امام مہدیؑ کی حکومت
سب سے اہم بات جو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہمارے ساتھ مربوط ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی معرفت ہونی چاہئے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے سلسلہ میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے آپ علیہ السلام کی حکومت کے قیام بارے، آپ علیہ السلام کے ذریعہ جو فتوحات ہوں گی اس بارے،حکومت کے قیام کے لئے مقدمات فراہم کرنا، آپ علیہ السلام کے خروج و قیام کی تعجیل کے واسطے کام کرنے کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟
ان سوالات کے جواب کی ہماری سرگرمیوںکے واسطے بہت ہی تاثیر ہوگی۔
یہ فصل ان سوالات کا جواب کسی حد تک ضرور دے گی، جب کہ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ جس طرح ان امور کے بارے جواب ہونا چاہیئے اسے میں پیش نہ کر سکا، لیکن اس مقولہ کے پیش نظر کہ اگرپورا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو تو جو کچھ حاصل ہو رہا ہے اسے تو نہ چھوڑا جائے، ہم نے یہ سطور قلمبند کر دی ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے کسی نے اس بارے بحث نہیں کی تاکہ اس سے استفادہ کیا جاتا۔
اگر بحث میں وارد ہونے کی نیت سوائے اس کے کہ قاری اس تحریر سے کچھ باتیں اخذ کر سکے یا کچھ مطالب اسے مل سکیںکچھ اور نہیں ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بہت سارے مصنفین جو امام مہدی علیہ السلام کے بارے مقالات، کتابیں تحریر کرتے ہیں وہ ان موضوعات کو چھوڑ دیتے ہیں یا پھر کچھ اور موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں جن کی اہمیت کمتر ہے بلکہ بعض ایسے مطالب بیان کیے جاتے ہیں کہ جن کا بیان کرنا ظہور کی تحریک کے معاملات کے لئے نقصان دہ بھی ہے، جیسے ان ظہور کی تفصیلی یا اجمالی علامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے یا ظہور کی شرائط کو بیان کیا جاتا ہے ان امور کے بیان کرنے کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے انسان ان سے متاثر نہیں ہوتا سوائے چند امور کے جنہیں ہم آٹھویں فصل میں بیان کریں گے۔
وہ معاملہ جو تیاری سے مربوط ہے ہم اسے اس جگہ بیان کریں گے اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کے بعض اصحاب پربھی روشنی ڈالنے کا قصہ جیسے خراسانی اور یمانی“ اللہ ان دونوں کی حفاظت فرمائے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے فتوحات کوجلدلے آئے۔کے حوالے سے تفصیلات میں جانا یہ بھی زیادہ مفید نہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس شخصیت سے ایک قسم کاجذباتی لگاﺅ پیدا ہوجاتا ہے جن کے بارے یہ کہا جائے کہ یہی خراسانی اور یمانی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں پھر بعض قائدین اور رہبروں کے لئے ان ناموں کا دے دینا اس میں چند خرابیاں ہیں، نقصانات ہیں جیسے:
۱:۔ یہ تعین کرنا کہ عصر ظہور میں ہماری ذمہ داری اور شرعی تکلیف کیا ہے اور مجھے اب کیا کرنا ہے تو اس قسم کے بیان میں نہ تو آگے بڑھاجا سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے رہا جا سکتا ہے جب تک خراسانی اور یمانی خود اس امر کی اپنی جانب دعوت نہ دیںاور خود یہ اعلان نہ کردیں۔
