جناب سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت امام زمانہ (عج) کی ولادت
البحار میں محمد بن عبداللہ المطہری سے یہ بیان نقل ہوا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ میں سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا کے پاس ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکری علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد حاضر ہوا تاکہ میں آپ علیہ السلام سے حجت کے بارے پوچھوں اور جس حیرانگی اور پریشانی میں اس وقت لوگ سرگرداں ہیں اس بارے جواب معلوم کرو۔
حضرت سیدہ حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا: ادھر بیٹھ جاﺅ
پس میں بیٹھ گیا، پھر آپ علیہ السلام نے اس طرح مجھ سے فرمایا:
”اے محمد یہ بات جان لو، اللہ تبارک وتعالیٰ زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا یا تو حجت ناطقہ(بولنے والی) ہو گی یا حجت صامت(خاموش) ہو گی حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نمائندگی دو بھائیوں میں قرار نہیں دی، یہ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی فضیلت ہے اوران کو باقی سے جدا کرنے کے لئے کہ پوری کائنات میں ان دوبھائیوں جیسا کوئی نہیں ہے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولاد پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد کو فضیلت عطاءفرمائی( اوراپنی نمائندگی ان میں رکھ دی)جس طرح حضرت ھارون علیہ السلام کی اولاد کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد پر فضیلت و برتری عطا کی گئی اگرچہ حضرت موسیٰعلیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام پر حجت تھے ۔ لیکن حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد کو قیامت تک کے لئے یہ فضیلت حاصل ہے۔
امت کے لئے حیرت قرار ہو گی سرگردانی میں وہ ضرور پڑیں گے اس میں باطل والے بھٹک جائیں گے اور حق والے چھٹکارا پالیں گے تاکہ لوگوں کی جانب سے رسولوں کے گذر جانے کے بعد ان پر کوئی حجت عذراور بہانہ موجود نہ ہو۔ ابومحمدعلیہ السلام کے گذر جانے کے بعد حیرت اور پریشانی یقینی ہوئی تھی۔
راوی: کیا حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے بیٹا تھا؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: مسکرا دیں پھر فرمایا:اگرحسن علیہ السلام کا بقیہ نہ ہوگا تو پھر آپ علیہ السلام کے بعد حجت کون ہوں گے؟اور میں نے تو تمہیں یہ بات بتا دی ہے کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے بعد دو بھائیوں میں حجت اور نمائندگی خدااکٹھی موجود نہ ہو گی۔
راوی: میں نے عرض کیا، میری سردار بی بیعلیہ السلام ، مجھ سے میرے مولا علیہ السلام کی ولادت اور ان کی غیبت بارے بیان کریں؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: جی ہاں! بیان کرتی ہوں۔
بات کچھ اس طرح سے ہے کہ میرے لئے ایک کنیز تھی جسے نرجس پکارا جاتا تھا ایک دن میرے بھائی کے بیٹے(میرے بھتیجے امام حسن علیہ السلام ) مجھ سے ملنے تشریف لے آئے تو آپ علیہ السلام نے اس کنیز کی طرف بہت ہی دلچسپی اور توجہ سے نگاہ فرمائی اور اسے غور سے دیکھا اور ان پر پیار کی نظرڈالی،تو میں نے ان سے کہا کہ اے میرے سردار علیہ السلام !آپ علیہ السلام نے اس کنیز کو لینے کا قصد کر لیا ہے؟ تو کیا میں انہیں آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
توآپ علیہ السلام نے میرے جواب میںفرمایا:”نہیں پھوپھی جان! لیکن مجھے اس کو دیکھ کو تعجب ہو رہا ہے “۔
