دین اور جھوٹے دعویدار
فصاحت حسین
اصلی چیز کی کاپی بنانا بہت عام سی بات ہے۔ جب بھی کوئی سامان مشہور ہوجاتا ہے تو بہت سے لوگ اس کی نقل بنا کے بیچنے لگتے ہیں اور اس طرح اصلی چیز کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گھریلو استعمال کے چھوٹے سامان سے لے کر دوائٔیں، سونے چاندی اور الکٹرانک سامان ہر جگہ یہ گورکھ دھندا دیکھا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف نام کی وجہ سے سامان استعمال کرتے ہیں ان کی نظر کوالٹی پر نہیں ہوتی ہے اس لئے وہ نام سے ہی دھوکا کھا جاتے ہیں۔
سامان کی دنیا سے باہر نکلیں تو ہمیں ہر جگہ یہ ڈپلی کیسی مل جائے گی۔ اصلی اور سچے دین کی جگہ پر جھوٹے اور نقلی دین اور اصلی نبیوں کی جگہ جھوٹے نبی۔ جن کی نظر کوالٹی کے بجائے صرف نام پر ہوتی ہے وہ جھوٹے دین اور جھوٹے نبیوں سے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
اسی طرح سے رسول (ص) کی حدیثوں کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان یہ عقیدہ پھیل چکا تھا کہ ان کا آخری وارث اور خلیفہ آئے گا جس کا نام مہدی ہوگا۔ وہ ظالموں کا مقابلہ کرے گا اور مظلوموں کو نجات دلائے گا۔ بہت سے لوگوں نے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنے آپ کو "مہدی" یا ان کا نمائندہ اور وکیل کہا۔
کچھ لوگوں نے لیڈرشپ اور حکومت حاصل کرنے کے لئے مہدی ہونے کا دعوی کیا۔ اس کے علاوہ بہت سی جگہوں پر دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان نئے فرقے بنانے ، ان میں پھوٹ ڈالنے اور لوگوں کے درمیان اس عقیدہ کو کمزور بنانے کے لئے لوگوں کو تیار کیا کہ وہ مہدی ہونے کا دعوی کریں۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے خود "مہدی" ہونے کا دعوی نہیں کیا بلکہ ان کے ماننے والوں نے انہیں یہ ٹائٹل دے دیا۔ جیسے امام زین العابدین (ع) کے بیٹے زید نے جب حکومت کے خلاف بغاوت اور جنگ کی تو ان کے ماننے والے ا نیہں مہدی کہنے لگے تاکہ اس طرح زیادہ لوگوں کو اپنی طرف بلائیں اور اپنا لشکر مضبوط کریں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے "زیدیہ" مذہب بنا جس کے ماننے والے آج بھی یمن کے کچھ شہروں میں ہیں۔
"بہائی" مذہب کے اصلی فاونڈر علی محمد باب نے بھی امام مہدی ہونے کا دعوی کیا اور کچھ جگہوں پر اپنے ماننے والے پیدا کرلئے۔ ان کے مذہب کو "بابیہ" کہا جاتا ہے جو بعد میں جا کر دو فرقوں میں بٹا۔ علی محمد کے بیٹے حسین علی اور مرزا یحیی کے بیچ لیڈرشپ کے لئے جھگڑا ہوگیا۔ حسین علی جو بہاء اللہ کے نام سے مشہور تھا اس کے ماننے والے بہائی کہلائے اور مرزا یحیی کے ماننے والوں کو "ازلیہ" کہا گیا۔
اسی طرح غلام احمد قادیانی نے بھی "مہدی" ہونے کا دعوی کیا۔ غلام احمد نے اس کے ساتھ ساتھ عیسی مسیح ہونے کا بھی دعوی کیا۔ بعد میں اپنے کو نبی کہا اور یہ بھی کہا کہ مجھ پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے۔
ان کے علاوہ ہندوستان میں سید احمد، سوڈان میں محمد احمد اور دوسرے بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ جھوٹا دعوی کیا ہے۔ یہ دعوی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی غلطی ہے جو ان کے دعوے کو مان لیتے ہیں اور آنکھ بند کرکے کچھ سوچے سمجھے بغیر ان کے پیچھے چل دیتے ہیں۔ ان ماننے والوں کے درمیان ایک چیز کامن ہے اور وہ یہ کہ یہ نہیں جانتے کہ امام اور خدا کا نمائندہ کیسا ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے روایتوں میں امام کو پہچاننے اور اس کی "معرفت" حاصل کرنے پر اتنا زور دیا گیا ہے جس کا ایک فایدہ یہ بھی ہے کہ لوگ غلط لوگوں کو اپنا امام اور لیڈر نہ مان بیٹھیں۔
