یہ بچے کس کے ایجنٹ تھے؟

ٹی وی شیعہ[مانیٹرنگ ڈیسک]انہیں کیسے چھپاؤ گے؟ ان چھلنی جسموں کو کس جواز کے کفن میں لپیٹو گے؟ انہیں کس توجیہ کی چادر سے ڈھانپو گے؟ انہیں کس دلیل کے تابوت میں لٹاؤ گے؟ اس خون سے دامن کیسے بچاؤ گے؟ اب دھو کر دکھاؤ اس دھبے کو جو تمہارے دامن پر لگا ہے، اب چھپاؤ اس کالک کو جو تمہارے "اپنوں" نے تمہارے منہ پر ملی ہے، اب کہو خود کو پاکستانی اور اپنا سر اٹھا کر دکھاؤ، اب کہو خود کو مسلمان اور رسولِ اسلامؐ سے آنکھیں ملا کر دکھاؤ، جو فرماتے تھے بچے باغ کا پھول ہیں، جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا، جو فرماتے تھے کہ جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ اب کس لاتعلقی کے پردے میں خود کو چھپاؤ گے؟ پشاور کے سکول میں شہید ہونے والے یہ بچے شیعہ تھے یا سنی؟ یہ مسیحی تھے یا ہندو؟ یہ احمدی تھے یا پارسی، ان کا مذہب اور عقیدہ کیا تھا؟ یہ سعودی عرب کے ایجنٹ تھے یا ایران کے؟ ان کا قصور کیا تھا؟ ان کا گناہ کیا تھا؟ انہوں نے کس کی توہین کی تھی؟ انہوں نے کس کے مقدسات کی نفی کی تھی؟ ان سے مذہب کو کیا خطرہ تھا؟ انہیں کس بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔؟

پہلے صرف شیعہ قتل ہوتے تھے تو ان کی لاشیں فرقہ واریت اور سعودی ایران پراکسی جنگ کی چادر سے چھپا دی جاتی تھیں، ان کے قتل کے سو جواز ڈھونڈے جاتے تھے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ مقتول ہی قصوروار نظر آتا تھا۔ پھر مسیحی اور ہندو قتل ہونے لگے تو ہم انہیں غیر مسلم کہہ کر لاتعلق ہوگئے، احمدیوں کی باری آئی تو ان کے عقائد کو قتل کا جواز ٹھہرایا گیا، بریلویوں کا خون بہا تو ان کے خونِ ناحق کو بھی خرافات اور شرک کے فتووں سے بنے کپڑے سے صاف کر دیا گیا۔ سب جائز ہے، سب درست ہے، سب بہترین ہے۔ اب ڈالو ان معصوموں کی لاشوں پر کسی جواز کا پردہ، اب پہناؤ انہیں کسی بوسیدہ توجیہ کا کفن، اب لٹاؤ انہیں کسی دلیل کے تابوت میں، اب دھو کر دکھاؤ اس دھبے کو جو تمہارے دامن پر لگا ہے۔ اب جھٹلاؤ حقائق کو یہ جنگ فرقہ واریت نہیں ہے، یہ کوئی پراکسی جنگ نہیں ہے، یہ شیعہ و سنی کی جنگ نہیں ہے، یہ مسلم و غیر مسلم کی جنگ نہیں ہے، یہ درندوں کی انسانوں پر یلغار ہے، یہ یکطرفہ قتل و غارت ہے، یہ سفاکی ہے، بربریت ہے، ظلم ہے اور فقط ظلم ہے۔ یہ تکفیری طالبان کی جنگ ہے انسانوں کے خلاف۔

