مذہبی جنرل نالج اور ہماری عملی زندگی
فصاحت حسین
میں آن لائن ہوا تو دیکھا کہ میسنجر پر یہ میسج پڑا ہوا تھا ’’سلام علیکم! آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے۔ یہ بتائیے کہ مولا علی ؑ نے جب پہلی جنگ لڑی تھی تو ان کی تلوار کا نام کیا تھا؟‘‘ میسج میرے کزن کی طرف سے تھا۔ اپنے اس کزن کی طرف سے ’’اسلامی سوال‘‘ دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی ہوئی۔ اس سوال کے بعد ہم لوگوں کے بیچ میں جو کچھ بات ہوئی اسے میں تھوڑی بہت ایڈٹنگ کرکے آپ سے بھی شیئر کرلیتا ہوں۔
مجھے اس سوال کا جواب نہیں معلوم تھا اس لئے میں صرف اتنا لکھ سکا کہ ’’مجھے یہ تو معلوم ہے کہ اس وقت ذوالفقار نہیں تھی کیونکہ رسول (ص) نے آپ کو اپنی تلوار احد کی جنگ میں دی تھی اور اس سے پہلے بدر کی جنگ ہوچکی تھی۔ ‘‘
ہمارے کزن صاحب نے اس کے بعد اصل بات بتائی کہ :’’ میں نے فیس بک پر ایک پیچ لائک کیا ہے جس میں یہ سوال پوچھے جاتے ہیں جیسے کل یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ جب رسول معراج پر گئے تھے تو ان کے گھوڑے کا نام کیا تھا‘‘۔
پہلے تو میں سمجھ رہا تھا کہ صرف ایک ہی سوال ہے لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ روزانہ اس طرح کے سوالوں میں ان کا ذہن مشغول رہتا ہے تو میں نے سوچا کہ تھوڑی ڈیٹیل میں بات کی جائے۔
’’اچھی بات ہے کہ تم نے فیس بوک پر یہ پیج لائک کیا ہے۔ لیکن اس طرح کے سوالوں کے ساتھ ایک پرابلم یہ ہے کہ یہ صرف ہمارا جنرل نالج بڑھاتے ہیں۔ ہماری پریکٹکل زندگی میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ خدا نے ہمارے نبی اور اماموں کو اس لئے بنایا ہے کہ وہ ہم کو گائیڈ کریں ۔ وہ ہم کو یہ بتائیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا تھا اور ہم کو اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اس لئے ہم کو بھی ان سے یہی گائیڈنس لینی چاہئے۔ ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے ہم سے کس طرح زندگی گزارنے کے لئے کہا ہے۔ ان کی حدیثوں اور سیرت کے اعتبار سے ہمارے نظریات اورہماری لائف اسٹائل کیسی ہونی چاہئے‘‘۔
کزن صاحب کو یہ بات کسی حد تک سمجھ میں آئی لیکن ابھی بھی کچھ چیزیں ذہن میں اٹکی ہوئی تھیں۔ ’’بھائی یہ اچھی بات ہے لیکن نالج بھی تو ضروری ہے‘‘
’’ہاں بالکل! نالج تو ضروری ہے لیکن کون سا نالج؟!!نالج دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ نالج جس کا ہماری پریکٹکل زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا نالج صرف شوروم اور شوکیس میں رکھنے اور واہ واہ کرنے کے لئے ہے۔ اور ایک وہ نالج جو ہماری پریکٹکل زندگی میں کام آتا ہے۔جو ہمارے کاموں پر اثر ڈالتاہے۔ جو ہماری ذہنیت اور نظریہ بدل سکتا ہے۔ جو ہمارا لائف اسٹائل تبدیل کرسکتاہے۔ ‘‘
جیسےاگر کسی آدمی کو کسی ڈاکٹر کا نام معلوم ہو، عمر معلوم ہو، وہ اس کی کلینک اور گھر کا بھی پتہ جانتا ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ کتنے بجے وہ کلینک پر آتے ہیں، کتنے بج کر کتنے منٹ پر لنچ کے لئے اپنے گھر جاتے ہیں۔ ان کے کپڑے کس کمپنی کے ہیں، ان کی ٹائی کا کلر کیا ہے اور کس طرح کی سگریٹ پیتے ہیں، ان کو کس برانڈ کی کافی اور چائے اچھی لگتی ہے اور کس طرح کے ٹی وی پروگرام دیکھنا اور نیوز پیپر اور میگزین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بیماری کا علاج کرانے کے لئے ان کے پاس نہ جائے تو ایسی معلومات کا کیا فائدہ۔ اس کاصرف یہی فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے بیچ میں یہ باتیں بڑی شان سے بیان کرے اور لوگ اس کی یادداشت کی تعریف کریں۔
