شمالی وزیرستان۔۔۔دہشت گردوں کی جنت

فاٹا کی دوسری بڑی ایجنسی شمالی وزیرستان کا قیام 1893ء میں لایا گیا۔ 1990ء میں شمالی وزیرستان کو مکمل ایجنسی کی حیثیت دی گئی اور میرانشاہ ہیڈکوارٹر قرار پایا۔ میر علی اور رزمک شمالی وزرستان مشہور علاقے ہیں۔ شمالی وزیرستان کا کل رقبہ پندرہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ شمالی وزیرستان کے شمال میں اورکزئی اور کرم ایجنسی ہیں جبکہ مشرق میں ضلع بنوں اور کرک واقع ہیں۔ جنوب میں جنوبی وزیرستان اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ افغان صوبے پکتیکا اور خوست سے شمالی وزیرستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ تین ڈویژنز اور 11 تحصیلوں پر مشتمل شمالی وزیرستان کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ وزیر اور داوڑ دو بڑے قبیلے ہیں جبکہ چھوٹے قبیلوں میں گربز، خراسانی، سیدگئی، ملاکشی، محسود اور بنگش شامل ہیں۔

شمالی وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں بیٹھ کر القاعدہ سے جُڑے شدت پسند گروپس نے نہ صرف دہشت گردوں کی بین الااقوامی کارروائیوں کے بارے میں منصوبہ بندی کی بلکہ عملدرآمد میں بھی اس علاقے نے اہم کردار ادا کیا۔ شمالی وزیرستان میں سرگرم القاعدہ کے گروپ کی ایک بڑی مثال سعید بہا جی کی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو 9/11 کے منصوبہ سازوں میں شامل تھا۔ اسی طرح نیویارک میں ٹائم اسکوائر حملے کا منصوبہ بنانے والا خرم شہزاد بھی اسی علاقے سے تربیت لے کر گیا تھا۔ 1998ء کینیا میں امریکی سفارتخانے میں ملوث شیخ احمد سلیم سویدن اسامہ الکینی بھی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں ہلاک ہوا۔

شمالی وزیرستان میں مولوی نذیر، حافظ گل بہادر کے گروپس بھی بڑے گروپ تصور کیے جاتے ہیں لیکن ان کا ٹی ٹی پی سے تعلق نہیں ہے۔ یہ خود کو مقامی طالبان کا نام دیتے ہیں۔ ان میں سے حافظ گل بہادر گروپ حکومت سے معاہدہ کر چکا ہے۔ شمالی وزیرستان میں ہی مولوی عباس اور حاجی عمر کے گروپس کو بھی بڑے گروپوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مزید دھڑوں میں فاروق بنگالی، گل حسن عرف احمد خان، الیاس کشمیری، بدر منصور، قاری یاسین، قاری عمران، غازی فورس، سعید حقانی، مولوی فقیر، قاری ضیاء الرحمان، داد اللہ، عبید اللہ محسود، ازبک گرپ، سیف اللہ اختر، مجاہد عباس، ڈاکٹر ضیاء، رفیق سدہ گروپ، مومن گروپ، شیخ ڈاکٹر وحید، قاری گبول اور قاری ہارون گروپ شامل ہیں۔

Add new comment