امام زمانہ (ع) کی غیبت کے زمانے میں یہ خطرہ زیادہ تھا شاید اس وجہ سے بھی روایتوں میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی ہے کہ امام زمانہ (ع) کس کی نسل سے ہیں، کس طرح کے ہوں گے ، ان کے آنے سے پہلے کیسی نشانیاں سامنے آئیں گی اور وہ آنے کے بعد دنیا میں کیا کریں گے۔ لیکن جن لوگوں کو اپنے دین اور ایمان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے وہ صرف جذبات اور اندھی محبت کے بہاو میں بہہ کر ایسے لوگوں کا دعوی مان لیتے ہیں۔
اسی طرح سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں یا اپنی باتوں سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ امام زمانہ (ع) سے ملتے ہیں، لوگ ان کے پاس آکر اپنا حال اور اپنی مشکلیں کہتے ہیں اور وہ ان کو امام زمانہ (ع) سے بیان کرتے ہیں اور پھر امام لوگوں کی مشکلیں دور کرنے کے لئے کچھ چیزیں بتاتے ہیں یا ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ایسے لوگ عام لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر ان سے مال و دولت یا شہرت اور حیثیت کماتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ کس طرح امام زمانہ (ع) کو دیکھا جاسکتا ہے اور ان سے ملا جاسکتا ہے۔ شاید ایسی کچھ دعائیں اور عمل بھی لوگوں کے پاس ہیں لیکن یہ معتبر نہیں ہیں۔ ویسے بھی غیبت کے دور میں رہنے والوں کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ امام سے ملنے کی کوشش کریں بلکہ ان کا کام اس راستے پر چلنا ہے جو خدا نے اپنے بنائے ہوئے نمائندوں اور اماموں کے ذریعہ ہم تک پہنچایا ہے۔ اماموں کی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو امام سے آکر ملتے تھے، امام کے آس پاس رہتے تھے لیکن پھر بھی ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے اور وہ گمراہ ہی رہے جبکہ بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے امام کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا ان تک صرف امام کی باتیں اور حکم پہنچتے تھے اور وہ ان پر عمل کرکے اپنا کردار اور اپنی شخصیت سنوارتے تھے۔
یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ امام زمانہ (ع) نے غیبت کے وقت یہ فرما دیا تھا کہ غیبت کے زمانے میں آنے والی نئی نئی مشکلوں اور مسئلوں کا حل انہی لوگوں سے لینا جو ہماری حدیثیں جانتے ہیں یعنی جو دین کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ہماری حدیثوں کی روشنی میں ہر زمانے کے نئے نئے مسئلوں کو حل کرسکتے ہیں۔ اس حدیث کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن ایسے علما اور مجتہدوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ وہ امام سے ملتے ہیں اور امام سے حکم لیتے ہیں اور نہ ہی وہ امام کے نام پر اپنے لئے دولت اور شہرت کماتے ہیں بلکہ ایسے لوگ سچائی اور پاکیزگی کے ساتھ لوگوں تک دین کو پہنچاتے رہتے ہیں اور نئے زمانے کی نئی نئی مشکلیں اور ان کو حل کرنے کا طریقہ بتاتے رہتے ہیں۔ امام زمانہ (ع) نے ایسے ہی لوگوں سے اپنا دین لینے اور ان کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
Add new comment