امام مہدی ؑ کی شناخت اور عظمت

امام علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کے بغیر راہ انتظار کو طے کرنا ممکن نھیں ھے، انتظار کی وادی میں صبر و استقامت کرنا امام علیہ السلام کی صحیح شناخت سے وابستہ ھے، لہٰذا امام مھدی علیہ السلام کے اسم گرامی اور نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ و مقام کی کافی مقدار میں شناخت بھی ضروری ھے۔

”ابو نصر“ امام حسن عسکری علیہ السلام کےخادم،امام مھدی علیہ السلام کی غیبت سے پھلے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے، امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ھاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نھیں ھے!؟ ابو نصر نے عرض کی: آپ ھی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”میں پیغمبر اسلام (ص) کا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ھمارے خاندان اور ھمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ھے“۔([1])

اگر منتظر کو امام علیہ السلام کی معرفت حاصل ھوجائے تو پھر وہ اسی وقت سے اپنے کو امام علیہ السلام کے مورچہ پر دیکھے گا اور احساس کرے گا کہ امام علیہ السلام اور ان کے خیمہ کے نزدیک ھے، لہٰذا اپنے امام کے مورچہ کو مضبوط بنانے میں پَل بھر کے لئے کوتاھی نھیں کرے گا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

” مَنْ مَاتَ وَ ہُوَ عَارِفٌ لِاِمَامِہِ لَمْ َیضُرُّہُ، تَقَدَّمَ ہَذَا الاٴمْرِ اٴوْ تَاٴخَّرَ، وَ مَنْ مَاتَ وَ ہُوَ عَارِفٌ لِاِمَامِہِ کَانَ کَمَنْ ہُوَ مَعَ القَائِمِ فِی فُسْطَاطِہِ“([2])

”جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو ظھور کا جلد یا تاخیر سے ھونا کوئی نقصان نھیں پھونچاتا، اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ھو تو وہ اس شخص کی طرح ھے جو امام کے خیمہ اور اور امام کے ساتھ ھو“۔

قابل ذکر ھے کہ یہ معرفت اور شناخت اتنی اھم ھے کہ معصومین علیھم السلام کے کلام میں بیان ھوئی ھے اور جس کو حاصل کرنے کے لئے خداوندعالم سے مدد طلب کرنا چاہئے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”حضرت امام مھدی علیہ السلام کی طولانی غیبت کے زمانہ میں باطل خیال کے لوگ (اپنے دین اور عقائد میں) شک و شبہ میں مبتلا ھوجائیں گے، امام علیہ السلام کے خاص شاگرد جناب زرارہ نے کھا: آقا اگر میں وہ زمانہ پائوں تو کونسا عمل انجام دوں؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اس دعا کو پڑھو:

”اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ اٴعْرِفْ نَبِیَّکَ، اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ اٴعْرِفْ حُجَّتَکَ، اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَإنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِی“([3])

”پرودگارا! مجھے تو اپنی ذات کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے نبی کو نھیں پہچان سکتا، پرودگارا! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت کرادے اور اگر تو نے اپنے رسول کی پہچان نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نھیں پہچان سکوں گا، پروردگارا! تو مجھے اپنی حجت کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ھوجاؤں گا“۔

قارئین کرام! مذکورہ دعا میں نظام کائنات کے مجموعہ میں امام علیہ السلام کی عظمت کی معرفت بیان ھوئی ھے([4]) اور وہ خداوندعالم کی طرف سے حجت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا حقیقی جانشین اور تمام لوگوں کا ھادی و رھبر ھے جس کی اطاعت سب پر واجب ھے، کیونکہ اس کی اطاعت خداوندعالم کی اطاعت ھے۔

معرفت امام کا دوسرا پھلو امام علیہ السلام کے صفات اور ان کی سیرت کی پہچان ھے([5]) معرفت کا یہ پھلو انتظار کرنے والے کی رفتار و گفتار پر بھت زیادہ موثر ھوتا ھے، اور ظاھر سی بات ھے کہ انسان کو امام علیہ السلام کی جتنی معرفت ھوگی اس کی زندگی میں اتنے ھی آثار پیدا ھوں گے۔

نمونہ عمل
جس وقت امام علیہ السلام کی معرفت اور ان کے خوشنماجلوے ھماری نظروں کے سامنے ھوں گے تو اس مظھر کمالات کو نمونہ قرار دینے کی بات آئے گی۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”خوش نصیب ھیں وہ لوگ جو میری نسل کے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ اس کے قیام سے پھلے خود اس کی اور اس سے پھلے ائمہ کی اقتداء کرتے ھوں اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ھوں، ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ھیں، اور یھی لوگ میرے نزدیک میری امت کے سب سے عظیم افراد ھیں“۔([6])

واقعاً جو شخص تقویٰ، عبادت، سادگی، سخاوت، صبر اور تمام اخلاقی فضائل میں اپنے امام کی پیروی کرے تو ایسے شخص کا رتبہ اس الٰھی رھبر کے نزدیک کس قدر زیادہ ھوگا اور ان کے حضور میں شرفیابی سے کس قدر سرفراز اور سربلند ھوگا؟!

