امام عصر عج کی معرفت کی اعلی ترین راہ

 انسان پروردگار کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کبھی تو ا سکی آفاقی نشانیوں تو کبھی انقسی نشانیوں سے استفادہ کرتا ہے جبکہ دوسرے مرتبہ میں اعرفوااللہ باللہ کی اساس پر ،بک عرفتک و انت دللتنی علیک (اقبال الاعمال  ۳۳۵،البلد الامین  ص ۲۰۵،دعائے ابی حمزہ ثمالی)یامن دل ذابہ بذاتہ (بحار الانوار  ج ۸۶،ص ۳۳۹)پروردگار عالم کو خود اس کے وجود مبارکہ کی راہ سے پہچانا جا سکتا ہے اور شاہدانہ انداز میں پایا جاتا ہے کہ،اولم یکف بریٔک انہ علیٰ کل شئی شھد(سورہ  فصلت آیت ۵۳)پس جو لوگ آیات آفاقی یا انفسی کے راستے پر چل رہے ہوتے ہیں ان کوئی زبان حال میں یہ کہے کہ کیوں ذات حق کو غائب سمجھ رہے ہو جو آفاق انفس میںاس کی جستجو کر رہے ہو،اور اس تک جانے کی راہ کو ڈھونڈھ رہے ہو۔جبکہ ان دونوں سے پہلے ہی خدا تمھارے سامنے مشھود ہے۔

ابتداء میں فرمایا گی:سنریھم أٰیتنا فی الافاق وفی انفسھم حتیٰ یتبیعن لھم انہ الحق(سورۃ فصلت آیت ۵۳)اس کے بعد پروردگار عالم کی معرفت کے کافی ہونے نیز ا س کی آیات آفاقی و انفسی سے بے نیازی کے بارے میں اس طرح فرمایا گیا:اولم یکف بربک ،اور پھر وجود مبارک حق کی اس کی معرفت کے حوالے سے دلیل کفایت کو اس طرح بیان کیا گیا،انہ علی کل شیٔ شھید،یعنی انسان جو کچھ مشاہدہ کرنا چاہے تو پہلے خدا کو دیکھتا ہے اور اس پہلے کہ کوئے دلیل،فہم دلیل،بلکہ وہ خود کہ مقام مستدل پر فائز ہے ہر کسی کو درک کرنے سے پہلے خدا کو درک کرتا ہے ،مندرجہ بالا آیت میں شھید فعیل کے وزن پر ہے اور مفعول کے معنی میں ہے فاعل کے معنی نہیں۔(تفسیر البحر المحیط ج  ۷،ص

 

 

Add new comment