۲:۔ جن کوہم خراسانی یا یمانی کا نام دیں گے ان کی زندگی کے لئے بھی خطرہ ہو گا کیونکہ منکرین اپنی پوری قوت کو اس پر جھونک دیں گی کہ ہر وہ ہستی جس نے مستضعفین کو منکرین سے نجات دلانی ہے اس کی آمد میں رکاوٹ ڈالی جائے اور جو بھی ان کے عنوان سے سامنے آئے گا تواس کا خاتمہ کردیا جائے گاخاص کر اگر بعض تجزیے سچے ہوں کہ منکریں آخری جنگ چھیڑنے کی تیاری کر رہے ہیں یا جسے وہ ہرمجدون(اس بارے ہماری دوسری کتاب کا مطالعہ کریں....مترجم)کی لڑائی قرار دے رہے ہیں، وہ اس میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیںاس لحاظ سے بعض موجودہ اسلامی قائدین کی جانب یہ اشارہ دینا کہ وہ خراسانی ہے یا یمانی ہے یا ....شعیب بن صالح ہے تو اس میں منکرین کو ان کے خلاف جنگ بھڑکانے اوران کے خلاف مخالفین کواکسانے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔
۳:۔ بعض شخصیات کو اس قسم کے القاب دینے سے موجودہ زمانہ میں بعض دوسری شخصیات کے تحفظات ہوں گے اگرچہ وہ منکرین سے نہ بھی ہوں، نسلی ، مذہبی، قومی، خاندانی قبائلی جیسے عناصر درمیان آجائیں گے خاص کر یہ ایک ایسا امر ہے جس کا عملی فائدہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ جس وحدت اور یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہے اس کو اس قسم کے بیانات سے دھچکا ضرور لگے گا۔
اس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام جو کہ بشریت کےلئے نجات دہندہ ہیں، ان کے حوالے سے سوچ اور نظریہ کو نقصان ہوگا ہم اس بارے بعد میں کچھ بیان کریں گے۔
۴:۔ پھر بعض شخصیات کو معین کر دینا کہ وہ ہی امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں اور ان کے نائبین ہیں خود ان شخصیات کے لئے نقصان دہ ہے ان کے وجود کی نفی کرنا ہو گی اور اگر یہ بات خدا نہ کرے سچ نہ ہوئی جیسا کہ سابقہ ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ جب کچھ لوگ کسی خاص شخصیت سے محبت کر رہے تھے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں یا جو لوگ امام خمینیؒ کے حوالے سے یہ عقیدہ بنا بیٹھے تھے کہ آپ ہی پرچم اسلام کو امام مہدی علیہ السلام کے سپرد کریں گے پھر ایسا نہ ہوا جس پرآپ کی وفات کے بعد کچھ نے ان خیالات پر حاشیہ چڑھایا، کچھ کا ایمان کمزور ہوا اور کچھ نے اس نظریہ کا مذاق اڑایا۔
اسی طرح آج اگر ایک اور شخصیت کے واسطے اسی قسم کی بات مشہور کر دی جائے کہ وہ اس پرچم کو امام زمانہ علیہ السلام کے سپرد کریں گے تو پہلی بات جو ہے کہ اس سے بعض لوگ ذاتی مفاد اٹھائیں گے اور بعض شک کریں گے دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کی شخصیت کا انکار کر دیا جائے گا ، اگر یہ نام اور عنوان سچ نہ ہوا اس طرح سے نظریہ مہدویت کے لئے یہ اقدام نقصان دہ ہوگا۔
۵:۔ سابقہ بات میں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے بعض شخصیات جو امام مہدی علیہ السلام کی منتظر تھیں اور ان کے بارے خیال تھا کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد تک زندہ رہیں گے جب یہ خیال جھوٹا ہو گیا، غلط ثابت ہوا، تو پھر اس سے مہدویت کا نظریہ بھی مشکوک ہو جائے گا اوراس سے بعض مفاد پرست اپنے مذموم ارادے پورے کریں گے اور اس بات کو اپنے باطل نظریات کی تقویت کاذریعہ بنائیں گے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مومن انسان پر لازم ہے کہ وہ اس بات پر پوری توجہ دے کہ اس کی شرعی تکلیف کیا ہے، جذباتی کیفیات، اندرونی احساسات اور بعض شخصیات سے انس اور محبت ،ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی اسلامی خدمات کے حوالے سے جذبات کے اظہار جیسے امور کو ایک طرف رکھ دیا جائے اپنی جانب سے اس قسم کے خیالات کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں امام مہدی علیہ السلام کے خاص ہیں اور فلاں خراسانی ہیں یا یمانی ہیں تاکہ وہ وقت آجائے جس کا انتظار ہے۔
