قربانی کے درس کی یاد
صفدر ھمٰدانی۔لندن
چودہ سو پینتیس ہجری اب تقویم ماہ و سال میں ماضی کا سال بن چکا اوراب نئے اسلامی سال کا پہلا حرمت کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔اسلامی تقویم میں ایک اور نیا سال 1436ہجری شروع ہوا۔
جب 1430ہجری کا اختتام ہو رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ میرے پروردگار نے اس امت مسلمہ کو کس طرح دو قربانیوں کے حصار میں رکھا ۔ایک قربانی حضرت اسماعیل کی اور دوسری نواسہ رسول کی ۔ لیکن یہ امت مجموعی طور پر اپنے اعمال کے باعث ان قربانیوں سے کوئی درس حاصل نہ کر کسی اور آج 1436ہجری کے آغاز پر بھی جیسے ایک شکست خوردہ اور پچھڑی ہوئی امت کی طرح ہے کہ جس کا نام اغلب طور پر دہشت گردی سے منسوب ہو چکا ہے۔
کیا یہ ظلم کی بات نہیں کہ جس دین اسلام کے معنی ہی ‘‘سلامتی ‘‘ ہو اور جس کے نبی برحق رہتی دنیا تک کے لیئے امن و سلامتی کا پیغام لیکر آئے ہوں انکے ماننے والے دہشت گرد کہلاتے ہوں اور پاکستان سمیت کتنے ہی اسلامی ملکوں میں نبی کے نام لیوا کلمہ گو ہی کلمہ گو قتل کرتے ہیں۔
میں 1435ہجری کے آخری مہینے ذی الحج کی نو تاریخ کو وقوف عرفات کے مناظر سعودی عرب سے ہزارہا میل دور یہاں لندن میں بیٹھا ہوا ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور صرف یہ سوچ رہا تھا کہ کسی معصوم کے دل کی طرح سفید رنگ کے احرام میں ملبوس ان لاکھوں حجاج میں سے اگر واقعی صرف چند کا ہی حج پروردگار قبول کر لے اور یہ چند حاجی صحیح معنوں میں حج کے فلسفے کی روح کو اپنی روح میں حلول کر کے اپنے اپنے ملک واپس جا کر اس فلسفے کو عملی شکل دے سکیں تو کوئی عجب نہیں کہ اگلے چند برس میں ایک بار پھر مسلمان ملکوں کے حاکموں اور عوام میں خوف خدا کا شعور پیدا ہو کہ ایک یہی خوف تمام مصائب و آلام سے نجات کی کلید بھی ہے اور تمام تر کامیابیوں کی ضمانت بھی۔
لیکن اصل مسلہ تو نیت کا ہے کہ حج بھی اب ایک فیشن بن گیا ہے اور حج و قربانی کا فلسفہ پس پشت چلا گیا ہے۔
پاکستان جیسے ملک سے کتنی بڑی تعداد حج کی سعادت سے فیض یاب ہونے گئی ہے اور اگر ان میں سے صرف ایک فیصد ہی قلب المنقلبون کےمصداق اپنے اندر وہ روشنی لیکر آ ئے ہوں جو فاران کی چوٹیوں پر چمکی تھی اور اس روشنی سے وطن عزیز کی ہر اُس برائی کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ جو ہماری سماجی،علمی،سیاسی،شعوری اور فکری ترقی میں حائل ہے تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک فیصد سچے حاجی وہ انقلاب پیدا کر سکتے ہیں جو صدیوں پہلے ایک کملی پوش نبی نے عرب کے جاہل،جابر اور ظالم معاشرے میں پیدا کیا تھا۔
عرفات کے میدان میں واقع مسجد نمرہ میں جب سعود ی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ خطبہ دے رہے تھے تو میں انکے خطبے کا ایک ایک لفظ سُن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش انکی آواز خود آلِ سعود کے حکمران بھی سُن رہے ہوں اور کاش یہ آواز وہاں اسی مسجد میں موجود اسلامی ممالک کے کتنے ہی سربراہوں کے کانوں تک بھی پہنچ رہی ہو کہ جنہیں حج کے لیئے سعودی مملکت کے فرمانروا نے سرکاری مہمان کے طور پر مدعو کیا ہے۔
کبھی آپ بھی میری طرح سوچیئے کہ یہ کیا منطق ہے کہ وہ صاحبان اقتدار اور صاحبان ثروت جو کسی مالی اور وسائلی تکلیف کے بغیر نہایت آسانی سے حج خود اپنے پیسے سے کر سکتے ہیں انہیں تو سعودی سرکار سرکاری مہمان کے طور پر مدعو کرے اور وہ عام انسان جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اسی ایک حج کا ارمان لیکر اگلی دنیا میں چلے جاتے ہیں انہیں مدعو کرنے والا کوئی شہنشاہ،کوئی صدر،کوئی وزیر اعظم کوئی ادارہ اور کوئی تنظیم نہیں۔ کیا اسی کا نام فلسفہ قربانی ہے؟
