امام زين العابدين (عليہ السلام) کا مختصر تعارف
نام: علي (ع)
لقب: سجاد، زين العابدين
کنيت: ابو محمد
والد کا نام: حضرت امام حسين (عليہ السلام)
ولادت: ۳۸ ہجري
مدت امامت: ۳۵ سال
عمر: ۵۷ سال
شہادت: ۹۵ ہجري ميں ہشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر کے ذريعہ شہيد کئے گئے۔
مدفن: قبرستان جنت البقيع
ولادت:
خليفہ دوم کے زمانے ميں جب ايران مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا يزد گرد کي بيٹيوں کو مدينہ لايا گيا تمام لوگ مسجد ميں جمع تھے کہ ديکھيں عمر کيا فيصلہ کرتا ہے۔ خليفہ نے انہيں فروخت کرنا چاہا مگر حضرت علي (ع) نے اسے روکا اور عمر سے کہا کہ ان لڑکيوں کو آزاد کردو تاکہ جس سے چاہيں شادي کرليں۔ عمر نے حضرت علي (ع) کي بات مان قبول کرلي اور فيصلہ ديا کہ جس کو چاہيں انتخاب کرليں۔ ايک لڑکي نے حضرت امام حسين بن علي (عليہ السلام) کو اور دوسري نے امام حسن مجتبي (عليہ السلام) کو چن ليا۔ حضرت علي (ع) نے امام حسين (عليہ السلام) سے فرمايا: اس کا خاص خيال رکھنا کيونکہ اسي کے بطن سے ايک امام پيدا ہوگا جو روئے زمين پر تمام مخلوقات خدا سے بہتر ہوگا اور باقي سب آئمہ کا باپ ہوگا۔ پس تھوڑي مدت کے بعد علي بن حسين (عليہ السلام) بروز جمعرات ۵ شعبان ۳۸ ہجري کو مدينہ ميں پيدا ہوئے ان کا نام علي اور بعد ميں زين العابدين و سجاد کے لقب سے ملقب ہوئے۔
امام کي اخلاقي خصوصيات:
تقوي اور پرہيز گاري:
امام کي ايک خصوصيت تقوي اور پرہيز گاري تھي۔ امام صادق (عليہ السلام) نے فرمايا کہ: علي ابن الحسين (عليہ السلام) کردار ميں فرزند بني ہاشم ميں سب سے زيادہ حضرت علي (عليہ السلام) سے مشابہ تھے۔ آپ کے فرزند امام محمد باقر (عليہ السلام) فرماتے ہيں کہ: ايک دن ميں اپنے والد بزرگوار کي خدمت ميں گيا ديکھا کہ وہ عبادت الہي ميں غرق ہيں، آپ کا رنگ زرد اور آنکھيں زيادہ رونے کي وجہ سے سرخ ہوچکي تھيں۔ قدموں پر ورم اور پنڈلياں خشک ہوچکي تھيں ۔ ميں نے عرض کيا: والد گرامي آپ عبادت ميں کيوں بے اختيار ہوجاتے ہيں اور اپنے آپ کو کيوں اتني زحمت و تکليف ميں ڈالتے ہيں؟ ميرے والد نے فرمايا: بيٹے ميں جتني بھي عبادت کروں آپ کے جد بزرگوار حضرت علي (عليہ السلام) کے مقابلہ ميں کچھ بھي نہيں ہے۔ طاؤوس يماني کہتے ہيں ميں نے امام (ع) کو ديکھا کہ کعبہ ميں سجدہ کررہے ہيں کہ کہہ رہے ہيں: ميرے اللہ تيرا بندہ تيرا محتاج ہے تيرے دروازے پر تيري رحمت و احسان اور بخشش کا منتظر کھڑا ہے۔
زندگي اور لوگوں کي تربيت:
امام زين العابدين (عليہ السلام) اپنے جد بزرگوار کي طرح زمين کي آباد کاري اور کھجوروں کے باغات لگانے ميں مشغول رہتے تھے ہر کھجور کے پاس دو رکعت نماز ادا کرتے۔ اور نماز کے وقت اتنا اپنے آپ سے بے خبر ہوجاتے کہ غير خدا کي طرف بالکل توجہ نہ رہتي۔ ٢۰ دفعہ پيدل چل کر مکہ گئے اور ہميشہ قرآني تعليمات کے ذريعہ لوگوں کي ہدايت و راہنمائي کرتے۔ تمام عمدہ انساني صفات آپ کے وجود ميں موجود تھيں اور آپ بردباري ۔ در گذر، اور جانثاري کا مکمل نمونہ تھے۔ سينکڑوں غريب اور فقير گھرانوں کي کفالت فرماتے گھر کے سامنے ہر روز کئي گوسفند ذبح کرتے اور تمام غريبوں ميں تقسيم کرديتے۔ جن کے پاس لباس نہ ہوتا انہيں لباس ديتے، مقروض کا قرض ادا کرتے مگر خود سادہ لباس اور غذا سے استفادہ کرتے۔ ايک شخص امام زين العابدين (عليہ السلام) کے پاس آيا اور برا بھلا کہنا شروع کرديا، امام (ع) نے اس کے سامنے کسي قسم کا رد عمل کا اظہار نہ کيا اور فرمايا: اے بھائي اگر تم سچ کہہ رہے ہو اور يہ صفات مجھ ميں پائي جاتي ہيں تو خدا وند مجھے معاف فرمائے اور ميرے گناہوں سے درگذر کرے اور تم اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا وند تجھے معاف کرے اور تيرے گناہوں سے در گذر فرمائے۔ وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور امام سے معذرت خواہي کرنے لگا۔ ابو حمزہ ثمالي امام کے اصحاب ميں تھا اس نے امام کے خادم سے کہا کہ: مختصر طور پر امام کے اخلاق ميرے سامنے بيان کرو۔ اس نے کہا کہ: کئي سال سے ميں امام کي خدمت کررہا ہوں ان سے ميں نے ہميشہ سچ، درستي، تقوي اور پاکيزگي ہي ديکھي ہے۔ ميرے مولا اتني مشکلات کے باوجود لوگوں کا خيال رکھتے ہيں اور انکي مشکلات و پريشانياں دور فرماتے ہيں ۔ زيد بن اسامہ مرض الموت ميں مبتلا تھا امام اسکي عيادت کيلئے تشريف لے گئے زيد رورہا تھا جب امام نے گريہ کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ: ميں ۱۵ ہزار دينار کا مقروض ہوں اور ميري کل پونجي اس قرض کيلئے ناکافي ہے۔ امام (ع) نے فرمايا: گريہ نہ کرو اور مطمئن رہو ميں تمہارا سارا قرض ادا کردوں گا۔ جب رات اپنے سياہ پردے ڈالتي اور سب لوگ سوجاتے تو حضرت سجاد (ع) اٹھتے اور ايک برتن ميں غذا رکھتے کندھے پر ڈالتے اور اپنا چہرہ ڈھانپ ليتے تاکہ کوئي پہچان نہ سکے پھر اسکو غرباء کے گھروں ميں لے جاتے اور انہيں عطا کرتے۔ تقريبا مدينہ ميں سو بے سرپرست خاندانوں کي کفالت کرتے اور ان ميں سے اکثر بينوا اور زمين گير تھے اور عجب يہ تھا کہ ان خاندانوں ميں سے کوئي بھي يہ نہيں جانتا تھا کہ ہماري کفالت کرنے والے امام زين العابدين (عليہ السلام) ہيں۔ ليکن آپ کي شہادت کے بعد جب مدد کا سلسلہ منقطع ہوگيا تو انہيں معلوم ہوا کہ ہمارے يار و مدد گار امام زين العابدين (عليہ السلام) تھے ۔
والد گرامي کے ہمراہ:
آپ کربلا کي طرف ہجرت سے ہي اپنے والد گرامي کے ہمراہ تھے اور قدم بقدم حضرت امام حسين (عليہ السلام) کے پيچھے چل رہے تھے حتي جب عاشور کے روز امام حسين (عليہ السلام) نے "ھل من ناصر ينصرني" کي صدا بلند کي تو آپ اٹھے تاکہ اپنے والد گرامي کے مدد کريں ليکن حضرت زينب (ع) سامنے آگئيں اور فرمايا: آپ تنہا اس گھرانے کي نشاني ہيں اور امام حسين (ع) کے بعد امام ہيں ہم سب کے سرپرست ہيں، آپکا کام ہماري سرپرستي اور لوگوں تک شہداء کے پيغام کو پہنچانا ہے اگر چہ کچھ نا آگاہ لوگ امام کو بيمار، بےکار، اور ضعيف تصور کرتے ہيں ليکن وہ سخت غلطي پر ہيں چونکہ امام (ع) کي بيماري مصلحت خدا تھي تاکہ دشمن کے ظلم سے محفوظ رہيں، آپ کربلا کي زندہ تاريخ تھے۔ اس لئے امام حسين (ع) اور آپ کے جانثار ساتھيوں کي شہادت کے بعد شمر کچھ بني اميہ کے ظالموں کے ہمراہ خيمہ گاہ کيطرف آيا تاکہ پسماندگان کو بھي قتل کردے چونکہ آپ بيمار تھے لہذا اسکے ہمراہوں نے اعتراض کيا، عمر سعد اس کے پيچھے آيا اور شمر کو اس جسارت کے باعث سرزنش کي اور امام کے خيام سے نکال کر کہنے لگا: يہ ايک بيمار شخص ہے وہ کچھ کرنے کے قابل نہيں لہذا اسے رہنے دو۔
امام اور ہشام:
عبدالملک کئي سال ظلم بھري زندگي گذار کر اس دنيا سے چلا گيا اور اسکا بيٹا ہشام اس کي جگہ پر حاکم قرار پايا وہ ايک دفعہ ايام حج ميں مکہ گيا تاکہ (اسکے اپنے قول کے مطابق) خانہ خدا کي زيارت بھي کرے اور سادہ لوح افراد کو دھوکہ بھي دے۔ چنانچہ جب طواف کرنے لگا تو زيادہ ہجوم کي وجہ سے طواف نہ کرسکا اور مجبور ہوکر ايک جگہ بيٹھ گيا تاکہ ہجوم ختم ہوجائے اچانک امام سجاد (ع) حرم ميں تشريف لائے لوگوں نے درود بھيجا اور آپ کے لئے راستہ بنايا۔ حضرت طواف کے بعد حجر اسود کي طرف گئے تاکہ اس کا بوسہ ليں ہشام نے جب يہ ديکھا تو بہت پريشان ہوا اور بے اعتنائي سے کہنے لگا: يہ شخص کون ہے؟ ميں اسے نہيں جانتا! فرزدق آزاد شاعر نے فورا ہشام کي طرف ديکھ کر کہا: اے ہشام مجھے تعجب ہے کہ تو اسے کيوں نہيں جانتا اگر تو اسے نہيں جانتا تو ميں اسے اچھي طرح جانتا ہوں ميں تجھے بتلاؤں کہ وہ کون ہے۔ يہ وہ ہيں کہ جسے سرزمين مکہ اور حرم خدا وند جانتے ہيں،يہ وہ ہيں کہ جن کے جد نامدار رسول اسلام ہيں۔ خدا ان پر درود بھيجتا ہے يہ بہترين بندگان خدا کے فرزند ہيں يہ وہ مشہور پرہيزگار ہيں، اور تو کہتا ہے کہ ميں انہيں نہيں پہچانتا، انہيں کوئي فرق نہيں پڑتا اگر تو انہيں نہيں پہچانتا تو عرب و عجم انہيں پہچانتے ہيں۔ ہشام کو فرزدق کي گفتگو سے سخت غصہ آگيا اور اس نے حکم ديا کہ اسے جيل بھيجديا جائے۔ امام (ع) نے جيل ميں اس کے لئے ہديے بھيجے اس کي زحمات کي قدر داني کي اور ايک دن اسے جيل سے رہا کروايا ۔
حضرت امام سجاد (ع) اور صحيفہ سجاديہ:
جب امام سخت مشکلات اور محاصرہ ميں تھے تو آپ نے اپنے مطالب کو دعا کي شکل ميں پيش کرنا شروع کرديا، آپ کي دعاؤں کو صحيفہ سجاديہ ميں جمع کيا گيا ہے يہ کتاب اگرچہ ظاہرا ايک کتاب ہے مگر يہ علمي، رياضي، طبيعي، فلکي، اجتماعي، سياسي اور اخلاقي مطالب کا دريا ہے اس ميں حقيقي مشکلات اور تکاليف کا بيان ہے، ہم بطور نمونہ چـند مختصر اور سادہ جملات کا ترجمہ کيۓ ديتے ہيں:۱۔ خدا يا ميں اپني زندگي ميں حسد، غصہ، فضول خرچي اور پرہيز گاري کي کمي سے تيزي بارگاہ ميں پناہ مانگتا ہوں، خدايا اگر ميري زندگي تيري اطاعت ميں گذرے تو مجھے زندہ رکھنا اور اگر شيطان کي چراہگاہ بن جائے تو مجھے اپني طرف لے جا اور ميري جان لے لينا، ٢۔ اے بيٹا والدين کي عزت کرو! کيونکہ اگر باپ نہ ہوتا تو تم بھي نہ ہوتے اور ماں کو ديکھو! کہ جو ہر لحاظ سے تمہاري حفاظت کرتي ہے اسے کوئي پرواہ نہيں کہ وہ خود بھي بھوکي رہتي ہے اور تجھے سيراب کرتي ہے خود اچھے کپڑے نہ پہنکر تجھے پہناتي ہے خود دھوپ ميں رہ کر تجھے سايہ مہيا کرتي ہے تم اس کا اجر نہيں دے سکتے بلکہ صرف خدا ہي اس کا اجر دے سکتا ہے، ۳۔ اپني اولاد کا خيال رکھيں چونکہ نيک و بد ہر دو صورت ميں اس کا تيرے ساتھ تعلق ہے اور تم اسکي تربيت و راہنمائي کے ذمے دار ہو، ۴۔ اپنے بہن بھائيوں پر شفقت و مہرباني کريں کيوں کہ وہ تيرے بازو، تيري عزت اور طاقت ہيں دشمن کے مقابلہ ميں ان کي مدد اور خير خواہي کرو! ۵۔ استاد کا احترام کرو! اسکے سامنے ادب سے بيٹھو! اور اسکي گفتگو توجہ سے سنو! اس کے سامنے بلند آواز ميں گفتگو نہ کرو! نيز اگر کوئي اس سے سوال کرے تو اگر چہ تجھے اس کا جواب معلوم ہو پھر بھي اس سے پہلے بات نہ کرو، ۶۔ ہمسايہ کا احترام کرو، اسکي مدد کرو! اگر اس کا کوئي عيب ديکھو تو اسے چھپاؤ! اور لغزشوں ميں اسے نصيحت کرو! ۷۔ اپنے دوست کيساتھ انصاف کرو، اور اسے ايسے چاہو جيسے وہ تمہيں چاہتا ہے اگر گناہ کرنے لگے تو اسے منع کرو، ہميشہ اس کے لئے رحمت بنو، نہ عذاب ۔
اشعار در مدح امام سجاد (عليہ السلام):
دين احمد (ص) کي قسم حق کا ولي ہے سجاد (ع)
آيت حق ہے امام ازلي ہے سجاد
ساتھ تيرے نہيں زنجير کي جھنکار ہے يہ
قسمت دين تيرے ساتھ چلي ہے سجاد
جس کے ہر لفظ نے دنيا کو اجالا بخشا
تيرے خطبات کي وہ شمع جلي ہے سجاد
کرکے ثابت يہ زمانے کو دکھايا تو نے
ذلت زيست سے تو موت بھلي ہے سجاد
ہر نشاں پاؤں کا اسلام کي تصوير بنا
تيرے چلنے ميں وہي شان علي ہے سجاد
صبر کے چہرے پہ جو آب نظر آتا ہے
يہ تيرے صبر کي ہي دريا دلي ہے سجاد
پھوٹ کر چھالوں نے قدموں کو جہاں چوما ہے
ميري آنکھوں ميں وہ پر خار گلي ہے سجاد
عزم حيدر کي قسم مقصد شبير کي شاخ
خون سے آپ ہي کے پھولي پھلي ہے سجاد
پڑھ کے جب ناد علي خود کو دم ميں نے
ميرے سر آئي بلا آکے ٹلي ہے سجاد
دہر ميں غيرت اسلام بچانے کے لئے
بے ردا زينب دلگير چلي ہے سجاد
ميں فرمان کا پوتا ہوں مگر عاصي ہوں
تيرا فرمان تو فرمان خدا ہے سجاد
آبرو ہي نہيں ہر فرد عقيدت سے جھکا
جب سر بزم تري بات چلي ہے سجاد
منابع اور مآخذ:
ماخذ: www.alhassanain.com
Add new comment