گلوبٹ اور ہمارے حکومتی ادارے
انصار عباسی
ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے ہاں سے کوئی اچھی خبر پاکستان سے باہر نہیں جاتی۔دنیا اگر ہمیں جانتی ہے تو ایک وحشی قوم کے طور پر، جن کے لیے قتل و غارت ایک معمول ہے، جہاں معمولی معمولی بات پر خون بہایا جاتا ہے، جہاں مذہبی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں اور مسجدوں، گرجائوں اور دوسری عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے، جہاں سیاست تک کو خون آلود کر دیا گیا ہے، جہاں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کی بے حرمتی کر کے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، جہاں لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری، کرپشن معمول بن جائیں۔ یہ تو وہ ملک ہے کوئی اکثریت ہو یا اقلیت، عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بڑا کوئی محفوظ نہیں۔ جہاں کھانے پینے کی اشیا کے علاج کے لیے ادویات تک خالص نہیں ملتیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو دنیا بھر کے لیے ایک ایسی انوکھی مثال بنا دیا ہے جہاں قاتل، دہشت گرد، ٹارکٹ کلر، عورتوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں، لٹیروں، ڈاکوئوں، بھتہ خوروں، لینڈ مافیا غرض یہ کہ کسی بھی مجرم کو سزا ملنی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ انتہائی سنگین جرائم میں سزا یافتہ مجرموں تک کو یہاں عدالتوں کے حکم کے باوجود سزائے موت نہیں دی جاتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت ہے تو غلط نہ ہو گا۔ دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں اس تاثر میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ پنجاب پولیس کی منگل کے روز ماڈل ٹائون لاہور میں بہیمانہ کارروائی نے پوری کر دی۔ پنجاب پولیس تو تشدد کے لیے ویسے ہی بدنام تھی مگر جو تاریخ اس نے اب رقم کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گئے تھے علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے اور واپسی ہوئی آٹھ افراد کے خون اور درجنوں زخمیوں کے ساتھ۔ مرنے والوں میں دو عورتیں اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔ زخمیوں میں علامہ طاہر القادری کے پیروکاروں کے ساتھ ساتھ پولیس کے بھی کئی اہلکار شامل ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا، کس کے کہنے پر ہوا، کون قصور وار ہے کون بے قصور، اس کا فیصلہ تو عدالتی کمیشن کرے گا مگر جو کچھ ٹی وی چینلز نے دکھایا اُس نے ہماری دنیا بھر میں خوب’’عزت افزائی‘‘ کی۔ اگر کوئی کمی تھی تو وہ گلو بٹ کے کردار نے پوری کر دی۔ پولیس کے کئی اہلکاروں کی موجودگی میں گلو بٹ ایک کے بعد ایک گاڑی کے شیشے توڑتا رہا مگر اُسے کوئی روکنے والا نہ تھا۔ ایک ٹی وی چینل میں تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ گلو بٹ ہاتھ میں ڈنڈا لیے پولیس کے ایک دستے کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنے مخالفوں پر ہلہ بول رہا ہے۔ وہ ڈنڈا لہرا کر اپنے نشانہ کی طرف بھاگتا ہے تو پولیس کے درجنوں جوان ہاتھ میں بندوقیں تھامے اُس کو اس طرح follow کرتے ہیں جیسے کوئی وہ ان کا کمانڈر ہو۔ جس وقت گلو بٹ اپنی کارروائی کر رہا تھا تو پولیس اور انتظامیہ کے افسران بھی وہیں موجود تھے۔ کوئی اس کو روکنے والا نہ تھا بلکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ سب وہاں موجود افسران اور دوسرے اہلکاروں کی مرضی سے ہو رہا تھا۔ جب یہ غنڈہ توڑ پھوڑ کر رہا تھا وہاں موجود کسی ایک بھی پولیس و انتظامیہ کے افسر یا اہلکار نے آگے بڑھ کر اُسے اس دہشت گردی سے نہ روکا۔ بعد ازاں میڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ گلو بٹ کا تعلق تو حکومتی جماعت مسلم لیگ ن سے ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے صوبہ کے دارالحکومت میں ہو رہا تھا جو گورننس اور کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے تمام صوبوں سے بہتر جانا جاتا ہے ۔ گلو بٹ کی اس’’بہادری‘‘ اور وہاں موجود پنجاب پولیس اور انتظامیہ کی تابع داری دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے گلو بٹ ہی ہمارا حکمران ہو۔ میڈیا نے شور مچایا تو گلو بٹ کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا۔ ہو سکتا ہے وہ گرفتار بھی ہو جائے مگر یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔ میڈیا نے تو اس بدمعاش کو ن لیگ ’’لاہور کا بادشاہ‘‘ بنا کر پیش کیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور واقعہ کو پولیس کی درندگی گردانا اور عدالتی کمیشن بھی بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس معاملہ میں ملوث پائے گئے تو استعفیٰ دے دیں گے۔ عدالتی کمیشن کا فیصلہ آنے میں ابھی وقت لگے گا ۔ اگرشہباز شریف اور ان کی جماعت کا گلو بٹ سے کوئی تعلق نہیں تو انہیں فوری طور پر اُن تمام پولیس و انتظامی افسران اور اہلکاروں کو معطل کردینا چاہیے جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا اور گلو بٹ کی صورت میں دنیا بھر کو ہمارا ایک اور گھنائونا چہرہ دکھایا۔ لاہور واقعہ شہباز شریف کی حکومت اور اُن کی سیاست پر ایک بہت بڑا دھبہ ہے۔اگر وزیر اعلیٰ اس تمام کارروائی کا حصہ تھے تو پھر اپنی تمام تر کارکردگی کے باوجود ان کو سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں،اگر ایسا نہیں تو پھر سب کے ساتھ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ ایک طرف جاں بحق ہونے والوں کے قاتلوں کا پکڑا جانا ضروری ہے تو دوسری طرف گلو بٹ اور اس کے پولیس و انتظامیہ میں ’’ماتحتوں‘‘ کو سب کے لیے مثال بنانا لازمی ہے۔ جن جن املاک کو گلو بٹ نے نقصان پہنچایا اس کا نقصان اس بدمعاش اور اس کے وہاں موجود تمام ’’ماتحتوں‘‘ کی جیبوں سے پورا کیا جائے۔ لاہور واقعہ اور اس میں کئی پولیس اہلکاروںکے زخمی ہونے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فائرنگ علامہ طاہر القادری کے لوگوں کی طرف سے بھی کی گئی۔ اس کا فیصلہ تو کمیشن کرے گا مگر اس معاملے سے پاکستان میں قانونی و غیر قانونی اسلحہ کے بے دریغ استعمال کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ میری حکومت و پارلیمنٹ سے درخواست ہو گی کہ اگر وہ اس ملک میں امن چاہتے ہیں تو پاکستان میں کسی بھی پرائیویٹ شخص کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور جس شخص کے پاس سے اسلحہ پکڑا جائے اُسے سزائے موت دی جائے۔اسی طرح موت کی سزا پر سے پابندی ہٹائی جائے اور سنگین جرائم میں سزا پانے والوں کو ایران اور سعودی عرب کی طرح سرعام پھانسیاں دی جائیں۔
بشکریہ::::::::::::http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=209778::::::::::::::::
Add new comment