لیکن اس کے جیسے کوئی دوسراآدمی اُس ڈاکٹر کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہو کہ وہ اچھے ڈاکٹر ہیں اور ان کی کلینک کہاں ہے۔ اور وہ ان سے علاج کرالے تو دونوں میں سے کون اچھا ہے۔
یا کچھ سال پہلے مجھ سےایک بزرگ نے جو آنکھوں کا رنگ دیکھ کر مزاج کا پتہ بتاتے تھے، پوچھا تھا کہ رسول(ص) کی آنکھوں کا کیا رنگ تھا(تاکہ شاید ان کے بھی مزاج کا پتہ لگائیں!!) اور جب میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ہے تو انہوں نے بڑی دیر تک گھورا تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھا دیا تھا کہ تمہارے پڑھنے لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیے تو آپ کو موبایل میسنجنگ، میسنجرز، سوشل نٹورکنگ اور کچھ ویب سائٹس پر اسلامی سوالوں کے نام پر اس طرح کے بہت سے سوال مل جائیں گے۔ جیسے حضرت ہود نبی کے زمانے میں عذاب کی جو آندھی آئی تھی اس کا کیا نام تھا؟ طوفان آنے کے بعد جناب نوح کی کشتی میں سب سے پہلے کس جانور نے قدم رکھا تھا اور سب سے آخر میں کون صاحب تشریف لائے تھے ؟ قرآن کے کس سورے میں سب سے زیادہ ’’قاف‘‘ آیا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ بہت سی جگہوں پر اچھے سوالات بھی کیے جاتے ہیں لیکن ایسے کانٹسٹ کم ہیں۔
ذرا سوچئے! ایسے سوالوں کا ہم سے کیا تعلق ہے۔ اگر ہم کو یہ نہ معلوم ہو کہ کس جنگ میں حضرت علیؑ نے کس نام کی تلوار سے جنگ کی تھی تو کیا فرق پڑے گالیکن ہم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت علیؑ نے جس جگہ بھی تلوار اٹھائی خدا کے لئے اٹھائی اور جہاں بھی تلوار رکھی خدا کے لئے ہی رکھی۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ جاننا چاہئے کہ آپ کی سچی نیت، بہادری اور قربانیوں کا کیا نتیجہ ہوا۔
اگرہم کو یہ نہ معلوم ہو کہ جناب ہود کی قوم پر کس نام کی آندھی کا طوفان آیا تھا تو کون سا گناہ ہو جائے گا۔ لیکن ہم کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر یہ عذاب کیوں آیا تھا اورقوموں پر کیوں اور کس طرح کےعذاب آتے ہیں۔
ہم کو یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ قرآن کے کس سورے میں سب سے زیادہ ’’قاف‘‘ ہیں لیکن ہم کو اس سورہ کو پڑھنا اور سمجھنا آنا چاہئے۔
بات یہ ہے کہ نوجوانوں اور جوانوں کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہتا ہے کہ ہم کو اپنے دین کے بارے میں جاننا چاہئے اور اسی احساس کی وجہ سے وہ اس طرح کے کوئز کانٹسٹ میں شرکت کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی معلومات کے نام پر وہ ’’مذہبی جنرل نالج‘‘ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اوراس طرح ان کے اس جذبہ کو کسی حد تک اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہم دین کے بارے میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور جاننے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے لوگ ابھی عقائد، احکام اور دوسری اسلامی تعلیمات میں سے ضروری چیزوں کو بھی نہیں جانتے ہیں ۔ اس لئے جو لوگ کوئز کانٹسٹ شروع کرتے ہیں وہ اتنی سی محنت اور کر لیں کہ نوجوانوں کی ضرورت اور کتابوں کو دیکھ کر ایسے سوال تیار کریں جن کا جواب جاننا ان کے لئے ضروری ہو، جو ان کے کسی کام آسکیں یا کم سے کم ان کے وقت اور شوق کا گلا نہ گھونٹیں۔
Add new comment