کیا اس کے علاوہ ھے کہ جو شخص دنیا کے سب سے خوبصورت منظر کا منتظر ھے وہ اپنے کو خوبیوں سے آراستہ کرے اور خود کو برائیوں سے دور رکھے نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رھے؟! ورنہ آہستہ آہستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائے گا اور پھر اس کے اور امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ھوتا جائے گا، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو خود خطرات سے آگاہ کرنے والے امام علیہ السلام کے کلام میں بیان ھوئی ھے:

”فَمَا یَحْبِسُنَا عَنْہُمْ إلاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِہُہُ وَ لاٰ نُوٴثِرُہُ مِنْہُم“([7])

”کوئی بھی چیز ھمیں اپنے شیعوں سے جدا نھیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (برے) اعمال جو ھمارے پاس پہنچتے ھیں جن اعمال کو ھم پسند نھیں کرتے اور شیعوں سے ان کی امید بھی نھیں ھے!“۔

منتظرین کی آخری آرزو یہ ھے کہ امام مھدی علیہ السلام کی عالمی عدل کی حکومت میں کچھ حصہ ان کا بھی ھو، اور اس آخری حجت خدا کی نصرت و مدد کا افتخار ان کو بھی حاصل ھو، لیکن اس عظیم سعادت کو حاصل کرنا خود سازی اور اخلاقی صفات سے آراستہ ھوئے بغیر ممکن نھیں ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَنْ سَرَّہُ اٴنْ یَکُوْنَ مِنْ اٴصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْیَنْتَظِرْ وَ لِیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاٴخْلاَقِ وَ ہُوَ مُنْتَظِر“([8])

”جو شخص یہ چاھتا ھو کہ حضرت قائم علیہ السلام کے ناصروں میں شامل ھو تو اسے اس حال میں منتظر رہنا چاہئے کہ تقویٰ اور پرھیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ رھے“۔

یہ بات روشن ھے کہ ایسی آرزو تک پہنچنے کے لئے خود امام مھدی علیہ السلام سے بھتر کوئی نمونہ نھیں مل سکتا جو تمام ھی نیکی اور خوبیوں کا آئینہ ھے۔

امام علیہ السلام کی یاد
جو چیز امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی معرفت حاصل کرنے اور آپ کی پیروی کرنے میں مدد گار ثابت ھوتی ھے اور انتظار کی راہ میں صبر و استقامت عطا کرتی ھے؛ وہ ھے روح کے طبیب (امام مھدی علیہ السلام) سے ھمیشہ رابطہ برقرار رکھنا۔

واقعاً جب وہ مھربان امام ھر وقت اور ھر جگہ شیعوں کے حالات پر نظر رکھتا اور کسی بھی وقت ان کو نھیں بھلاتا ، تو کیا یہ مناسب ھے کہ اس کے چاہنے والے دنیا داری میں مشغول ھوجائیں اور اس محبوب امام سے غافل اور بے خبر ھوجائیں؟ یا دوستی اور محبت کی راہ و رسم یہ ھے کہ ھر حال میں ان کو اپنے اور دوسروں پر مقدم رکھا جائے، جس وقت مصلہٴ دعا پر بیٹھیں اس کے لئے دعا کریں اور اس کی سلامتی اور ظھور کے لئے دست دعا بلند کریں جس کے لئے خود انھیں حضرت نے فرمایا ھے:

میرے ظھور کے لئے بھت دعا کیا کرو کہ اس میں خود تمھاری بھلائی ھے۔([9]) لہٰذا ھمیشہ یہ دعا ھماری ورد زبان رھے:

”اَللَّہُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الحَسَنِ صَلَوٰاتُکَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آبَائِہِ فِی ہَذِہِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ وَلِیاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلاً وَ عَیْناً حَتّٰی تُسْکِنَہُ اٴرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَہُ فِیْہَا طَوِیلاً“۔([10])

”پروردگارا! اپنے ولی حجت بن الحسن کے لئے کہ تیرا درود و سلام ھو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر، تو اس وقت اور ھر وقت سرپرست اور محافظ، رھبر، ناصر و مددگار، رہنما اور نگھبان بن جا، تاکہ ان کو اپنی زمین میں اپنی رغبت اور مرضی سے سکونت دے اور ان کو طولانی زمانہ تک زمین پر بھرہ مند فرما“۔

حقیقی منتظر صدقہ دیتے وقت پھلے اپنے امام علیہ السلام کے وجود شریف کو مدّ نظر رکھتا ھے اور ھر طریقہ سے اس محبوب کے دامن سے متوسل ھوتا ھے اور اس کے مبارک ظھور کا مشتاق رھتا ھے اور اس کے بے مثال جمال پُر نور کے دیدار کے لئے آہ و نالہ کرتا رھتا ھے۔

”عَزِیزٌ عَلَیَّ اٴنْ اٴرَی الخَلْقَ وَ لٰا تُریٰ“([11])

