بلوچستان میں شیعوں کی حالت زار

ٹی وی شیعہ[ریسرچ رپورٹ]

آج پھر کوئٹہ کی فضا خاک بسر رہی۔ آج کا سورج خوف، دہشت اور بربریت کے ساتھ طلوع ہوا۔ ہزار گنجی سبزی منڈی میں نو بےگناہ مزدوروں کو خون میں نہلایا گیا۔ آج پھر خیالات کی کشتی جیسے کسی طوفاں میں مظلومیت سرگرداں رہی۔ آج پھر دل خون کے آنسو رویا اور نوجوانوں میں غم و غصہ اور انتقام کی کیفیت کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ ایک خونی جنگ کے مناظر آنکھوں میں گھوم گئے، کچھ شہر کو آگ لگانے کی باتیں سنی۔ میرا گھر، میرا شہر جو چلتن کے دامن میں واقع ہے، جہاں چالیس بھائیوں کی کہانی ہم نے بچپن میں پڑھی تھی۔ جہاں ہزارہ ہونا، اچکزئی ہونا، مینگل ہونا یا پنجابی ہونا فخر کی بات تھی۔ ہم میں قبائلی روایات چالیس بھائیوں کے پہاڑ کی طرح تھی۔ کبھی کسی قبیلے نے دوسرے قبیلے کو اس طرح خون میں نہیں نہلایا تھا۔ جب شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں تھا، جب محرم الحرام میں نواسہ رسول (ص) کے غم کو پاکستان اور ہندوستان میں شیعہ سنی کے علاوہ عیسائی اور ہندو بھی مناتے تھے۔ گویا نواسہء رسول (ص) کا غم منانا سیاست نہیں بلکہ آخری نبی کے پیارے نواسے اور مولا علی (ع) کے بیٹے اور خاندان سے عقیدت کا اظہار جانا جاتا تھا۔ جہاں شیعہ ماتم کرتے تھے اور سنی شربت پلاتے تھے مگر آج عاشورا کے جلوس میں انتظامیہ حائل ہو گئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے اشاروں پر آخری رسول کو ماننے والے اپنے ہی رسول کے نواسے کے جلوس پر پابندی کے بیانات دیتے ہیں۔ پولیس اور ایف سی والے شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کیلئے تحفظ کے نام پر محرم کے جلوس سے سنی مسلمانوں کو دور رکھ رہے ہیں۔

شیعہ کو کافر ثابت کرنے کے لئے مساجد اور مدارس میں کھلے عام تبلیغات ہورہی ہیں۔ سنی مسلمانوں کو محرم کے جلوس کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ سر عام شیعہ کافر کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ جس میں مبینہ طور پر بلوچوں اور پشتونوں کے کچھ ایسے قبائل کے افراد شامل ہیں، جو جھنگوی بن چکے ہیں، جو اپنے بیرونی آقاؤں اور جھنگویوں کے عزائم کی تکمیل میں قبائلی روایات کو پائمال کر رہے ہیں۔ جو بیرونی آقاؤں کے ایجنٹ ہیں، جو غیروں کی جنگ کی آگ کو اس خوبصورت شہر میں جلانے کی ظالمانہ کوششوں میں مصروف ہیں اور جو اس خطہ میں بار بار امن کے پرندے کو خون میں نہلانے کے لئے غیر انسانی حرکتوں میں ملوث ہیں۔ ایک شیعہ ہزارہ ہونے کے ناطے میں تمام قبائل اور خصوصاً بلوچ مینگل قبیلے سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جھنگ کے جیرہ خوروں کو اپنے اندر سے نکال دیں اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اپنی قبائلی روایات کو محترم رکھیں۔ دوسری طرف انتظامیہ والے نہایت ہی بزدلانہ پالیسی پر گامزن، بیرونی جیرہ خور گھس بیٹھے ہیں۔ جس کی بنیادی ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے، مگر وہ بیگانہ پرستی میں ملوث ہو گئے ہیں۔ شہر میں چیک پوسٹوں کے قیام اور سفید پوش شہریوں کو تلاشی کے نام پر ذلیل کرنے کے سوا انتظامیہ میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ وہ ان دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرے۔

1999ء کو جب پتگلی چوک کوئٹہ پر سفید سوزوکی میں سوار شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، تو یہ پورے شہر کے لوگوں کیلئے حیران کن بات تھی۔ اُس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کیجانب سے شیعہ ہزارہ قوم کو متنبہ کیا گیا کہ پتگلی چوک کے راستے کو استعمال کرنے کی بجائے دوسرا راستہ اپنایا جائے۔ کچھ عرصے کے بعد سریاب روڈ پر تیرہ شیعہ ہزارہ پولیس کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا، اسی دن سے لیکر آج تک سریاب روڈ کا علاقہ شیعہ ہزارہ قوم کیلئے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح اعلٰی سرکاری و نجی افسران کو چُن چُن کر ٹارگٹ کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ کوئٹہ اور خصوصاً بلوچستان کے دیگر شہروں میں شیعہ ہزارہ قوم کا نوکری کیلئے جانا خطرے سے خالی نہیں، اسی لئے وہ اپنی نوکری ہی چھوڑ دیں۔ بعدازاں کالج اور یونیورسٹیز جانے والے طالبعلموں پر بھی حملہ کرکے یہ واضح کیا گیا کہ شیعہ ہزارہ نوجوان اپنے علاقے میں تعلیم حاصل کریں جبکہ زائرین سے لیکر غریب سبزی فروش طبقے تک کو نہیں بخشا گیا۔ یعنی کمسن و بزرگ اور مرد و خواتین میں فرق تلاش کئے بغیر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناکر انہیں "وارننگ" دیکر گھروں میں بیٹھنے کا کہا گیا۔

گذشتہ پندرہ سالوں سے درندہ صفت دہشتگردوں نے بربریت اور سفاکیت کے ذریعے شیعہ ہزارہ قوم کو کاروبار، نوکری اور تعلیم سے دور رکھنے کیساتھ ساتھ انہیں شہر کے اندر یا باہر ہر قسم کے نقل و حرکت سے محروم کر رکھا ہے جبکہ ظالم حکمراں اور ریاست نے آج تک ایک بھی دہشتگرد کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ ہمیشہ یہی اداکار جھوٹی تسلیاں اور دہشتگردوں کو آزاد زمینہ فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید وہ دن دن دور نہیں جب اس مظلوم قوم کے سانس لینے کی پر بھی پابندی لگا دی جائے، کیونکہ وہ بھی دہشت گردوں کی دسترس میں ہے۔

رپورٹ: این ایچ حیدری

Add new comment