میں نے پوچھاوہ کیسے ؟
تو آپعلیہ السلام نے فرمایا”اس سے ایک کریم فرزند ہو گا جو اللہ کے نزدیک بڑی شان والا ہے، زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی“۔
میں نے پھر پوچھا تو کیا پھر میں اس کنیزکو آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”اس بارے میں میرے باپ سے اجازت لے لیں“۔
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: میں نے اپنا لباس پہنا اور تیار ہو کر ابوالحسن علیہ السلام (امام علی نقی علیہ السلام ) کے گھر آ گئی ۔ میں نے آپ علیہ السلام کو سلام کیا اور بیٹھ گئی تو آپ علیہ السلام نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا اور فرمایا:”اے حکیمہ علیہ السلام !تم نرجس علیہ السلام کو میرے بیٹے ابومحمد علیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام)کے پاس بھیج دو“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں نے عرض کیا: میرے سردارعلیہ السلام !میں اسی ارادہ سے آپ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی تھی کہ آپ علیہ السلام سے اس بارے اجازت لے لوں اور انہیں ابومحمد علیہ السلام کے پاس بھیج دوں۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام: اے مبارکہ! اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کو اس ثواب میں شریک کرے اور آپ علیہ السلام کے لئے اس خیروبرکت میں حصہ قرار دے“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں وہاں نہ رکی اور فوراً اپنے گھر آ گئی میں نے نرجس علیہ السلام کو بتایااور اس کا ہارسنگھارکیا اور اسے ابومحمد علیہ السلام کے لئے ہدیہ کر دیااور انہیں میں نے اپنے گھر میں ہی ایک کمرہ دے دیا اور اس میں ان کے لئے آرام وسکون کا پوراپورا انتظام کردیا۔
ابومحمد علیہ السلام میرے گھر میں کچھ دن تک موجود رہے۔ اس کے بعدآپ اپنے والد کے گھر تشریف لے گئے اور نرجس علیہ السلام کو میں نے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
السیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا:۔ ابوالحسن علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ابومحمد علیہ السلام ان کی جگہ پر بیٹھے تو میں ان کی زیارت کے لئے اس طرح جایا کرتی تھی جس طرح میں ان کے والد کی زیارت کے لئے جایا کرتی تھی۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ نرجس علیہ السلام میرے پاس آئی اور انہوں نے میرے پاﺅں سے جوتے اتارنے کا ارادہ کیا اور یہ فرمایا کہ میری سردار اپنے جوتے مجھے دیں میں انہیں رکھ دیتی ہوں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے جواب میں کہانہیں توں میری سردار ہے، توں میری مولا اور آقا ہے ، خدا کی قسم!میں اپنے پاﺅں تیری جانب نہیں بڑھاﺅں گی کہ تم میرے پاﺅں سے میرے جوتے اتارو اور اس بات کی اجازت بھی نہیں دوں گی کہ تم میری خدمت کرو بلکہ میں تمہیں اپنی آنکھوں پر بٹھاﺅں گی میں تمہاری خدمت کروں گی تم میری سردار ہو۔
سیدہ حکیمہ علیہ السلام کی اس بات کو حضرت ابومحمدعلیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام) نے سن لیا اور آپ علیہ السلام نے یہ بات سن کر فرمایا:
پھوپھی جان!اللہ آپ علیہ السلام کو جزائے خیر دے میں غروب آفتاب تک آپ کے پاس موجود رہی میں نے وہاں پر موجود ایک کنیز کو آواز دی کہ میرے کپڑے لے آﺅ تاکہ میںاپنے گھر جاﺅں۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ ابومحمد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا:”اے پھوپھی جان!آج رات آپ علیہ السلام ہمارے پاس ٹھہریں گی، کیونکہ آج رات مولود کریم کی ولادت ہے جس کی اللہ کے ہاں شان ہے، اللہ عزوجل ان کے ذریعہ زمین کو ویرانی کے بعد آباد کردے گا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ اے میرے سردار!میں نرجس علیہ السلام میں تو حمل کا کوئی اثر نہیں دیکھتی؟
ابومحمد علیہ السلام :۔ نرجس(سلام اللہ علیہا)سے،کسی اور سے نہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں دوڑ کر نرجس کے پاس گئی میں نے ان کے آگے پیچھے سب دیکھا میں نے حمل کا کوئی اثر و نشان تک موجود نہ پایا۔میں واپس ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی اور ان کو اس عمل بارے بتایا جو میں نے انجام دیا۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام مسکرا دیے پھر میرے لئے فرمایا:جس وقت فجر کا وقت ہو گا توآپ علیہ السلام کے لئے نرجس ہی سے حمل ظاہر ہوگا، کیونکہ ان کی مثال موسیٰ علیہ السلام کی ماں جیسی ہے کہ ان کا حمل ظاہر نہ ہوااور ولادت کے وقت کسی ایک کو اس کا علم نہ ہو سکا کیونکہ فرعون ان تمام خواتین کے شکم چاک کروا دیتا تھا جن میں حمل کے آثار موجود ہوتے تھے تاکہ وہ موسیٰعلیہ السلام کو تلاش کر سکے اور اسے ولادت سے پہلے ہی ختم کردے۔تو اس مولود کی مثال بھی موسیٰعلیہ السلام کی جیسی ہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں طلوع فجر تک بڑی توجہ سے سیدہ نرجس علیہ السلام کو دیکھتی رہی اوران پر میری نظر رہی جب کہ آپ علیہ السلام آرام سے میرے سامنے سو رہی تھیں اورآپ نے اپنا پہلو تک نہ بدلا۔ جب رات کا آخری پہر ہوا اور طلوع فجر قریب ہوا تو یکدم وہ اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھیں خوفزدہ تھیں میں نے انہیں اپنے سینہ سے چپکا لیا اور میں نے اس پر ”بِس مِ اللّٰہِ الرَّح مٰنِ الرَّحِی مoپڑھا۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے مجھے آواز دے کر فرمایا”اس پراِنَّا اَن زَل نٰاہُ فِی لَی لَةِ ال قَد رِپڑھو
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کاحال کیساہے؟
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ وہ امر ظاہر ہو چکا ہے جس کے بارے میرے سردار نے آپ کو خبر دی تھی۔
السیدہ حکیمہعلیہ السلام :۔ جیسے مجھ سے ابومحمد علیہ السلام نے فرمایا:میں نے نرجس علیہ السلام پر ”سورہ اِنَّا اَن زَل نَاہُ فِی لَی لَةِ ال قَد رِ....“کوپڑھنا شروع کر دیاتوبچے نے نرجس علیہ السلام کے شکم سے مجھے جواب دیا جس طرح میں پڑھ رہی تھی اسی طرح اس بچے نے بھی پڑھنا شروع کر دیا اور میرے اوپر سلام بھی کیا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب میں نے یہ سنا تو میں گھبرا گئی۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے زور سے آواز دے کر فرمایا:”اللہ عزوجل کے امر بارے حیران مت ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بچپن میں ہم سے حکمت بلواتا ہے اور بڑے ہونے پر اپنی زمین پر ہمیں حجت بنا دیتاہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ ابھی ابومحمد علیہ السلام کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ نرجس علیہ السلام مجھ سے غائب ہو گئیں اس طرح کہ میں ان کو نہ دیکھ سکی گویا میرے اور ان کے درمیان حجاب قرار دے دیا گیا، تو میں دوڑتی ہوئی ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی جب کہ میں چلا رہی تھی ۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے اس حالت میں دیکھ کرفرمایا: پریشان نہ ہوں واپس لوٹ جائیں ابھی آپ علیہ السلام نرجس علیہ السلام کو اپنی جگہ پرموجود پاﺅ گی۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں واپس آ گئی تھوڑی دیر ہی گذری ہو گی کہ میرے اور نرجس علیہ السلام کے درمیان جو پردہ آ گیا تھا وہ ہٹا دیا گیا میں نے اچانک انہیں اپنے سامنے موجود پایا تو ان کے پورے وجود پرنورکااثرتھااور یہ نور اس قدر روشن تھا کہ میری آنکھوں کے نور پر چھا گیا اسی کے ساتھ ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ سجدہ کی حالت میں موجود ہے پھر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اپنی صبابہ(انگشت شہادت) کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا”لَا اِلہٰ اِلَّا اللّٰہَ وَح دَہُ لَا شَرِی کَ لَہُ وَاَنَّ جَدِّی رَسُو لُ اللّٰہُ وَاَنَّ اَبِی اَمِی رُال مُو مِنِی نَ“اس کے بعد ایک ایک کر کے سارے اماموں کا نام لیا اور جب اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا”اَللّٰھُمَّ اَن جِز لِی وَع دِی ، اَت مِم لِی اَمرِی وَثَبِّت وَطَاتِی وَام لَا اَل اَر ضَ بِی عَد لاً وَّقِس طاً“
ترجمہ:۔ اے اللہ میرا وعدہ پورا کر دے، میرے امر کو پورا کر دے میری چاپ کو مضبوط بنا دے اور میرے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔
ابومحمد الحسن علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے بلند آواز دے کر فرمایا: اے پھوپھی جان! بچے کو اٹھا لو اور اسے میرے پاس لے آﺅ پس میں نے بچے کو اٹھالیا اور میں اسے ابومحمد علیہ السلام کے پاس لے آئی پس جب میں آپ علیہ السلام کے باپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور آپ علیہ السلام میرے ہاتھوں میں موجود تھے، تو آپ علیہ السلام نے اپنے بابا پرسلام کیا، اس کے ساتھ ہی ابومحمد الحسن علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو مجھ سے لے لیا میں نے دیکھا کہ کچھ پرندے ہیں جو آپ علیہ السلام کے سر مبارک پرمنڈلارہے ہیں۔پس ابومحمد الحسن علیہ السلام نے ان پرندوں سے ایک کوآواز دی وہ آپ علیہ السلام کے پاس آ گیاآپ علیہ السلام نے اس پرندے سے فرمایااس کو اٹھالو اس کی حفاظت کرو اور ہر چالیس دن بعد اس بچے کو ہمارے پاس واپس لے کر آیاکرو اس پرندے نے آپ کو لیا اور آسمان کی جانب فضا میں اڑ گیا اور باقی سارے پرندے اس کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلے گئے۔میں نے یہ سنا کہ ابومحمد علیہ السلام فرما رہے تھے : © میں نے تجھے اس کے سپرد کردیاہے جس کے سپرد موسیٰعلیہ السلام کی ماں نے موسیٰعلیہ السلام کو کیا تھا۔
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ یہ دیکھ کرسیدہ نرجس علیہ السلام روپڑیں تو ابومحمد علیہ السلام نے ان سے فرمایا: خاموش رہو، روﺅنہیں ان پر دودھ کسی اور کا حرام ہے اس نے دودھ آپ علیہ السلام کے سینہ سے ہی لینا ہے اسے تیرے پاس واپس لایا جائے گا جس طرح موسیٰعلیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا گیا تھا اور اس بارے اللہ عزوجل کا یہ قول ہے ”فَرَدَد نَاہُ اِلیٰ اُمِّہِ کَی تَقَرَّعَی نُھَا وَلَا تَح زَن “(سورہ القصص آیت۳۱)
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ پرندوں کا قصہ کیاہے؟ اور یہ پرندہ کون تھا؟ جس کے سپرد اس مولودکو کیا گیا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا”یہ پرندہ روح القدس تھا جس کی ڈیوٹی آئمہ علیہ السلام کے لئے لگائی گئی ہے وہ ان تک فقہ پہنچاتا ہے علم کی غذا ان کے لئے لاتا ہے اور انہیں محفوظ رکھتا ہے ، ان کی دیکھ بھال رکھتا ہے ان کاخیال رکھتاہے؟
