امام زمانہ عج کی معرفت کا طریقہ
امام زمانہ عج کی غیبت ہمیشہ سے اہم ترین معتبر اور اصلی ترین مسئلہ کے طور پر موجود ہے وہ اس طرح سے کہ تمام معصومین ؑنبی مکرم اسلامؐ سے لے کر امام عسکری ؑ تک سب ہی بار بار امام زمانہ عج کے وجود مبارک اور ان کی صفات و خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے رہے ،تمام شیعہ اور غیر شیعہ روایات کے مجموعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بارے میں صرف لازمی حد تک ہی نہیں بلکہ تواتر سے تعارف کروایا گیا ہے۔عثمان عمری کہ جو امام حسن عسکریؑ کے وکلا ء میں سے تھے فرماتے ہیں،’’میں نے اپنے والد سے سنا ہے جب وہ امام حسن عسکری ؑ کی خدمت میں موجود تھے تو میرے والد نے دریافت کیا،کیا یہ بات درست ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،’’من مات ولم یعرف امام زمانہ مات مینہ جاھلیۃ‘‘امام ؑ نے جواب دیا!ہاں یہ بالکل درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیںہے بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے اس وقت روز روشن کا دن ہونے میں کوئی شک نہیںہے‘‘۔
میرے والد نے دریافت کیا کہ آپؑ کی رحلت کے بعد آپ ؑ میں سے کون امام ؑ ہو گا،تو امام حسن عسکری علیہ السلام نے حضرت ولی العصر عج کا نام مبارک لے کر اشارہ کیا اور فرمایا،’’ان کی غیبت طولانی ہو گی جس کے باعث کچھ لوگ سر گرداں ہو جائیں گے ،کچھ گروہ ہلاک ہو جائیں گے اور کچھ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائیں گے‘‘۔(کمال الدین ج ۲ص۸۱،کفایۃ الاثر ص ۹۴،کشف الغمہ ج ۲،ص ۵۲۸)
چنانچہ اس بنیاد پر ولی العصر عج کی غیبت بہت سارے لوگوں کے لئے دشوار ہو گی اور بہت سارے لوگوں کے اذہان کو شکوک شبہات مسموم کریں گے کچھ یہ کہیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہزار برس سے بھی زیادہ زندہ رہے ،کچھ گروہ یہ کہیں گے کہ کیا معلوم وہ آئیں گے بھی؟اور بعض لوگ دوسرے قسم کے شک و شبہ کا اظہار کریں گے اور یوں سادی یا پیچیدہ شکوک و شبہات کو ذہنوں میں پرورش دیتے رہیں گے،بہر حال ہمیں تو مسلسل ان کے ظہور کے انتظار میں رہنا ہے،اور اس چیز کا امکان موجود ہے کہ خدانخواستہ جوں جوں ان کی غیبت طولانی ہوتی جائے ،شکوک شبہات اور بے چینی و اضطراب میں بھی اضافہ ہوتا جائے،کیا کریں کہ انفردای واجتماعی دونوں سطحوں پر ان شکوک شبہات میں مبتلا نہ ہوں ،دینی مسائل و مباحث عل الخصوص حکومت اسلامی کا مخصوص نظریہ ولایت فقیہ کے حوالوں سے مختلف نظریات کا شکار نہ ہو جائیں شبہوں کے جوہڑوں میں نہ ڈوبیں بلکہ امام و امامت کی اصلی شناخت کے ذریعے اس زمانے کی موجود مشکلات کو پہچانیں اور ان کا حل ڈھونڈیں۔
