عالمِ اسلام اور ترجیحات
تحریر: سیدہ تسنیم اعجاز
دوسری عالمی جنگ کے بعد دو بڑی طاقتیں متحدہ امریکہ اور اشتراکی روس دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئیں۔ جن کے درمیان سالہا سال تک عالمی بالادستی بلاشرکت غیر حاصل کرنے کی غرض سے رسہ کشی ہوتی رہی، اس کشمکش اور تناؤ میں دونوں طاقتوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ جنگی سازوسامان اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں صَرف کیا۔ جس کے نتیجے میں اسلحے کے ایسے انبار لگے کہ جو اس چھوٹی سی دنیا کو بیسیوں مرتبہ تباہ کرنے کے لیے بھی کافی تھے، لیکن ایک ایسا مرحلہ آیا جب اشتراکی روس اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بنا پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر روبہ زوال ہونے لگا اور بالآخر افغانستان میں بچھایا گیا امریکی جال اس کے لیے آخری ضرب ثابت ہوا، جس کے بعد اشتراکی روس سنبھل نہ سکا اور درجن بھر ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ اب دنیا کے مستقبل کی بساط پر نقشہ سازی کے لیے امریکہ کے زعم میں صرف وہی بچا تھا۔ ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر بش سینیئر نے کہا تھا ’’موجودہ عالمی تناظر میں صاف صاف بات یہ ہے کہ جب دنیا کو محفوظ جگہ بنانے کی بات ہو تو پھر امریکہ کے شانوں پر ایک غیر مساوی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی سلامتی اور آزادی کے باب میں ہماری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم میں اگرچہ ظاہراً امریکہ کے ساتھ ویٹو پاور میں دیگر چار ممالک بھی شریک ہیں، لیکن دنیا کی سیاست پر سطحی نظر رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ہر فیصلے کے پیچھے اصل کرتا دھرتا امریکہ ہی ہے۔ یہاں امریکہ سے مراد امریکی پالیسیاں ہیں جنھیں دنیا کے چند انڈرورڈ لٹیرے اپنے مفاد کے پیش نظر مل کر مرتب کرتے ہیں۔ یہ انڈرورڈ مگرمچھ دریا کی ہر مچھلی کو نگلنے کے چکر میں ہیں اور دنیا کا ہر دوسرا ملک اپنی نابودی کے خوف سے ان کے ہر جائز و ناجائز فعل کی حمایت کے لیے تیار رہتا ہے۔ اب جبکہ امریکہ بہادر اپنے پاس بے انتہا جوہری ہتھیار جمع کر چکا تو اسے ’’معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ‘‘ (NPT) کرنے کا خیال آیا۔ یہ معاہدہ مارچ 1970ء میں طے پایا۔ یو این او کے 189 اراکین نے اس پر دستخط کئے، جن میں امریکہ بذات خود شامل نہ تھا۔ NPT پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے IAEA کے نام پر اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ تشکیل دیا گیا، جس کا کام NPT پر عمل گزاری کی نگرانی کرنا ہے۔
اس سارے اہتمام کے باوجود ایک ریسرچ کے مطابق گذشتہ صدی کی ستر اور اسی کی دہائیوں میں فوجی سازوسامان میں سینکڑوں فیصد اضافہ ہوا۔ جوہری ہتھیاروں کے ڈھیر لگا دیئے گئے۔ ہوائی اور بحری قوت کو خوب وسعت دی گئی۔ نوے کی دھائی کے اوائل کی خلیجی جنگ میں عراق کے روسی اسلحے کے مقابلے میں امریکہ نے اپنے اسلحے سازی کی فنی بالادستی کا دل کھول کر مظاہرہ کیا اور ہر قسم کے اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ خاصا طویل ہے۔ جاپان کے شہروں پر بمباری جس میں ہزاروں، لاکھوں بے گناہ عوام کو نشانہ بنایا گیا تھا، سے لے کر مشرق وسطٰی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کی تباہی و بربادی تک کے سارے عمل سے ایک امریکی سوچ ابھر کر سامنے آئی ہے، جس کا بنیادی تصور might is right ہے۔
امریکہ اور اس کے حواریوں نے پوری دنیا پر حکومت کا جو خواب دیکھ رکھا ہے، اسے وہ کسی بھی قیمت پر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ سماجی اور سائنسی ہر قسم کی ترقی انسانی معاشروں کی فلاح وبہبود کی بجائے ان کے مذموم ارادوں کی تکمیل کا وسیلہ بن گئی ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ ہر ملک، ہر ادارے حتٰی کہ ہر انسان پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کا کھلا تضاد ان کی ہٹ دھرمی پر دلیل ہے، جسے چاہیں پروانۂ امن عطا کریں اور جسے چاہیں اپنے غضب کا نشانہ بنائیں۔ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو پس پشت ڈال کر امتیازی سلوک روا رکھنا ان کی عادت بن چکی ہے۔
ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے شرق و غرب کو خدا ماننے سے انکار کیا ہے اور اپنے فیصلے خود آزادانہ طور پر کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اسے عالمی سطح پر طرح طرح کی ناجائز پابندیوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ اس پر بے بنیاد الزامات کے نشتر چلائے جا رہے ہیں، حالیہ الزمات میں ایران پر اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام زور وشور سے گردش کر رہا ہے، جبکہ ایران نے بارہا بڑی شدت کے ساتھ ان الزامات کی تردید کی ہے اور IAEA کے انسپکٹر کئی مرتبہ ایرانی تنصیبات کا معائنہ کرنے کے بعد صراحتاً کہہ چکے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کا انحراف دیکھنے میں نہیں آیا۔
پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حصول کا حق بقول انہی طاقتوں کے ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جبکہ یہی لوگ اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر بہت سے ممالک کو اس بنیادی حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں ہم پاکستان اور ہندوستان ہی کی مثال لے سکتے ہیں۔ پاکستان کو اشد ضرورت کے باوجود سول ایٹمی توانائی کے حصول میں تعاون سے صاف انکار کر دیا گیا ہے جبکہ بھارت کو نہ صرف ٹیکنالوجی کے دوہرے استعمال کی بخوشی اجازت دی گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ دس ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ مزید براں بھارت کے سرکاری دورے کے دوران صدر اوباما نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور بھارت متحد ہیں اور اغیار کو کسی قیمت پر اپنی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
البتہ اپنے اور غیر کا معیار ان کے مفادات کے پیش نظر بدلتا رہتا ہے۔ یہ طاقتیں اپنے گھناؤنے عزائم کے حصول کی خاطر نہ صرف دنیا کے لوگوں کو دھوکے میں رکھتی ہیں بلکہ اپنے عوام کو بھی چکنی چپڑی باتوں کے دام میں پھنسا کر حقائق سے بے خبر رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ بالخصوص عالم اسلام کے خلاف مغربی ذہن کو جس طرح زہر آلود کیا جارہا ہے، اسے ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہی طاقتوں کی مسلم معاشروں میں دراندازی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پہلے ان معاشروں میں اپنی مرضی کے مسائل کو جنم دینا اور پھر اپنے مفادات کی روشنی میں ان کے حل تجویز کرنا، ان کے لیے گویا یہ شطرنج کی بساط بن چکا ہے۔ دنیا کے بیشتر مسائل جیسے افغانستان کا بحران، ایران کا ایٹمی پروگرام اور شام کا بحران بعض بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی تنگ نظر سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
انسان دشمن طاقتیں ہمیشہ کی طرح آج بھی انتہائی ہوشیاری سے سازشوں کے جال بننے اور سیاسی خرید و فروخت میں سرگرم عمل ہیں، البتہ ان کے مذموم ارادے اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے۔ ہمیں بہت دقّت سے ان کی چالوں کو سمجھنا ہوگا، تاکہ عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کی ان سے نجات کے لیے ایک موثر اور جامع لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اپنے مسائل کا صحیح ادراک اور ان کے حل سے آگاہی ضروری ہے۔
درج ذیل بعض ایسے مسائل ہیں جن سے ہمارے معاشرے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ مثلاً
1۔ سیاست اور اقتدار میں استعماری دراندازیاں
2۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مفلوج بنانے کے لیے بے راہ روی کے استعماری ہتھکنڈے
3۔ اقتصادی بحران
۴۔ بے روزگاری اور ان جیسے کئی اندرونی و بیرونی ہتھکنڈے