”(واقعاً) میرے لئے کتنا سخت ھے کہ میں سب کو دیکھوں لیکن آپ کا دیدار نہ ھوسکے!!“۔

راہ انتظار پر چلنے والا (عاشق) امام مھدی علیہ السلام کے نام سے منسوب محافل اور مجالس میں شریک ھوتا ھے تاکہ اپنے دل میں اس کی محبت کی جڑوں کو مستحکم کرے، اور امام عصر علیہ السلام کے نام سے منسوب مقدس مقامات جیسے مسجد سھلہ، مسجد جمکران اور سرداب مقدس کی زیارت کے لئے جاتا ھے۔

امام مھدی علیہ السلام کے ظھور کا انتظار کرنے والوں کی زندگی میں آپ کی یاد کا بھترین جلوہ یہ ھے کہ ھر روز اپنے امام علیہ السلام سے تجدید عھد کرے اور وفاداری کا پیمان باندھے اور اس عھد نامے پر برقرار رہنے کا اعلان کرے۔

جیسا کہ دعائے عھد کے فقرات میں ھم پڑھتے ھیں:

”اللّٰہُمَّ إِنِّي اٴُجَدِّدُ لَہُ فِي صَبِیحَةِ یَوْمِي ہَذَا وَ مَا عِشْتُ مِنْ اٴَیَّامِي عَہْداً وَ عَقْدًا وَ بَیْعَةً لَہُ فِي عُنُقِي لاَ اٴَحُولُ عَنْہ وَ لاَ اٴَزُولُ اٴَبَداً، اللّٰہُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ اٴَنْصَارِہِ وَ اٴَعْوَانِہِ ، وَالذَّابِّینَ عَنْہُ وَ الْمُسَارِعِینَ إِلَیْہِ فِي قَضَاءِ حَوَائِجِہِ ، وَ الْمُمْتَثِلِینَ لاٴَوَامِرِہِ ، وَ الْمُحَامِینَ عَنْہُ ، وَ السَّابِقِینَ إِلیٰ إِرَادَتِہِ ، وَ الْمُسْتَشْہَدِینَ بَیْنَ یَدَیْہِ “([12])

”خدا یا ! میں آج کی صبح اور جب تک زندہ رھوں ھر صبح ان کی بیعت کا عھد کرتاھوں اور ان کی یہ بیعت میری گردن پر رھے گی جس سے نہ ھٹ سکتا ھوں اور نہ الگ ھو سکتا ھوں ۔خدایا مجھے ان کے انصار واعوان ،اس سے دفاع کرنے، ان کی حاجتوں کو پورا کرنے میں تیزی سے کام کرنے، ان کے امر کی اطاعت کرنے، ان کی طرف سے دفاع کرنے والوں ،ان کا مقاصد کی طرف سبقت کرنے اوران کے سامنے شھید ھونے والوں میں قراردیدے “۔

اگر کوئی شخص ھمیشہ اس دعائے عھد کو پڑھتا رھے، اور دل کی گھرائی سے اس کے مضمون پر پابند رھے تو ھرگز سستی میں مبتلا نہ ھوگا، اور اپنے امام کی آرزوؤں کو عملی بنانے اور ان حضرت کے ظھور کے لئے راستہ ھموار کرنے کے لئے ھمیشہ کوشش کرے گا، انصاف کی بات یہ ھے کہ ایسا ھی شخص اس امام برحق کے ظھور کے وقت ان کے مورچہ پر حاضر ھونے کی صلاحیت رکھتا ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”جو شخص ھر صبح چالیس دن تک اپنے خدا سے یہ عھد کرے تو خدا اس کو ھمارے قائم (علیہ السلام) کا ناصر و مددگار قرار دے گا، اور اگر امام مھدی علیہ السلام کے ظھور سے پھلے اس کی موت بھی آجائے تو خداوندعالم اس کو قبر سے اٹھائے گا (تاکہ حضرت قائم علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے)۔۔۔۔

[1] کمال الدین، ج۲، باب ۴۳، ح۱۲، ص ۱۷۱۔

[2] اصول کافی، ج۱، باب ۸۴، ح ۵، ص ۴۳۳۔

[3] غیبت نعمانی، باب ۱۰، فصل ۳، ح۶، ص ۱۷۰۔

[4] اس سلسلہ میں کتاب کی پھلی فصل میں بعض مطالب بیان ھوئے ھیں، دوبارہ مطالعہ فرمائیں۔

[5] ھم امام مھدی علیہ السلام کی سیرت اور صفات کے بارے میں آنے والی فصل میں گفتگو ھوگی۔

[6] کمال الدین، ج۱، باب ۲۵، ح۳، ص ۵۳۵۔

[7] بحار الانور، جلد ۵۳، ص ۱۷۷۔

[8] غیبت نعمانی، باب ۱۱، ح۱۶، ص ۲۰۷۔

 

[9] کمال الدین، ج۲، باب ۴۵، ح۴، ص ۲۳۷۔

[10] مفاتیح الجنان، ماہ رمضان میں تیئسویں شب کے اعمال۔

[11] مفاتیح الجنان، دعائے ندبہ۔

 

[12] مفاتیح الجنان، دعائے عھد۔

http://www.islamshia.net/Portal/Cultcure/Urdu/CategoryID/8754/CaseID/508...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Add new comment