خاص کر ان آخری ایام میں(یہ کتاب ۸۲۴۱ہجری میں لکھی گئی اور حزب اللہ کی اسرائیل پر فتح حاصل کرنے کے بعد تحریر کی گئی ہے، اس کامیابی کے بعد بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے جس کی طرف مصنف کا اشارہ ہے....مترجم)
جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور فرسودہ خیالات کو عام کیا جا رہا ہے ، خواب سنائے جا رہے ہیں، امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے اصحاب کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے لشکر کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں یا جو یہ کہا جا رہا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کو چاند میں دیکھا گیا ہے یا ان کے نائبین کو دیکھا گیا ہے یا بعض تحریریں جو چھپ چکی ہیں جو واقعات کی بنیاد بتاتی جا رہی ہیں یا ان جیسے واقعات کی تائید کر رہی ہیں یہ یسا امر ہے جس سے عوام سے بہت سارے لوگ متاثر ہورہے ہیںاورمزیدانہیں ایسے حالات میں پہنچایاجارہاہے یا وہ اپنے اوپر کچھ ایسے حالات کو ٹھونس رہے ہیں کہ جن کی کوئی ضرورت نہ ہے۔
علاوہ ازیں اس قسم کے امور خود امام مہدی علیہ السلام کے مسئلہ کو مشکوک بنا رہے ہیں اور لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری سے بھی روک رہے ہیں اس مبارک حکومت کے واسطے جو ضروری کام کرنے ہیں وہ اس طرح ادھورے رہ جائیں گے اور یہ بہت ہی نقصان دہ ہے، ہم اس جگہ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو بیان کریں گے جو ہماری دانست میں ہے کہ ایک فرد کی کیا ذمہ داری ہے؟ ایک معاشرہ کی کیا ذمہ داری ہے اور ایک حکومت کی کیا ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داریاں دو طرح کی ہیں۔
۱:۔ وہ ذمہ داریاں ہیں جو آپ علیہ السلام کی غیبت کے دورانیے سے متعلق ہیں اور آپ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کی ہے۔
۲:۔ آپ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ، آپ علیہ السلام کے قیام کے وقت جو ذمہ داریاں عائد ہوں گی یا اس کے بعد جو ذمہ داریاں آئیں گی۔
دوسرا مرحلہ ایسا نہیں کہ اس میں امام زمانہ علیہ السلام پر کوئی ذمہ داری لازم کی جا رہی ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے قیام کے ساتھ ہی ساری ذمہ داریاں، فرائض اور واجبات ختم ہو جائیں، وہی فرض اور واجب ہو گا جس کا آپ علیہ السلام حکم دیں گے لیکن ان امور کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
روایات میںجو آیا ہے کہ جب حضرت کا ظہور مبارک ہو جائے تو اس وقت ہمیں کیا کرنا ہے اور ظہور کے بعد کیا کرنا ہے ان روایات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت مومنین اپنے امام علیہ السلام کا دیدار کریں گے اور آپ علیہ السلام کی آواز کو سنیں گے تو اس وقت عوام کو کیاکرنا چاہئے؟ یہ سب روایات میں بیان ہوا ہے، اسے ہم یہاں پر ذکر کریں گے۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں
دعائے ندبہ میں یہ جملہ موجود ہے اے اللہ! ہماری مدد فرما کہ ہم ان کے حقوق جو ہمارے اوپر ہیں ان کوہم وہ پورا کریں اور ان کی اطاعت کرنے کے لئے پوری کوشش کریں اور ان کی نافرمانی سے دوری اختیارکریں۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے کچھ حقوق ہیں کچھ ذمہ داریاں ہیں،فرائض ہیں کچھ آپ کی ذات کے حوالے سے اور کچھ آپ علیہ السلام کی حکومت کے حوالے سے، ان سب کو ادا کرنا ہمارے اوپرواجب ہے ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ ترتیب وار کررہے ہیں۔
حکومت مہدی(عج)تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
http://ahlulbaytportal.net/ur.php/page,18726A96620.html?PHPSESSID=486f2e...
Add new comment