پورے عالم اسلام میں مجھے کوئی ایسی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم بتا دی جائے جو وسائل سے محروم لیکن حج کے متمنی افراد کو حج کرواتا ہو؟ یا ارحم الراحمین
سعود ی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ نے گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس بار بھی اپنے خطبے میں کہا ہے کہ امت کوسنگین حالات کا سامنا ہے ایسے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے ساتھ محبت اور یگانگت کی بھی ضرورت ہے۔دھماکوں اور قتل و غارتگری کے سبب مسلمانوں کو دہشت گرد قراردیا جارہا ہے۔ایسے میں مسلم نوجوان دشمن طاقتوں کے آلہ کارنہ بنیں۔امت کے دشمن انھیں اپنے ممالک میں ہی تخریب کاری کے ذریعے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
سعود ی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ کی یہ بات کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی نیا انکشاف کیا ہے۔مسلہ تو یہ ہے کہ یہ حقیقت جو ہم سب اور ہمارے حکمران بھی جانتے ہیں وہ اس صورت حال کو ٹھیک کرنے کے لیئے کیا کر رہے ہیں؟
کیا انکی ایک بڑی تعداد خود امریکہ کی آلہ کار نہیں بنی ہوئی؟
کیا داعش نے اسلام کو عالم میں بدنام نہیں کر دیا ؟
کیا فلسطینیوں کو بلا قیمت اسرائیل کے ہاتھوں فروخت نہیں کیا جارہا؟
کیا امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بے موت نہیں مار دیا؟
کیا عراق میں بہنے والا خون امریکہ کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں پر نہیں؟
کیا اب ترکی امریکی اجازت کے ساتھ عراق میں گھس کر جن کردوں کو ہلاک کر رہا ہے وہ کوئی مشرک یا کافر ہیں؟
کاش مفتی اعظم اس طرف بھی توجہ دیتے۔
وقوفِ عرفات کے موقع پر مسجد نمرہ میں خطبہ حج کے دوران سعود ی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ نے کہا کہ اللہ کو اپنی اطاعت پسند ہے اور وہ نافرمانی سے ناخوش ہوتا ہے۔مفتی اعظم نے کہاکہ مسلمان حکمران عوام کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں۔عدل و انصاف کا مکمل نظام دین اسلام کی تعلیمات میں ہے۔اللہ صحیح فیصلوں کے لئے مسلم حکمرانوں کی رہ نمائی فرمائے۔
مفتی اعظم کی اس دُعا میں میرے سمیت ہر بے بس اور بیکس مسلمان شامل ہے اور آمین کہتا ہے۔ ہمارے ننانوے فیصد مصائب کی وجہ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران ہیں اور ان ننانوے فیصد میں نوے فیصد ذمیدار ان اسلامی ممالک کےعوام ہیں کہ جو اس حدیث اور فرمانِ آئمہ سے شاید بے خبر ہیں کہ‘‘ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظلم اورظالم کا ساتھ دینا ہے‘‘۔
مسلم ممالک کی معیشت ظالم اور جابر عالمی ممالک نے کیسے گروی رکھی ہوئی ہے اس سے کس کو انکار ہے اور ایسے میں مفتی اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ معیشت کو دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ، انھوں نے دنیا سے سوال کیا کہ کیا مسلم برادری نے بھی کوئی ایسا اقتصادی نظام بنایا جو انسانوں کو معاشی طور پر لاچار کرکے غیر منصفانہ طور پر جکڑلے ۔