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب چالیسواں دن آیا تو اس بچے کو واپس ان کے باپ کے پاس لایا گیا تو آپ علیہ السلام نے مجھے بلوا بھیجا جب میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے ایک بچے کو آپ علیہ السلام کے سامنے چلتے دیکھتا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیاکہ یہ بچہ تو دو سال کا لگ رہا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا:انبیاءعلیہ السلام اور اوصیاءعلیہ السلام کی اولاد جب کہ وہ آئمہ علیہ السلام سے ہوں تو ان کی نشوونمادوسرے افرادسے مختلف ہوتی ہے ہمارے بچوں پر جب ایک ماہ گزرتا ہے تو وہ دوسروں کی بہ نسبت ایک سال کے ہو جاتے ہیں اور ہمارے بچے جو ہیں وہ ماں کے شکم میں باتیں کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، اپنے رب کی عبادت ماں کے شکم میں کررہے ہوتے ہیں، دودھ پیتے وقت فرشتے ان کی اطاعت کررہے ہوتے ہیں اورفرشتے ان پر صبح کے وقت اور شام کے وقت اترتے ہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ تو میں ہر چالیس دن بعد اس بچے کودیکھا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے آپ علیہ السلام کو مکمل جوان دیکھا اور یہ ابومحمد علیہ السلام کے جانے سے چند ہی دن قبل کی بات ہے۔ میں نے پہلے تو آپ علیہ السلام کو نہ پہچانا اور ابومحمد علیہ السلام سے پوچھ لیا یہ کون ہیں؟ جن کے سامنے آپ مجھے بیٹھنے کاحکم فرما رہے ہیں تو آپ علیہ السلام نے میرے جواب میں فرمایا:
”یہ نرجس علیہ السلام کافرزند ہے، میرے بعد میرا خلیفہ ہے، تھوڑی مدت بعد تم مجھے اپنے درمیان نہ پاﺅ گی تو آپ علیہ السلام اس کی بات کوسننا اور ان کی اطاعت کرنا“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ پس تھوڑے دنوں بعد ابومحمدعلیہ السلام گذر گئے اور لوگ متفرق ہو گئے جیسا کہ تم اس وقت دیکھ رہے ہو، خدا کی قسم! میں تو انہیں صبح بھی دیکھتی ہوں اور شام کے وقت بھی دیکھتی ہوں اور صحیح بات یہ ہے کہ تم جو کچھ مجھ سے سوال کرتے ہو وہ مجھے اس کے بارے میں جواب دیتے ہیں اور اس کی خبرپہلے ہی دے دیتے ہیں۔
خدا کی قسم! جب میں کسی بات کے بارے دریافت کرنے کاارادہ کرتی ہوں تو وہ خود سے ہی میرے سوال سے پہلے مجھے اس کا جواب دے دیتے ہیں اور جب کوئی معاملہ میرے درپیش ہوتا ہے تو فوراً اس کا جواب اسی وقت میرے پاس آجاتا ہے بغیر اس کے کہ میں ان سے سوال کروں، آپ علیہ السلام نے کل رات مجھے تمہارے آنے کی خبر دی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں حق کے بارے تمہیں آگاہ کروں۔
محمد بن عبداللہ :۔ خدا کی قسم! جناب سیدہ حکیمہ علیہ السلام نے مجھے ایسے امور کے بارے آگاہ کیا کہ جن کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہ تھا تو میں اس سے سمجھ گیا کہ یہ اللہ کی جانب سے سچ اور عدل ہے اور اس بات کا مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان امورپر مطلع کیا ہے کہ جن کے بارے اس نے اپنی مخلوق سے کسی اورکو مطلع نہیں کیا۔
(کمال الدین ص۹۲۴ ، مدینة المعاجزج۸ص۸۶، البحار ج۱۵ ص۲۱ حدیث ۴۱
حکومت مہدی(عج)تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
http://ahlulbaytportal.net/ur.php/page,18719Unit96653.html?PHPSESSID=486...
Add new comment