سانحہ لاہور،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار باپردہ خواتین سے الجھتے رہے۔خصوصی رپورٹ

عوام پر ظلم فلسطین میں ہو یا کشمیر میں، برما میں ہو یا بحرین میں، مصر میں ہو یا احصاء میں، کوئٹہ اور پاراچنار میں ہو یا ماڈل ٹاؤن لاہور اور تفتان بارڈر پر۔ ظلم دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو باضمیر انسان کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ ظلم کو ظلم کہنے کے لیے مظلوم کا کسی خاص مسلک، فرقہ اور مذہب سے ہونا ضروری نہیں۔ ظلم قبیح ہے چاہے مسلمان پر ہو یا غیر مسلم پر۔ معروف مقولہ ہے کہ حکومتیں کفر سے تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے نہیں۔ فقط تجاوزات ہٹانے کے لیے دسیوں افراد کو گولیوں سے بھون دینا کہاں کی دانشمندی اور قانون کی پاسداری ہے۔

17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کئے، ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے یہ لاہور نہیں بلکہ فلسطین، کشمیر، بحرین یا مصر ہے جہاں غاصب ریاستی ادارے آزادی کی آواز کو کچلنے کے درپے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ نے دکھایا کہ لاہور کے عام شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کے لیے فولاد سے چھلکتے ہوئے لشکر، گولیوں کی تڑتڑاہت، بارود، اور تشدد کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنے قائد کے گھر کے باہر لگے بیرئیر کو ہٹانے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ بھلے یہ بیرئیر غیر قانونی تھا، اس کو ہٹانے کے لیے اس حد تک کیوں جانا پڑا؟ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک منہاج القرآن کے مظاہرین مسلح تھے، قومی ملکیت کو نقصان پہنچا رہے تھے، مذاکرات کی تمام راہیں مسدود ہوچکی تھیں، جیسا کہ حکومتی موقف سامنے آرہا ہے تو سوال ہے کہ اس جوان دوشیزہ سے کونسا اسلحہ برآمد ہوا جو ادارہ منہاج کے لان پر پڑی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ موت سے قبل اسے تو یقین ہی نہ آتا ہوگا کہ وہ ادارے جو اس کی حرمت کے تحفظ کے ضامن تھے، ہی اس کی جان کے دشمن بن گئے۔

کیمرے نے یہ مناظر بھی دکھائے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار باپردہ خواتین سے الجھتے رہے۔ ہماری پولیس کے فرض شناس نوجوان تحریک منہاج القرآن کے جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر یوں پل پڑے جیسے جنگلی بھیڑیے کسی ہرن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جس کا جی چاہتا جہاں چاہتا ڈنڈا برساتا۔ کیا اسی لیے لوگ جمہوریت پر اعتماد کرتے ہیں اور عوامی نمائندوں کو چن کر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں؟ ماڈل ٹاؤن لاہور کے واقعے میں ہم نے دیگر کئی ایک مناظر بھی دیکھے۔ چند بے وردی افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی بلکہ یوں کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ ان کے زیر سرپرستی قانون کی دھجیاں اڑاتے رہے۔ گلو بٹ اور اسی طرح کے کئی نامعلوم افراد تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کو سزا دینے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ ان واقعات نے جہاں حکومتی ارادوں سے پردہ اٹھایا وہیں ان واقعات نے ہماری معاشرتی، اداری و اخلاقی تنزلی کی داستان بھی کہ سنائی۔ کیا حکومت کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ہر شہری طالبان کی مانند ہتھیار اٹھا کر اپنی بات منوائے؟ جمہوری ریاستوں میں اس قسم کا رویہ کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہے۔

کہا جارہا ہے کہ اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں گی۔ ممکن ہے ایسا ہو جائے اور واقعے کے اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا مل جائے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو یقین جانیئے کہ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں موجود یہ فکر مزید پختہ ہوگی کہ مظلوم کا کوئی داد رس نہیں ہے۔ بہر حال یہ واقعہ بپا کرکے ذمہ داروں نے پوری قوم کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اختلاف رائے کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا اور ہر اختلافی آواز کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کی مرکزی قیادت پر بھی بے گناہوں کے لہو کا بار آچکا ہے۔ کارکنان اپنی قیادت سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں آئندہ کے لیے لائحہ عمل دیں گے۔ اپنے مجروح اور شہید اراکین کے لہو کو فراموش کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک کی مرکزی قیادت کیا فیصلے لیتی ہے۔ آیا ڈاکٹر طاہر القادری 2013ء کی مانند سولو فلائیٹ کا انتخاب کریں گے یا اپنی ہمدرد جماعتوں سے مشاورت کے بعد کوئی لائحہ عمل وضع کریں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ماضی کے تجربہ کی روشنی میں واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سولو فلائیٹ کو ہی ترجیح دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کے ساتھ چلنا ان کے مزاج کے خلاف ہے۔

سولو فلائیٹ کی صورت میں ماڈل ٹاؤن میں دی جانے والی قربانیوں کا ضائع ہو جانا بدیہی ہے۔ ان کی جماعت کے کئی ایک قائدین سے ملاقاتوں کی روشنی میں، میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کسی بھی دوسری جماعت کے ساتھ برابری کی سطح پر نہیں چل سکتے۔ ان کی ہمیشہ خواہش رہے گی کہ انہیں فوقیت دی جائے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل اور اس کی ذیلی جماعتیں ملک میں ایک طاقتور نیٹ ورک رکھنے کے باوجود اس قابل نہیں ہیں کہ تن تنہا تبدیلی لاسکیں۔ تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ملک کی دیگر تبدیلی پسند قوتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر اتحاد قائم کریں۔

دوسری جانب پاکستان میں جاری ’’ضرب عضب‘‘ آپریشن اس ساری صورتحال میں ایک نزعی حیثیت کا حامل ہے۔ کوئی بھی ملک دوست جماعت اس وقت نہیں چاہتی کہ پاک فوج کی توجہات کو کسی اور مسئلہ کی جانب موڑا جائے۔ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو سبق دینے کے لیے اس نازک وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ اگر واقعاً شریف برادران کو اس واقعے کے بارے میں علم نہیں تھا تو انہیں بھی اس واقعے کے ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے چاہیں، تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کس کی ہے؟ اگر حکومت اس واقعے کے اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دلواتی اور انصاف ہوتا نظر نہیں آتا، تو یقین کرلے کہ یہ اس کے اقتدار کا آخری دور ہے۔ عوام اب مزید لیپ ٹاپ اور میٹرو کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔

سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ سانحہ لاہور میں ماضی کے حق نواز جھنگوی،اعظم طارق اور ریاض بسرے کی طرح گلو بٹ جیسے کردار کو سراکاری اداروں نے منظر عام پر لانے کی کوشش کی جو میڈیا نے ناکام بنادی۔ہمارے سرکاری اداروں کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرنئی چاہیے اور ایسی گھٹیا اور نیچ حرکات سے پرہیز کرنی چاہیے ۔ہمارے حکمرانون کو چاہیے کہ وہ سرکاری اداروں میں براجمان کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائی کریں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔

خداوند کریم ماڈل ٹاؤن کے سانحہ میں واصل حق ہونے والے افراد بالخصوص خواتین کے خانوادوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
بقلم::::::قسور عباس برقعی[کچھ ترمیم کی گئی ہے]

Add new comment