ولی خدا اور امام عصر عج کی شناخت ،نجات استگاری کا واحد طریقہ ہے جسے ذات اقدس خداوند سے مانگنا چاہئیے اور علمی و عملی مجاہدہ کر کے حاصل کر نا چاہئیے،جہالت سے نجات کا وعدہ اور گمراہی کی ظلمت سے رہائی کا خیال بصیر انسان کے دلوں کو ایک عرصے سے مشگول رکھے ہوئے ہے اسی سبب سے اہل بیت ؑ کے بعض خاص شاگرد ہدایت کے راستے کو پانے کی خاطر آخری حجت الہیٰ کی معرفت کے بارے سوالات اپنیے اپنے زمانے کے معصوم سے دریافت کرتے رہے،جیسا کہ جناب زرارہ فرماتے ہیں،میں نے امام صادق ؑ سے سنا کہ آپ ؑ نے فرمایا:’’ہماراقائم عج اپنے قیام سے پہلے ظاہر ہو جائے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا،پھر فرمایا،اے زرارہ وہ ہوں گے ان کی غیبت طولانی ہو گی ،میں نے عرض کیا کیوں؟آپ ؑ نے فرمایاتا کہ ان کا انتظار کیا جائے اور لوگ ان کی ولادت میں شک کریں گے،بعض کہیں گے ان کے والد اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ،جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،بعض کہیں گے کہ نہیں وہ شکم مادر میں تھے،بعض کہیں گے وہ غائب ہیں،کچھ کہیں گے کہ دنیا میں ہی نہیں آئے ،جانے رہو کہ یہی موعود منتظر ہیں‘‘۔یہ خدا وند متعال کے ولی ہوں گے ان کے ذریعہ شیعوں کو آزمایا جائے گا اور اس دشوار آزمائش میں باطل کی طرف جھکائو رکھنے والے شک و شبہ سے دوچار ہو جائیں گے۔زرارہ (گویااس حال میں اس قسم کے شکوک شبہات کے قائم ہونے سے خوفزدہ ہو گئے اور اس کا چارہ کرنے کی فکر میں مبتلا ہو گئے)عرض کرنے لگے!میں آپ ؑ پر فدا ہو جائوں اگر میں وہ زمانہ پائوں تو کیا کروں؟امام ؑ نے ارشاد فرمایا!’’اگر تم ایسا زمانہ پائو تو مسلسل تمہارا دل اس دعا میں مشغول رہے،اللھم عرفنی نفسک،فانک ان لم تعرفنی نفسک لا اعرف نبیک،اللھم عرفنی رسولک ،فانک ان لم تعرفنی حجتک،فکلت عن دینی ‘‘۔(الکافی ج ۱ ص ۳۳۷،کمال الدین ج ۲ ص ۱۲)یہ دعا پڑھنے اور مانگنے کے لئے الفا ظ کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس میں عمیق معارف اور قیمتی دروس پنہاں ہیں کہ ان میں غور وفکر کرنے اور ان تعلیمات پر عمل کرنے سے ہدایت و معرفت حاصل ہوتی ہے۔جیسا کہ زرارہ نے اپنی مشکل کو اس گرانقدر درس کے ذریعہ دور کیا۔
امام عصر عج کی شخصیت اور ان کے مقام و الائے امامت کی شناخت کی کئی ایک راہیں موجود ہیں،وہ دعائیں اور زیارات جو خود امام عصر عج سے مروی ہیں یا دورسے آئمہ کے ذریعے حضرت عج کے بارے میں آئیں ہیں معرفت کی تمام دوسری راہوں سے زیادہ بہتر ہیں ،جب ہم نہج البلاغہ کی عبارات میں غور و فکر کرتے ہیں ،واقعہ کربلا کے آغاز سے اختتام تک سید الشہدا امام حسین ؑ کے بیانات پڑھتے ہیں اور صحیفہ ٔ سجادیہ کے بلند معارف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان ذریعوں سے امام علیؑ،امام حسین ؑ اور امام سجاد ؑ کے منشاء اور پروگرام کو سمجھ پاتے ہیں ۔