ان مسائل کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا اگرچہ اتنا سادہ اور آسان نہیں، لیکن سنجیدہ غور و فکر ہمیں ناامیدی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی کرن ضرور بخش سکتا ہے، دشمن کی سوچ تک پہنچنے کے لیے نہ صرف اعلٰی تعلیم کا حصول ناگزیر ہے بلکہ عوامی سطح پر شعور کو بیدار کرنے کے لیے جامع اور بنیادی منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
استعمار کا پسی ہوئی انسانیت کو دیا جانے والا ایک گھاؤ ہمارے بکے ہوئے حکمران ہیں، جو چند روزہ مادی عیش و عشرت اور نام و نمود کی خاطر یا پھر ذہنی مرعوبیت کی وجہ سے دشمن کی غلامی کے پھندے کو اپنے گلے کا ہار سمجھ کر بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ یہ صرف ہمارے ملک کا نہیں بلکہ تقریباً سارے عالم اسلام کا المیہ ہے۔ تیل پر قابض عرب حکمران ہوں یا OIC کا بےجان جسد، یہ سب درحقیقت استعمار کے مہرے ہیں، جنھیں وہ حسب منشاء استعمال کرتا ہے۔
جامد و ساکت عیاش حکمران اپنا عرصۂ اقتدار پورا کرنے اور پھر دوبارہ حصول اقتدار کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، انھیں دراصل عوام کی ترقی و تنزلی یا خوشحالی و بدحالی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لہٰذا عوام کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ وہ جسے اپنے مستقبل کی باگ ڈور سونپنے جا رہے ہیں، وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ با کردار بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے بدلتے ہوئے گوناگوں حالات کا مطالعہ اور تجزیہ بھی اپنے داخلی حالات کو سمجھنے اور بدلنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا غلط استعمال ہے۔
ہمارے نوجوانوں کے ذہن منجمد ہوتے نظر آتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نوجوانوں کا اپنے جذبات کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا اگر ایک طرف استعمار کی سازش ہے تو دوسری طرف اس میں ہماری کم عقلی اور سہل پسندی بھی کارفرما ہے۔ کہیں یہ نوجوان دین کے نام پر تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں اور کہیں وسعت نظری کا جھانسہ دے کر انھیں مادر پدر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی صحت مند ذہنی تربیت معاشروں کو ناامیدی کے بھنور سے نکالنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم بہت سے مسائل کو حل کرنے میں تبھی کامیاب ہوسکتے ہیں جب اپنے نوجوانوں کو اسلام کا صحیح، مکمل اور صحت مند تصور پیش کرسکیں، تاکہ یہ لوگ استعمار کے پیش کردہ اسلام کے جھانسے میں آکر اپنے ہی لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
ہمارے دیگر بڑے مسائل جیسے اقتصادی بحران، توانائی کا بحران، بے روزگاری اور ذہنی تناؤ اور کھچاؤ وغیرہ کا تعلق بھی براہ راست ہمارے منتخب شدہ یا مسلط شدہ صاحبان اقتدار سے ہے، جو در حقیقت استعمار کے برگزیدہ لوگ ہیں۔ اگر یہی اپنے وطن اور قوم سے مخلص ہوجائیں تو ہم مل کر بہت حد تک کم از کم اپنے اندرونی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس نقطے پر مجھے دوبارہ ایرانی مملکت کی مثال نظر آتی ہے، جو بے حساب استعماری سازشوں اور دباؤ کے باوجود حکومت اور عوام میں ہم آہنگی کے باعث اپنے اندرونی و بیرونی مسائل بطریق احسن قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا اخلاص، اتفاق اور اتحاد ہی ہے جس کی وجہ سے آج استعمار اور اس کے حواری ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی جرأت نہیں کرتے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے عوام بھی تمام تر صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، مخلص ہیں اور آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے ہیں، لیکن حقائق سے لاتعلق رہ کر سنی سنائی باتوں پر یقین کر لینا سادہ دلی نہیں ناسمجھی ہے۔ ہمیں اپنے دل و دماغ کے کھڑکیاں دروازے کھول کر حقائق کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ حقیقت حال کو جان کر بڑی سمجھ داری کے ساتھ مل جل کر اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔
Add new comment