیصلہ نہایت افسوسناک ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطینی تجزیہ نگار پروفیسرعبدالستارقاسم نے کہا کہ القسام بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دینے کا مصری عدالت کا فیصلہ "باطل" ہے۔ حماس اور القسام بریگیڈ ‌نے کبھی بھی صہیونی دشمن کے سوا کسی دوسرے ملک کے خلاف بندوق نہیں اٹھائی ہے۔ جزیرہ نما سینا میں دہشت گردی کے واقعات دولت اسلامی "داعش" جیسے متشدد گروپوں کی کارستانی ہیں۔ مصری عدالت نے ایک ایسے وقت میں حماس کے عسکری ونگ پرپابندی عاید کی ہے جب یورپی عدالتیں بھی حماس پر پابندیاں اٹھانے کی بات کررہی ہیں۔ ایسے میں قاہرہ کے عدالتی فیصلے کا کوئی جواز نہیں ‌ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصری عدالت کا فیصلہ "انصاف کا قتل"، عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اورظالم کے ظلم کوتحفظ دینے کے مترادف ہے۔
فلسطینی انسانی حقوق کی خاتون سماجی کارکن سجی المصری نے مصری عدالت کے فیصلے کو بھی عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطین کے ایک سیاسی اور سماجی رہنما عصام جمیل نے جب داعش کی جانب سے ایک ویڈیو اور صوتی پیغام میں‌جزیرہ نما سینا میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی تھی ایسے میں مصری عدالت کے پاس القسام بریگیڈ پر پابندیوں کا کون سا جواز تھا۔ انہوں ‌نے مصر کے باضمیر عوام سے اپیل کی کہ وہ عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

نابلس سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار محمود ابو العلا نے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ مصری انٹیلی جنس اور القسام بریگیڈ کے درمیان سیکیورٹی تعاون جاری ہے۔ ایسے میں عدالت کی جانب سے القسام بریگیڈ ‌پر پابندی کا فیصلہ کیوں ‌کر کیا گیا ہے۔ یہ وہی القسام بریگیڈ کے جس کے ساتھ مصری انٹیلی جنس نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کی ڈیل طے کی تھی۔

رام اللہ کے شہر بہاء خلیل نے کہا کہ قاہرہ کی عدالت کا فیصلہ مصر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین کارنامہ ہے۔ تاریخ اسے ہمیشہ مصری عدالت کے غیرمنصفانہ فیصلوں‌ میں شمار کرے گے۔ انہوں ‌نے کہا کہ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے بوریا بستر لپیٹ کر نکلنے پرمجبور کیا۔ صہیونی دشمن کو تین بار جنگی محاذوں پر شکست فاش دی۔ اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے مذموم عزائم ناکام بنائے اور غزہ میں امن قائم کیا۔ بھلا اسے مصری عدالت کی طرف سےدہشت گرد قرار دینے کا کیا جواز تھا۔

فلسطینی طالبہ سہاد کمال نے کہا کہ القسام کی بندوق سے کبھی کسی بے گناہ کا قتل نہیں ہوا۔ اس کا نشانہ صرف صہیونی دشمن تھا۔ مصری حکومت، ریاست اور فوج القسام کا کبھی ہدف نہیں ‌تھے۔ اس کے باوجود قاہرہ کی ایک عدالت کی طرف سے ایک ظالمانہ فیصلہ جاری کر کے یہ ثابت کیا گیا کہ مصر فلسطینیوں کے ساتھ نہیں‌ بلکہ ان کے دشمن اسرائیل کے ساتھ ہے۔

فلسطینی شہری سہیل بشار نے کہا کہ مصری عدالت کا فیصلہ میڈیا کی اشتعال انگیزی اور حماس کے خلاف جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا نتیجہ ہے۔ مصری عدالت نے القسام کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ صادر کرنے سے قبل کوئی ثبوت تک نہیں مانگا۔ صرف مصری میڈیا کی شر انگیزی کو بنیاد بنا کر پابندی لگائی گئی جو اخلاق، منطق اور عقل کے بھی خلاف ہے

Add new comment