علمی حوزہ جات کو قائم کر کے اور علمی مناظروں کو برگزار کر کے صادقین علیہم السلام کے پروگراموں کا استنباط کرتے ہیں،اسی طرح امام عصر عج سے متعلق دعائوں کے ذریعے آپ کے پروگراموں کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ جب کوئی امام دعا کرتے ہیں تو دعا کے تقاضوں کے علاوہ امامت کی خصوصیات اور امت کے حوالے سے امام پر عائد ذمہ اریوں کو بھی پیش نظر رکھتا ہے ،ان دعائوں سے امام کے امت سے تعلق کے طریقہ کار اور امام کے ملکی و ملکوتی اثرات کی تشریح بھی ہوتی ہے۔
اس حوالہ سے اگر کوئی یہ چاہے کہ وجود مبارک ولی العصر عج کی شناخت حاصل کرے تو اسے چاہئیے کہ حضرت سے متعلقہ زیارتوں اور دعائوں کو زیادہ دقت سے اور زیادہ توجہ سے پڑھا کرے تا کہ اس ذریعہ سے امام کی حریم معرفت میں داخل ہو سکے اس حریم کے کچھ مراتب ہیں،جیسے جاہلیت کے غبار کو صاف کرنا ،تحبر کی گرد کو پاک کرنا ہے،جاننا چاہئیے کہ ہر مرتبہ کے اثرات دوسرے مرتبہ سے بالکل جدا ہوتے ہیں جیسے امام عصر عج کی ابتدائی معرفت مثلاً ان کی تاریخ ولادت ،غیبت صغریٰ کا زمانہ ،غیبت کبریٰ کا زمانہ وغیرہ وغیرہ،کا جاننا امام کی امام ت حقیقی کے معنوںکی معرفت جیسی نہیں ہے ،جس طرح حدوث ،نظم،امکانماھوی،امکان فقری سمیت اس قسم کی تمام معرفتیں شناخت خدا کے لئے راہ کشا ہیں لیکن یہ کہ خدا کو اس کی لوہیت کے ساتھ پہچاننا بہترین راہ معرفت خدا وند ہے،اور جس طرح راہ معجزہ سے رسول اکرم ؐ کی معرفت کافی ہے لیکن یہ کہ آنحضور ؐ کی معرفت کے بالا مراتب کا حق ادا نہیں کرتی ،جب آنحضرت ؐ کو رسالت کے متعلق علم کے ذریعے پہچانا جائے تو آپ ؐ کی معرفت کے لئے معجزہ کے سبب کی ضرورت نہیں رہتی۔پس جب الوہیت اور رسالت سمجھ میں آ جائے تو پھر خدا اور رسول کی معرفت خود بخود حاصل ہو جاتی ہے۔
شیخ کلینی ؒ اور شیخ صدوق ؒ سے روایت ہے کہ ولی امر کو ان خصوصیات سے پہچانا جا سکتا ہے ،’’اعرفوااللہ باللہ والرسول بالرسالۃ واولی الامر بالامر بالمعروف والعدل والاحسان‘‘(الکافی ج ،۱،ص ۷۵،التوحید صدوق ۲۸۴)تاہم یہ نقل کافی نہیںہے کیونہ صرف امر بالمعروف اور عدل اور احسان سیہر گز ہر گز اولی الامر کو نہیں پہچانا جا سکتا ،کیونکہ امر بالمعروف کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک اور جگہ فرمایا ہے؛’’بالمعروف والعدل و الاحسان ‘‘(الکافی ج ۱ ص ۹۵،التوحید صدوق ص ۲۸۴)کیونکہ امام معروف ،عدل اور احسان سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ امر بالمعروف سے ان کی سیرت عدل اور ان کا راستہ احسان ہوتا ہے اگر کوئی معروف شناس ہو تو وہ حقیقت کو ولی امر میں پائے گا اسی طرح عدل و احسان پہچاننے والا عدل و احسان کو امام کی سنت و سیرت میں مشاہدہ کرتے ہوئے پا لے گا کہ یہی صاحب مقام ولایت ہے۔
http://www.isotalibat.org/index.php?option=com_content&view=article&id=1...
Add new comment