مفتی صاحب، یہ عذاب یونہی نہیں آجاتے، انہیں بویا جاتا ہے۔ جو بو گے وہی کاٹو گے، ہر سبب کا ایک مسبب ہوتا ہے، ہر معلول کی ایک علت ہوتی ہے، ہر نتیجے کی ایک وجہ ہوتی ہے۔ مفتی صاحب، نفرت بوئیں گے تو نفرت ہی کاٹیں گے، حسد بوئیں گے تو حسد ہی کاٹیں گے، تنگ نظری بوئیں گے تو تنگ نظری ہی کاٹیں گے، دہشت گردی بوئیں گے تو دہشت گردی ہی کاٹیں گے۔ کبھی سنا ہے گندم بوئی تھی لیکن کپاس اگ آئی؟ کبھی سنا ہے کپاس بوئی تھی لیکن گندم اگ آئی؟ کبھی سنا ہے محبت بوئی تھی لیکن نفرت اگ آئی؟ کبھی سنا ہے انسانیت بوئی تھی لیکن درندگی اگ آئی؟ جرنیل صاحب، مفتی صاحب، دانشور اور تجزیہ کار صاحب، سیاسی لیڈر صاحب، اب کیا بیچتے ہو؟ کتنی مرتبہ جھوٹی امید خریدیں؟ کیا شاخ کو کاٹنے سے درخت مر جاتا ہے؟ طالبان تو ایک زہریلی شاخ ہے جو تکفیریت، نفرت، تنگ نظری، جہالت، ڈالر خوری اور مفاد پرستی کے درخت سے نکلی ہے۔

نفرت پھیلانے والے آج بھی ٹی وی پر آکر جواز گھڑ رہے ہیں، وہ آج بھی ظالم اور مظلوم کو ایک ہی درجے پر رکھ رہے ہیں، قاتل کی شناخت آج بھی چھپائی جا رہی ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے ادھر اُدھر انگلی اٹھائی جا رہی ہے، کفر کے فتوے آج بھی لگ رہے ہیں، سینوں میں آگ آج بھی جل رہی ہے اور آپ کہتے ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا؟ اس منڈی میں یہ مال اب نہیں بِکے گا۔ اپنی دکان بڑھاؤ یا گاہک پھنسانے کا کوئی نیا جھانسہ لاؤ۔ جرنیل صاحب، یہ مجاہد کب شدت پسند بنے، کب طالبان بنے اور کب دہشت گرد خوارج بنے کچھ یاد ہے؟ سپر طاقتوں کی جنگ لڑنے کیلئے اپنے ملک کو آگ میں جلا دیا، کسی کا کیا نقصان ہوا؟ گھر ہمارا جلا، لوگ ہمارے مرے، گودیں ہماری ماؤں کی ویران ہوئیں، سہاگ ہماری بہنوں کے اجڑے، نفرت ہمارے سینوں میں بھڑکی، تنگ نظری ہماری سوچ میں آئی اور آج وہ سانحہ ہوا جس نے ہم سب کا سر شرم، ندامت اور دکھ سے جھکا دیا ہے۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے اور جملے مکمل نہیں ہو رہے، بس ایک تحریر ہے جسے اشکوں سے لکھا جا رہا ہے۔

دو چار کو لٹکانے سے قوم کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا، لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔ پورے معاشرے کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، جس کی بنیادوں میں درست بیج کاشت کئے جائیں۔ جب تک جڑی بوٹیوں سے بھری ہوئی اس کشتِ ویراں میں ہل چلا کر اس سے فاسد بیج نکالے نہیں جاتے اور امن، محبت، بھائی چارگی، وسیع النظری اور برداشت کے بیج بوئے نہیں جاتے اس وقت تک یہ خون بہتا رہے گا۔ ان معصوم شہیدوں کا ہم پر قرض ہے کہ تکفیریت اور نفرت کی سوچ کو اکھاڑ پھینکیں اور رسول اللہؐ کے اسلام کی بنیاد پر ایک نیا معاشرہ تعمیر کریں، جس میں ظالم کو ظالم، قاتل کو قاتل اور مظلوم کو مظلوم کہا جائے، جس کی بنیادوں میں کربلا کی آمریت مخالف، حیات بخش اور حریت پسند اقدار ہوں، جس میں انسان کی عزت ہو، جس میں سگ مقید اور انسان آزاد ہو اور جس میں فرقہ واریت نہیں، محبت و اتحاد ہو۔ یہ قرض ادا نہ ہوا تو آج جو کالک اس قوم کے منہ پر لگی ہے وہ مزید گہری ہوتی جائے گی۔

تحریر: سید محمد حیدر رضوی

Add new comment