میرے نزدیک بہت اہم بات مفتی اعظم کی یہ بات ہے کہ شریعت عدل کا نظام ہے ،لوگ شریعت میں مقررہ سزاؤں کو وحشیانہ یا غیر منصفانہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ خود دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔آج مسلمان کمزورہیں جس کی بنیادی وجہ اسلام سے دوری ہے۔
باب شہر علم مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عہد میں کوفے کے گورنر مالک بن اشتر کو کامیاب انتظامیہ کے اصول بتاتے ہوئے عدل کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی اور کہا تھا کہ جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا وہاں سے اللہ کا رحم اور کرم اٹھ جاتا ہے۔
اب پاکستان سمیت دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں عدل کی صورت حال کا اندازہ آپ خود کر لیجئے۔ میں اس ضمن میں کیا کہوں؟
سعود ی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ شیخ نے اپنے اس سالانہ خطبے کے آخر میں دعا کی کہ‘‘اے اللہ امت آج انتہائی کڑے وقت میں ہے اسے دین پر عمل پیرا بناکر دشمنوں پر غلبہ عطا فرما‘‘۔
آیئے ہم سب نمناک آنکھوں اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے قلب حذیں کے پورے زور سے کہیں۔آمین۔ مگراس کے لیئےعمل اور صرف عمل کی ضرورت ہے کیونکہ ۔۔۔
اب کے فقط دُعا سے نہیں چل سکے گا کام
اس بےعمل حصارسےخود کونکالیئے''صفدر
اب جو 1436 ہجری کا محرم الحرام شروع ہوا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی قربانی کی یادگار ہے اور وہ اس لیئے کہ حضرت اسماعیل کی قربانی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک بکرا بھیج دیا تھا لیکن کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو اپنے اعزا،رفقا اور بچوں حتیٰ کہ چھ ماہ کے علی اصغر کی قربانی بھی بنفس نفیس پیش کرنی پڑی، تو ہر سال کی طرح اس محرم کے آغاز پر بھی پاکستان میں امن کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہو گئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے محرم نہیں کسی جنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کا دور دورہ ہے اور حکومت جیسے مفلوج ہو چکی ہے اور ایسے میں امام حسین کی یاد منانے والوں کے لیئے یہ دہشت گردی اور فرقہ پرستی ایک سوہان روح حقیقت بنی ہوئی ہے۔ یہ کیسا ظلم و ستم ہے کہ ادھر محرم شروع ہوا اور ادھر پاکستان میں مساجد و امام بارگاہ میں لاوڈ سپیکروں پر پابندیاں لگنے لگیں، بعض مولویوں کی زبان بندی ہونے لگی، کچھ کو صوبے سے باہر نہ جانے کے احکامات ملنے لگے۔ وہی بات کہ محرم نہیں جیسے اعلان جنگ ہونے کو ہے۔
فرقہ پرستی کے اس عفریت نے اس امت مسلمہ کا جیسے جنازہ نکال دیا ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایک باپ کی اولاد کیا اپنے باپ کا غم ایک ہی طرح مناتی ہے؟ جب عام زندگی میں ایسا نہیں تو پھر اس مسلے کو ہمیشہ کے لیئے اس طرح حل کیوں نہیں کر لیتے کہ جو جس طرح چاہے اللہ کے حبیب کے نواسے کا غم منائے اور کوئی کسی کو غلط نہ کہے۔
مگر شاید ایسا اس لیئے ممکن نہیں کہ اس فضا کو ہر طرح کے دین فروش ملا اور مولوی نے خراب کیا ہے جو ذکر حسین کی بجائے تعصب و نفرت کا پرچار زیادہ کرتا ہے۔ خون حسین بیچنے والے مولوی کی دوکانداری ہی اس پر چلتی ہے ورنہ میں تو کیا کوئی بھی ذرا سا ذی شعور انسان یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی کلمہ گو ہو،نبی کو مانتا ہو اور اسکی آل اور اہلیبیت سے محبت نہ کرے۔ ہاں محبت کے انداز الگ الگ ہو سکتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ۔۔۔حیسن میرا حسین تیرا حسین سب کا۔۔۔۔۔
Add new comment